Get Alerts

وزیر اعظم کی تحریک لبیک صورتحال پر خطاب میں نواز شریف پر تنقید: تنقیدی حوالہ بھی غلط دیا

وزیر اعظم کی تحریک لبیک صورتحال پر خطاب میں نواز شریف پر تنقید: تنقیدی حوالہ بھی غلط دیا
 

وزیر اعظم عمران خان نے آج سہ پہر پاکستانی قوم سے اس وقت ملک میں جاری بے چینی، خونریزی اور افراتفری کے سیاق و سباق میں خطاب کیا۔ ان کا کل نکتہ خطاب یہ رہا کہ معاملہ ناموس رسالت ﷺ کے تحفظ کا ہے اور اس معاملے پر حکومت اور مظاہرین کے جذبات کے درمیان کوئی فرق نہیں تاہم طریقہ کار کا اختلاف ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا ملک دنیا واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر بنا اور اس کا نعرہ تھا 'پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الااللہ، ہماے لوگ دین پر عمل کریں یا نہ کریں لیکن نبی اکرم ﷺ ہمارے لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں، اس لیے ان کی شان میں دنیا میں کہیں بھی گستاخی ہوتی ہے، تو ہمیں تکلیف پہنچتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں دنیا پھرا ہوں اور اس عمل سے صرف ہمیں ہی تکلیف نہیں پہنچتی بلکہ دنیا بھی جہاں کہیں بھی مسلمان بستا ہے تو اسے تکلیف ہوتی ہے۔

عمران خان نے کہا کہ پچھلے ہفتے جو افسوناک حالات ہوئے، ایک جماعت نے ایسے پیش کیا کہ جیسے انہیں اپنے نبیﷺ سے دیگر پاکستانیوں سے زیادہ پیار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تحریک لبیک پاکستان کے لوگ جس مقصد کے تحت لوگوں کو گھروں سے نکال رہے ہیں، میں یقین دلاتا ہوں کہ وہی میرا اور میری حکومت کا مقصد ہے، ہم بھی ان کی طرح یہی چاہتے ہیں کہ دنیا میں کہیں بھی ہمارے نبی کی شان میں گستاخی نہ ہو، صرف ہمارا طریقہ کار مختلف ہے۔

انہوں نے کہا کہ تحریک لبیک پاکستان یہ کہہ رہی ہے کہ فرانس میں جو ہوا تو اس پر فرانس کے سفیر کو واپس بھیجا جائے، ان سے تمام رابطے ختم کر دیے جائیں، ہماری حکومت کا طریقہ کار مختلف ہے لیکن مقصد ایک ہی ہے، وہ بھی یہ چاہتے ہیں کہ کسی ملک میں کسی کی جرات نہ ہو کہ ان کی بے حرمتی کرے، ہمارا بھی وہی مقصد ہے۔

تاہم عجیب بات یہ رہی کہ افراط و تفریط کا شکار قوم سے خطاب کے وقت بھی وزیر اعظم عمران خان اپنے سیاسی حریفوں کو نہ بھولے اور موقع گردانتے ہوئے ان کو ناموس رسالت ﷺ کے تحفظ کے جذبے سے عاری قرار دینے کے لیئے مثالیں پیش کیں۔  وزیر اعظم نے کہا کہ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور مسلم لیگ ن  تحریک لبیک کی حمایتمیں اتر آئے صرف سیاسی مقاصد کے لیئے۔  انہوں نے کہا کہ بطور لیڈر انہوں نے دنیا کے ہر فورم پر ناموس رسالت کے معاملے کو اٹھایا۔ ن لیگ بتائے نا کہ جب سلمان رشدی کی توہین آمیز کتاب آئی تو نواز شریف وزیر اعظم تھے انہوں نے کتنے بیانات دیئے؟ میں نے تو بہت جگہ بات کی۔

بظاہر وزیر اعظم یہاں بھی تاریخی حوالوں کی درستگی کے امر سے بے نیاز اپنے سیاسی حریف کو تنقید کا نشانہ بنا گئے تاہم حقائق یہ ہیں کہ سلمان رشدی  کا مبینہ توہین آمیز ناول 1988 میں شائع ہوا  جبکہ  نواز شریف پہلی بار 1990 میں وزیر اعظم بنے تھے۔

یہ بھی قابل ذکر بات ہے کہ موجودہ بحران میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی جانب سے کوئی بھی اشتعال انگیز بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ جبکہ تقریباً 3 سال قبل یہی وزیر اعظم تھے جن کے مسلم لیگ ن کی قیادت پر کئی الزامات اور اشتعال انگیز بیانات موجود ہیں جس کے بعد ملک کےاس وقت کے وزیر داخلہ احسن اقبال کو کارنر میٹٹنگ کے دوران گولی مارے جانے کا واقعہ بھی سامنے آیا تھا۔