بس کر دیں خان صاحب! عوام کو اور کتنا رولائیں گے؟

بس کر دیں خان صاحب! عوام کو اور کتنا رولائیں گے؟
گذشتہ دنوں ایک ویڈیو کلپ وائرل ہوا، جس میں ہمارے ہینڈسم وزیراعظم عمران خان صاحب دانستہ یا نادانستہ طور پر "ٹسوے" بہاتے نظرآ ئے۔ اس ویڈیو میں دیکھائی جانے والی افسردگی کی اصلیت جانچنے کے لئے بہت سارے لوگ مغز ماری کرنے پر مجبور ہوئے۔ پر سیاسی تاریخ کا بغور جائزہ لیا جائے تو ایسا کلپ مملکت خدادا کی قسمت میں ہرگز برا شگن نہیں تھا۔ اللہ اللہ کر کے ہمیں ایک ایسا حکمران تو نصیب ہوا، جس نے ناصرف عوام کا دکھ درد محسوس کیا ہے بلکہ ازالے کرنے کے لئے "فنکاری" بھی دکھائی۔

ماضی میں تو ایسے مناظر صرف اس وقت دیکھنے کو ملتے تھے، جب حکمرانوں کے ذاتی مفادات پر شام غریباں آن پڑتی ہو۔ اس ویڈیو کے پیچھے سرگرداں نیتوں کے احوال تو اللہ میاں ہی جانتے ہوں گے، ہم مخلوق تو صرف اس کی ’’پروڈکشن کوالٹی‘‘ پر بات کرسکتے ہیں۔ حسب معمول نا صرف کلپ میں ریکارڈنگ اور ایڈیٹنگ کی کچھ فاش غلطیاں تھیں بلکہ اس بار تو ایکٹر کی کمزور ایکٹنگ بھی نمایاں تھی۔ مبینہ ’’ٹوٹے‘‘ کی منظر عام پر آنے کی کیا دیر تھی کہ کچھ لمحوں بعد ہی مختلف سیاسی جماعتوں کے گالم گلوچ بریگیڈ کے کی بورڈز جیسے آتشین اسلحوں سے لیس ہو کر ایک دوسرے کے خلاف اگلی صفوں میں مورچہ زن ہوگئے۔

حکمران جماعت کے ٹائیگرز کی نظر میں یہ کلپ جہاں فادر ٹریسا کی شخصیت کا ایک اور ان دیکھا، ان سنا انکشاف تھا۔ وہاں مخالف پارٹیوں کے بلونگڑے اس کی تشریح مگرمچھ کے آنسووں سے کرتے رہے۔ جبکہ اس بے وقوف اور اںاڑی لکھاری کی نظر میں ایسے غمگین نظارے کی اصل وجہ خان صاحب کی مولانا طارق جمیل صاحب سے قرببی رفاقت تھی۔ خدانخواستہ خان صاحب اپنے ہمنوا پیر کی پیروی اسی طرح کرتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب خان صاحب ہاتھ پھیلا کر ٹی وی پر براجمان ہوجایا کریں گے اور ایسی دعائیں کرایا کریں گے کہ خاص و عام زبردستی کے آنسو نکالنے پر مجبور ہو جائیں۔

ہر دلعزیز مولانا طارق جمیل صاحب جن کے کرامات پر اس ناعاقبت اندیش کے دل میں پہلے بہت سے شکوک و شبہات تھے، وہ اس دن ہی رفع دفع ہو گئے جب قبلہ نے اللہ میاں سے خان صاحب کے لئے اچھے مشیروں اور وزیروں کی دھڑلے سے دعائیں مانگیں اور محترم علیم خان دوبارہ وزارت کے مسند پر براجمان ہو گئے۔ اب یہ ناسمجھ لکھاری مولانا صاحب کی دیانت دار حکمران کے حق میں کی گئی دیگر کئی دعاؤں کی قبولیت کا بے چینی و بے صبری سے انتظار کر رہا ہے، جس کے بعد ہی شاید اس قوم کے نصیب میں صراط "مستقیم" لکھی جانی ہے۔

ویسے دیکھا جائے تو مولانا صاحب کی دعاؤں کے بعد اب ساری ذمہ داریاں علیم خان صاحب کے ناتواں کندھوں پر آن پڑی ہیں۔ ایک اچھے وزیر ہونے کے ناتے محترم علیم خان پر واجب ہے کہ وہ خان صاحب کو سمجھائیں کہ ان کا کام رونا نہیں، بلکہ عوام کو "رولانا" ہے اور اس کام کو خوش اسلوبی سے سر انجام دینے کے خاطر وہ بھی آپ کے ساتھ سر دھڑ کی بازی لگانے کو تیار ہیں۔ اس کام کے لئے اب خاص محنت یا ریاضت کی ضرورت نہیں۔ بس اس کے لئے سرکاری سطح پر وقفے وقفے سے ’’تنہائی‘‘ کے لمحات والی ایسی ویڈیوز کا اجرا کرنا ہے، جس پر بدذوق عوام کا ہاسا نکلنے کے بجائے رونا نکل جایا کرئے۔

لکھاری ایک نجی چینل سے وابستہ ہیں۔