پاکستان کی سیاست میں حب الوطنی کے نام پر غیر آئینی مداخلت کی تو ایک لمبی داستان ہے جس کے اعتراف بھی بڑے پر تپاک اور تفخرانہ انداز میں کیے جاتے رہے ہیں بلکہ ان مزاجوں کے خلاف عدالتوں کے فیصلے بھی عمل درآمد کو ترس رہے ہیں لیکن عمران خان پروجیکٹ کے بعد اس مداخلت نے ایک ایسا رخ اختیار کر لیا ہے جس سے سیاست کی محبت اداروں کے معاملات کے اندر بھی سرایت کرتی ہوئی دکھائی دینے لگی ہے اور موجودہ چیف آف آرمی سٹاف کی تعیناتی پر مبینہ طور پر ایک طویل سیاست کا سلسلہ جاری رہا اور یوں لگتا ہے کہ اس نے ادارے کی ترقی اور تعنیاتیوں کے سلسلے کو بھی سیاست زدہ کر دیا ہے۔
دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیے کہ سیاست کے اندر نظم و ضبط کو خراب کرنے کی غیر آئینی حرکتوں نے ریاست کے تمام اداروں کے نظم و نسق کو ہی سیاست زدہ بنا دیا ہے اور اس کی وجہ ان اداروں کے معززین کے ببانگ دہل کارنامے اور سرعام انکشافات ہیں جن میں وہ کہتے رہے ہیں کہ ان کو ریاست کے اندر کون کون سی شخصیات اور انداز کی سیاست پسند نہیں تھی اور سیاست دانوں کو کبھی عدالتوں کے کٹہروں میں کھڑے کر کے تو کبھی جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے بے یارو مددگار ڈال کر ان کے بقول وہ سیاست کے توازن کو ٹھیک کرنے میں کردار ادا کرتے رہے جو ان کی آئینی خلاف ورزیوں کے احتساب کے لئے مواد مہیا کرتا رہا مگر طاقت کے عدم توازن کے سبب اس پر سوال اٹھانے کی کسی کو ہمت نہ ہوئی اور صورت حال یہاں تک پہنچ گئی کہ ایسی سوچوں کے نیٹ ورک نے اداروں کے اندر گہری جڑیں پکڑ لیں اور ریاست کو ان خطرات کا شکار ہو کر 9 مئی کا سامنا کرنا پڑ گیا۔
عمران خان پروجیکٹ کے 9 مئی جیسے نہ تھمنے والے آفٹر شاکس ہی کی ایک کڑی جنرل فیض حمید کی گرفتاری کو بھی کہا جا رہا ہے جس کا کئی سیاسی اور مالی معاملات کے ساتھ تعلق بھی بن رہا ہے مگر تاریخ کی روشنی میں سیاسی اور مالی معاملات پر اس قدر سنجیدگی کبھی نہیں دیکھی گئی اس لئے یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اس کا زیادہ تر تعلق ادارے کے اندر کے معاملات سے ہے جس سے مستقبل میں خطرات کے خدشات کو بریک کرنا مقصد ہو سکتا ہے جو یقیناً خوش آئند ہے۔
گرفتاری جہاں بظاہر ایک حیران کن خبر کے طور پر گردش کر رہی ہے وہیں ساتھ کچھ قیاس آرائیاں بھی ذہنوں کی سطح پر محو تخیل ہیں کہ اس کے نتائج کیا نکلیں گے؟ کیا اس سے ہمیں قومی سطح پر کوئی سبق آموز مرحلہ بھی میسر آئے گا جو مستقبل میں ایسے واقعات کی راہ کو بند کر سکے یا نہیں؟ یہ ایک بہت ہی اہم نقطہ ہے جس کے لئے ہمیں چند ماہ انتظار کرنا پڑے گا۔ ابھی تو یہ معاملہ ویسے بھی تحقیقات کے مرحلوں سے گزر رہا ہے اور کسی کے کردار یا اس پر جرم کا الزام لگانا کسی طرح سے بھی جائز نہیں مگر ہمارا ماضی ایسے کرداروں سے بھرا پڑا ہے جو ہمیں اس پر اندازوں کے تعین کے لئے بنیادیں فراہم کرتا ہے۔
پاکستان میں اس طرح کی کہانیوں کے کئی پہلو ہوتے ہیں۔ ایک کا تعلق آئین و قانون کے اطلاق سے ہوتا ہے تو دوسرے کا تعلق اس کے اہم کردار کے عمل کا ان کی بعد کی زندگی اور عمومی ماحول پر اثرات سے ہوتا ہے جو انتہائی اہم ہے جس سے ایسے ہی کئی دوسرے کرداروں کے اندر خوف اور ندامت کے جنم لینے کا سبب پیدا ہوتا ہے۔ تاریخ آئین و قانون کے اطلاق میں کبھی امید افزا نہیں رہی جس کی وجہ صرف ہمارے اداروں کی نااہلی اور مختلف سطحوں پر مفادات کا ٹکراؤ ہی نہیں بلکہ عوامی سطح پر سیاسی شعور کی کمی بھی اس کی بہت بڑی وجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں قومی سطح پر آئینی و قانونی مجرم بھی کچھ ہی وقت کے بعد پھر سے ہیرو کے طور پر دیکھے جانے لگتے ہیں۔
جیسا کہ اس کہانی کے اندر واقعات کی ترتیب سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ اس طرح کے کرداروں کو پشیمانی یا ندامت ہوئی ہو یا ان کو اپنے کردار پر کوئی احتساب اور سزا و جزا کا کوئی خوف پیدا ہوا ہو۔ عمران خان کی گرفتاری اور پھر اس کے بعد کا ماحول ایسی ہی سوچ کی غمازی کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ عمران کے اقتدار کے چند ماہ کے بعد ہی اس پروجیکٹ کو لانے والے اور عوام اس سے تنگ آ گئے تھے مگر جیسے ہی ان کو اقتدار سے علیحدہ کیا گیا تو پھر سے ان کی ناصرف ریاستی اداروں کے اندر سے حمایت اور دوبارہ لانے کی کوششیں زور شور سے جاری ہو گئیں بلکہ عوام میں ان کی مقبولیت کا گراف بھی پھر سے بڑھنے لگا اور اداروں کے اندر موجود ایسے کردار جو ان کی سہولت کاری بلا خوف و تردید کرتے رہے ان کو گویا یقین تھا کہ ان کی گرفتاری عارضی ہے اور وہ دوبارہ سے اقتدار میں آنے والے ہیں جن میں نجومیوں سے لے کر عدالتوں کے معاملات پر گہری نظریں رکھنے والے تجزیہ کاروں کے خیالات سے ابھرتا ہوا تاثر وغیرہ سب کچھ کسی حیرت کدے کے ماحول سے کم معلوم نہیں ہوتا تھا جو انتہائی تشویش ناک پہلو ہے۔
خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
اس کی دلیل ججز کے کچھ فیصلے، 9 مئی کے واقعات، اس کے بعد بھی پر اعتماد احتجاج اور دھرنے، اور اسی طرح حالیہ سہولت کاروں کی گرفتاریاں بھی اس سلسلے کو تقویت بخشتی ہوئی دلیلیں ہیں مگر سب سے بڑھ کر تحریک انصاف کا اتنی بھاری اکثریت کے ساتھ اسمبلیوں میں پہنچ جانا بھی عوامی نفسیات کا عکاس ہے جس سے کبھی بھی حالات کے بدلنے کی پشین گوئیوں کی مکمل طور پر حوصلہ افزائی ملنے کے اندازے تذبذب کا شکار ہیں۔
ابھی پچھلے 12 سالوں سے ذہنوں پر کی ہوئی محنت سے بنائے گئے یقین یہ ماننے کے لئے تیار ہی نہیں کہ عمران خان پروجیکٹ نے اس ملک کو نقصان پہنچایا ہے اور اسی سوچ کو دیکھتے ہوئے عوام کے صدقے جانے کے منظرنامے کی روشنی میں اس طرح کے واقعات کے مستقبل میں معدوم ہونے کا یقین کر لینا مشکل لگتا ہے۔ جس کی وجہ عوام کی شعوری سطح کے علاوہ ان کہانیوں سے جڑے ہوئے کچھ کرداروں کی مثالیں بھی ہیں جنہوں نے مالی مفادات کے ساتھ ساتھ سیاسی فائدے بھی اٹھائے اور چند سالوں کی معمولی سزاؤں کے بعد وہ پھر سے نئے جذبے اور جوش کے ساتھ میدان عمل میں اترے اور ایک نئی کہانی تخلیق کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اسی لئے شاہد اس طرح کے کرداروں میں کبھی خوف یا ملامت دیکھنے کو نہیں ملتی۔
اب اس گرفتاری کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس کہانی کو بھی مٹی پاؤ کے طور پر لے کر جس طرح سے پرویز مشرف کو پورا تحفظ فراہم کیا گیا اسی طرح اس کہانی کو بھی روایتی انداز سے چلایا جائے گا یا پھر اسے مستقبل کو لاحق خدشات اور خطرات سے بچنے کے لئے سبق آموز بنانے کی کوشش کی جائے گی جو اس ریاست کے اداروں اور سیاسی جماعتوں کے باہمی گٹھ جوڑ سے اقتدار کے ایوانون میں جمہوریت کے نام پر کئے گئے مختلف ریہرسل پروگراموں کی ایک کڑی ہوتے ہیں جن کا تعلق آج کے سیاسی ماحول سے بھی جڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے جو شاید اس ملک کی تقدیر کا حصہ ہیں کیونکہ ایسے پروجیکٹس کے اختتام کے لئے بھی تو ایک نئے پروجیکٹ کی ضرورت درپیش ہوتی ہے جس کی وجہ شاید سیاست دانوں کی اکیلے سبق آموز کہانیوں کی تخلیق میں نا اہلی سمجھ لیں یا بے بسیاں جن کی پچھلی دو دہائیوں میں کی گئیں تمام کوششیں دم توڑتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں اور ان کوششوں میں مصروف عمل سیاسی جماعتیں بھی پھر سے انہیں پرانی بھول بھلیوں کا شکار دکھائی دیتی ہیں۔
اگر اس کے سیاسی پہلوؤں کو دیکھیں تو اس وقت اقتدار میں موجود سیاسی جماعتوں کے بیانیے ان کو اپنی سیاسی مخالفت کے پیش نظر بولنے پر مجبور کر رہے ہیں مگر ان کے مؤقف میں وزن ہونے کے باوجود ان کو پذیرائی ملتی ہوئی نظر نہیں آتی اور نہ ہی ماضی کی تاریخ کسی ایسے کردار کی سیاسی دخل اندازی پر اس کا محاسبہ کرنے کے یقین کو تقویت دیتی ہے۔ پرویز مشرف والے معاملے میں تو عدالتی فیصلہ بھی موجود تھا مگر اس کے آفٹر شاکس نے اس عدالت کا ہی وہ حشر کیا جو ایک خبردار نشان ہے۔ ہاں البتہ اس میں 9 مئی کے واقعات سے جڑا ہوا کردار شاید کسی طرح بھی ہضم نہ ہو پائے کیونکہ اس سے مستقبل میں ادارے کے کمزور ہونے کے خدشات پیدا ہو سکتے ہیں اس لئے ان کی حمایت کی گنجائش معدوم ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ البتہ فیض حمید ایک بہت اہم عہدے پر رہے ہیں اور ان کے ساتھ ملک کے بہت حساس معاملات بھی جڑے ہوئے ہیں اس لئے فیصلے سے قبل مفروضوں کی بنیاد پرسزا یا فیصلوں کی پشین گوئیاں کرنا ذمہ دار رویے کی علامت نہیں۔
یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ موجودہ گرفتاریاں ماضی کی کہانیوں کے تسلسل کی ایک کڑی ہیں یا پھر ان سے کوئی امید افزا وقت دیکھنے کو ملے گا جس کی ابھی تک قوم تیار نہیں ہے مگر ہم نا امید پھر بھی نہیں کیونکہ کوئی جتنا بھی تقدیر کو دھوکہ دینے کی کوشش کرے اس کا مکافات عمل کے انتقام سے بچنا مشکل ہو جاتا ہے اور قدرت کے کبھی نہ بدلنے والے اصولوں کا شکار ہونا بھی اسی تقدیر کا حصہ ہوتا ہے جس کی تقسیم میں رد و بدل کی کوششوں سے وہ عارضی فائدے اٹھاتا رہتا ہے۔ اب یہ فیصلہ کرنا ہر ایسے کردار کے اختیار میں ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو مکافات عمل کے شکار بھنور کا حصہ بنانا چاہتا ہے یا اصلاح کی کاوشوں میں مصروف عمل کرداروں کی فہرست میں شمار کرانا چاہتا ہے۔ صاحب اختیار اور اقتدار لوگوں سے فقط اتنی گزارش ہے کہ کم از کم ایسی کہانیوں میں موجود کرداروں کے ناجائز ذرائع سے حاصل کردہ مالی فوائد کو تو ریاست کو لوٹا دیں تاکہ کسی حد تک مفاد پرست سوچیں رکھنے والوں کی کچھ حوصلہ شکنی ہو اور یہ عمل ان کی سوچوں کی اصلاح کی بنیاد بن سکے۔
آخر میں اتنا ضرور کہوں گا کہ اگر جرم ثابت ہوتا ہے تو اب یہ عام معافیوں کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے کیونکہ پاکستان مزید ان عام معافیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ نہ صرف ملکی معیشت اس حکمت عملی سے اکتا چکی ہے بلکہ یہ ہماری ریاست کے اندر اتحاد اور نظم و نسق کو بھی بری طرح سے تباہ کر چکا ہے۔ غلطیوں کو تحفظ فراہم کرتے کرتے اب غلطیاں حماقت اور بغاوت کا روپ دھارنے لگی ہیں اور معافیوں کے سلسلے نے اداروں کے سربراہان کے اندر حوصلہ افزائی اس قدر بڑھا دی ہے کہ وہ آئین و قانون اور ڈسپلن لفظ کا تمسخر اڑانے لگے ہیں جس سے نہ صرف قومی سطح پر اعتماد کا فقدان پیدا ہو چکا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی قومی تشخص بری طرح سے متاثر ہوا ہے۔ اس لئے اب یہ عام معافیوں کا سلسلہ روک ہی لیا جائے تو بہتر ہو گا اور قوم کو اچھے فیصلوں پر اپنے ذاتی اور سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر ان کی تعریف اور تائید کرتے ہوئے داد دینی چاہیے۔