پی ٹی آئی کی حکومت خود کو ایک سیاسی خندق سے باہر نکالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جیسے جیسے وفاقی دارالحکومت میں معاملات کھل کر سامنے آ رہے ہیں، ویسے ویسے خود ساختہ ابہام کی دھند چہار اطراف سے ایک واضح صورتحال میں تبدیل ہو رہی ہے۔
مختلف جگہوں پر موجود بکھرے نکتے نیم حقیقی سے سلسلے میں تبدیل ہو رہے ہیں جس سے باقاعدہ شروعات اور متوقع اختتام لیے ایک کہانی کی تشکیل ہوتی نظر آرہی ہے۔
وزیراظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پاکستان میں نئے سیاسی سلسلے کا صرف ایک باب ہے۔ لیکن ٹھہریے، یہ تو دراصل صفحہ پلٹنے کی تیاری ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ق) کے رہنما چودھری پرویز الہی کا انٹرویو، جسے ہم نیوز پر مہر بخاری نے، مہارت سے کنڈکٹ کیا، سے ان باتوں کا انکشاف ہوتا ہے جو ریڈ زون کے زیادہ تر ذرائع پہلے سے جانتے تھے اور حالیہ دو ہفتوں کے دوران ایک دوسرے سے سرگوشیوں میں بیان کر رہے تھے۔ حکومت کے حلیفوں کی عوام کے سامنے وضاحتیں پردے کے پیچھے ان کے جھکائو سے مکمل طور پر مختلف نظر تھیں۔
ان کا یہ مختلف طرز عمل پی ٹی آئی کے خاص افراد سے چھپا ہوا نہیں اور اس سے وہ خوش نہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ناخوشی کے سوا اس بارے میں کچھ کرنے سے بھی قاصر ہیں، اور کیفیت یہ ہے کہ گھڑی کی ٹک ٹک کا سفر 28 مارچ کی 'فائنل بیٹل آف واٹر لو' کی جانب جاری ہے۔
اگرچہ دونوں ہی اطراف موجود لوگ خود کو 'نیپولین بونا پارٹ' کے بجائے 'ڈیوک آف ویلنٹن' سمجھ رہے ہیں، لیکن اس سے یہ حقیقت تبدیل نہیں ہوتی کہ ان میں سے ایک کے ہاتھ سے افرادی قوت، آپشنز، صبر اور عمل کی آزادی بہت تیزی سے جا رہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ملک کے سیاسی ڈھانچے میں بتدریج تبدیلی کا عمل جاری ہے۔ یہ بتدریج کئی ماہ پہلے شروع ہوئی اور اب یہ اسلام آباد اور لاہور کے تنائو زدہ ماحول میں سیاسی ملاپ کی صورت میں ظاہر ہو رہی ہے۔ لیکن اس نئی حقیقت کی وسیع تر ساخت کے بننے کا دورانیہ تحریک عدم اعتماد یا اس کے فوری نتیجے سے بہت بڑھ کر ہے۔
جو بات ہم میں سے بہت سے لوگ سمجھنے میں ناکام رہے ہیں وہ یہ کہ تحریک عدم اعتماد ایک بڑے سلسلے کی صرف ایک کڑی ہے اور وہ سلسلہ آنے والے ہفتوں اور دونوں میں مزید تیز ہوگا۔
یقیناً تمام ہی منصوبے راستے سے ہٹ سکتے ہیں لیکن جو ہم ابھی دیکھ رہے ہیں، اور جو چودھری پرویز الہی کے انٹرویو میں بھی نمایاں تھا، وہ یہ کہ موجودہ بحران کا حاصل 'سسپنس' سے اتنا بھرپور نہ ہوگا جتنا کہ محسوس ہو رہا ہے۔
کچھ خاص عوامل کے حوالے سے نتیجہ سوچا سمجھا ہے، اور ان عوامل میں سے ایک پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے چودھری پرویز الہی کو بطور وزیراعلی تسلیم کیا جانا ہے۔ ریڈ زون کے ذرائع کے بقول یہ 'آفر' تسلیم کی جا چکی ہے اور اس کے بدل میں پاکستان مسلم لیگ (ق) نے بھی اپوزیشن کے کیمپ کا حصہ بننے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔
یہ باہمی رضامندی صرف عدم اعتماد کی تحریک تک محدود نہیں بلکہ اس انتظام کا حصہ ہے جس کا تعلق اگلے عام انتخابات اور بعد کے مراحل تک سے ہے۔ مذکورہ گفت وشنید سے واقفیت رکھنے والوں کے مطابق بات چیت آسان نہیں رہی اور اس میں دونوں اطراف سے اندرون خانہ مزاحمت دیکھی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ اس حوالے سے پہلا رابطہ، یعنی چودھریوں کے گھر شہباز شریف کی آمد، نتیجہ خیز نہ ہوا تھا۔
اور یہی وہ لمحہ تھا جب آصف زرداری آگے بڑھے، دونوں کو قریب لائے اور انہیں درکار یقین دہانیاں مہیا کیں۔ معاہدے کے مطابق چودھری پرویز الہی پنجاب میں ایک مخلوط حکومت کی سربراہی کریں گے اور نون لیگ اسی مخلوط حکومت اور نئی کابینہ کی سب سے بڑی جماعت ہوگی۔ جوابی طور پر قاف لیگ کے پانچ ممبران قومی اسمبلی مرکز میں حزب اختلاف کی تحریک عدم اعتماد کا حصہ بنیں گے۔
ایم کیو ایم بھی حزب اختلاف کی اس مہم کا حصہ ہے اور کئی ہفتوں سے کیمروں کی آنکھ سے دور حزب اختلاف کے کلیدی رہنمائوں سے خاموش گفت وشنید میں مصروف رہی ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ان کے مطالبات بھی اب مانے جا چکے ہیں۔
پنجاب کے انتظام کے مانند سندھ میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے معاہدے کی ضامن نون لیگ ہے۔ قاف لیگ اور ایم کیو ایم دونوں نے ہی اپنے معاہدوں سے خاصے فائدے سمیٹے ہیں۔ ایسا صرف اس لیے نہیں کہ اپوزیشن کو ان کے ووٹوں کی بے چینی سے ضرورت تھی، بلکہ اس لیے کہ نہ تو انہیں اپوزیشن سے بات کرنے سے روکا گیا اور نہ ہی ایسا کرنے کو کہا گیا۔
بلوچستان عوامی پارٹی نے بھی یہی راہ اپنائی ہے اور اس جماعت نے بھی کئی ہفتے پہلے پردے کے پیچھے حزب اختلاف سے ملاقاتوں کا آغاز کیا۔ اندرون خانہ اس جماعت کے ارکان میں کچھ تلخی پائی جاتی ہے اور چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی اور بی اے پی میں موجود ان کا گروپ خفیہ گفتگو کا حصہ نہیں تھا۔ لیکن حتمی معاہدے میں اس کے پانچ میں سے تین یا چار ارکان کو اپنا ووٹ اپوزیشن کے پلڑے میں ڈالتے دیکھا جا سکتا ہے۔
قاف لیگ اور ایم کیو ایم کی طرح بی اے پی کے ذرائع کا بھی یہی کہنا ہے کہ نہ تو انہیں اپوزیشن سے بات کرنے سے روکا گیا نہ بات کرنے کے لیے زبردستی کی گئی۔ اسٹیبلشمنٹ کی غیر جانبداری ان تمام بیانات کی روشنی میں واضح ہے۔ لیکن آخر پی ٹی آئی کا معاملہ کس مقام پر بحران کا شکار ہوا؟
یہی وہ مقام ہے جہاں یہ تمام معاملہ مزید گہرا ہو جاتا ہے۔ یہ اب کوئی راز نہیں کہ حکمران جماعت نے اسٹریٹجک حوالے سے اہم سیاسی معاملات کا انتظام چند طاقتور افراد کے حوالے کر رکھا تھا، جبکہ اہم ترین ایشوز کے حوالے سے بھی یہی رویہ اپنایا گیا تھا۔ ریڈ زون کے ذرائع کی جانب سے اس حوالے سے دی گئی ایک مثال سنیے۔
ڈسکہ کے انتخابات کے سلسلے میں پی ٹی آئی کی قیادت نے ٹکٹ کے خواہشمند تمام افراد کے نام طلب کیے تاکہ فیصلہ معلومات کی بنیاد پر کیا جا سکے۔ اس رپورٹ کی تشکیل میں خاصی محنت کی گئی جس میں 'بیک گرائونڈ چیکس' اور انٹرویوز بھی شامل تھے۔ بالاخر قیادت نے فیصلےکے لیے میٹنگ طلب کی جس میں تمام امیدوار بھی مدعو تھے۔ تب کچھ عجیب معاملہ ہوا۔
رپورٹ کے پیش کرنے سے قبل ہی کچھ کلیدی رہنمائوں نے کہا کہ انہوں نے ٹکٹ کے لیے ایک نام تجویز کیا ہے اور وہ امیدوار کامیاب رہے گا۔ جب کسی نے توجہ دلائی کہ نامزد کردہ امیدوار کا اپنے حلقے میں ووٹ بینک تک نہیں، تو میٹنگ منسوخ کر دی گئی۔
یہی میٹنگ اگلے ہی دن طلب کر لی گئی اور اعلان کر دیا گیا کہ 'ٹھیک ہے ایک اور نام 'فائنل' کیا گیا ہے لہذا اسے ٹکٹ دیا جائے گا' اور ایسا ہی ہوا۔ رپورٹ داخل دفتر کر دی گئی، اور باقی باتیں ماضی کا حصہ ہوئیں۔
گذشتہ برس ڈی جی آئی ایس آئی کی تقریری کے معاملے پر پیدا ہوا تنازعہ بھی فیصلہ کن رہا۔ نتیجتا تعلقات بگڑنا اور تنزلی کی سمت جانا شروع ہوئے۔ بروقت اقدامات نے زخم پر مرہم تو رکھا لیکن علاج نہ ہو سکا۔
جب لوگ دوسروں کے بارے میں غلط انداز بیان اپناتے ہیں تو بات پھیلتی ہے، اور یہ معاملہ تو یوں بھی ذاتی انائوں کا ہی نہیں بلکہ ایسی خلیج سے متعلق تھا جس سے ادارے کے اندر بے چینی اور عدم اعتماد پیدا ہو رہا تھا۔
معاملات بگڑتے گئے، ایک ہفتہ قبل حکمراں جماعت کے چند ایم این ایز نے وفاقی دارالحکومت میں ایک نہایت اہم سیاسی رہنما سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں کچھ دیگر اہم افراد کے بارے میں کچھ نہایت تلخ الفاظ کہے گئے۔ اور بات پھر سے پھیلی، یوں بجائے شفا پانے کے زخم مزید بگڑ گیا اور اب پورا جسم ہی بخار میں تپنے لگا۔
ایسے واقعات سے تنزلی کی جانب گامزان تعلقات مزید سنگین ہوگئے۔ ایک اور کلیدی معاملہ وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کے مستقبل کا تھا۔ ریڈ زون کے ذرائع کے مطابق طاقتور اسٹیک ہولڈرز نے کئی بار وزیراعلی کو تبدیل کرنے کی تجویز دی۔ اور اہم بات یہ کہ جب بھی تجویز رکھی گئی تو اس کا الٹ ہی ہوا۔ سب سے حالیہ واقعہ کچھ دن قبل ہی رونما ہوا۔
لاہور میں منعقدہ ایک میٹنگ میں تحریک انصاف اس تبدیلی پر رضامند ہو چکی تھی۔ حتیٰ کہ معاملات اس قدر خراب ہو چکے تھے کہ وزیراعظم کو پی ٹی آئی کے ایک صوبائی وزیر کی جانب سے یہاں تک کہا گیا تھا کہ وہ پارٹی کا واحد رکن ہے جس کی حمایت بزدار کو حاصل ہے۔ یوں بزدار پھر بچ گئے!
لیکن 'اٹ ٹیکس ٹو، ٹو ٹینگو' کے مصداق ایک میوزک پارٹنر کے ڈانس فلور چھوڑتے ہی وہ جگہ اپوزیشن نے سنبھال لی اوراب حکمراں جماعت ہر اعتبار سے پچھاڑ دیے جانے کے خطرے سے دوچار ہو چکی جبکہ اس کے 'رسپانس' سے ایک نیم فطری سا آئینی بحران جنم لے رہا ہے۔ تو اب کیا کچھ ہونے کا امکان ہے؟
معاملے سے واقف ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد پر پیشرفت کا فیصلہ برقرار رکھا تو اسے روکنا مشکل ہوگا۔ چاہے اس کے ایم این ایز مذکورہ دن پارلیمنٹ نہ بھی جا سکیں، حزب اختلاف اعلی عدالتوں کا رخ کرنے کو بھی ہر طرح سے تیار ہے۔
اور فیصلہ ان کے حق میں آنے کا امکان بھی ہے کیونکہ کسی مروجہ آئینی ضابطے میں رکاوٹ پیدا کرنے جیسی سنگین خلاف ورزی عدالتوں کے نوٹس میں نہ آنا ناممکن محسوس ہوتا ہے۔
ان تمام عوامل کی روشنی میں کیا کوئی ایسا سمجھوتہ سامنے آ سکتا ہے کہ جس میں حکومت قبل ازوقت انتخابات کرانے اور حزب اختلاف تحریک عدم اعتماد واپس لینے پر رضامند ہو جائے؟ آج اپوزیشن کا جواب 'ناٹ انٹرسٹڈ' ہے، لیکن کل؟ اس داستان کا اخیر باب ابھی بھی قلم کی زد میں ہے۔