بارشوں سے متاثر گوادر کے مکین حکومتی امداد کے منتظر ہیں

گوادر میں حالیہ بارشوں نے اس مرتبہ پورے شہر کو ملیامیٹ کر دیا۔ سینکڑوں گھر منہدم ہو گئے یا کسی بھی وقت منہدم ہو سکتے ہیں اور اب بھی سرکار پلاننگ کے بجائے متاثرین کو راشن کے چند پیکٹ تھما کر سب اچھا ہونے کا راگ الاپ رہی ہے۔

بارشوں سے متاثر گوادر کے مکین حکومتی امداد کے منتظر ہیں

22 مارچ 2002 کا دن مجھے اچھی طرح یاد ہے جب پرویز مشرف گوادر پورٹ کا افتتاح کرنے گوادر آئے تھے۔ اس روز ماہی گیروں کی اس بستی کو سکیورٹی حصار میں بند کر دیا گیا تھا۔ عام لوگوں کی آمد و رفت پر پابندی تھی اور اس وقت گوادر میں مزاحمتی تحریک کا بھی دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں تھا۔

ہم گوادر پورٹ کی افتتاحی تقریب کی روداد رات کو سرکاری ٹی وی چینل پی ٹی وی پر دیکھنے کے بعد دوسرے گوادریوں کی طرح خوش تھے کہ اب ہم ایک نئے مستقبل میں داخل ہو کر خوشحال زندگی گزاریں گے۔

مجھے یاد ہے جس وقت گوادر پورٹ کا سنگ بنیاد رکھا جا رہا تھا تو ہم انٹر کالج گوادر کے طالب علم اساتذہ نہ ہونے کی وجہ سے سڑکوں پر احتجاج کر رہے تھے۔ تین ماہ تک کلاسوں کی بندش کے بعد پھر ہم علم حاصل کرنا ہی بھول گئے۔

وقت گزرتا رہا، گوادر پورٹ بن گئی اور دنیا سے آنے والے بحری جہاز یوریا کھاد سے لوڈ ہو کر پورٹ پر لنگر انداز ہوئے۔

گوادر کو جدید طرز کا شاہکار بنانے کے دعوے داروں نے گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نامی ایک ادارے کی تشکیل کی۔ پرانے گوادر کو ایک طرف رکھ کر نئے گوادر کا ماسٹر پلان بنایا گیا۔ گوادر کو دبئی اور سنگاپور جیسے شہر بنانے کے عمل کا آغاز ہوا۔ بقول مقتدر قوتوں کے گوادر سے ترقی کا ایک نیا دور شروع ہو گا جس سے نا صرف بلوچستان بلکہ ملک بھر سے سرمایہ کار یہاں آ کر سرمایہ کاری کریں گے۔

گوادر میں زمینوں کی بندر بانٹ کا آغاز ہوا۔ قوم پرستی کے دعویدار اس نیک کام میں سب سے آگے رہے کہ ہم قوم پرست اور اس شہر کے حقیقی وارث ہیں اس لئے بندر بانٹ اور کرپشن میں سب سے پہلا حق ہمارا ہے۔

گوادر کے اصل باسی اور صدیوں سالوں سے زمینوں کے اصل وارث اپنی جدی پشتی اراضی سے محروم ہو گئے۔ کچھ سرکار لے گئی اور بچی کھچی زمین سرکاری لینڈ مافیا اپنی سمجھ کر مال بٹورتا رہا۔

گوادر پورٹ کے چرچے ابھی کم نہیں ہوئے تھے کہ چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری کے نام پر ایک اور پروجیکٹ سی پیک کے چرچے شروع ہوئے۔ مقامی لوگ خوش ہوئے کہ پورٹ سے نہ سہی اب سی پیک ہمیں مالا مال کرے گا۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

حکمرانوں کے بقول گوادر کی ترقی کے ٹھیکے دار ادارہ برائے ترقیات کو اربوں روپے کے فنڈز تھما کر گوادر کو سنگاپور بنانے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کا کام شروع ہوا۔

کوہ باتیل کے دامن میں ایک کرکٹ سٹیڈیم بنا کر میڈیا میں اس کا خوب شوشہ چھوڑا گیا۔ گوادر پریس زر دور کو میرین ڈرائیو کا نام دے کر سٹریٹ لائٹ لگا کر گوادر کی ترقی کے چرچے دنیا بھر تک پہنچانے کے لئے سوشل میڈیا پر خوب اچھالا گیا۔

سب کچھ درست سمت میں گامزن تھا اور گوادر اب سنگاپور جیسا ایک بین الاقوامی شہر بن چکا تھا۔ جس کو موقع ملا وہ اس بندر بانٹ میں اپنا حصہ لے کر خاموش ہو گیا۔ مگر کسی کو معلوم نہیں تھا کہ قدرت کے قانون کے آگے انسانی ترقی معنی نہیں رکھتی۔

فروری کا مہینہ ویسے بھی سال کا سب سے چھوٹا مہینہ ہوتا ہے اور گوادر میں عموماً اس مہینے میں بارشیں نہیں ہوتیں۔

شاید گوادر کو دبئی اور سنگاپور بنانے والے کلائمیٹ چینج سے آگاہ نہیں تھے اور پانی کے قدرتی راستوں کو بند کرنے کے بعد یہ نہیں جانتے تھے کہ قدرت کے نظام کو چھیڑنے کے خطرناک نتائج ہو سکتے ہیں۔

گوادر میں بارش تو اس سے قبل بھی زیادہ برستی تھی مگر اس بار برستے ہی سارے شہر کو ملیا میٹ کر دیا۔

یہ بھی پڑھیں؛ کلائمیٹ چینج؛ بروقت منصوبہ بندی نہ کی گئی تو گوادر ملیامیٹ ہو جائے گا

بارشوں کو 20 سے زائد روز گزر گئے ہیں مگر اب بھی شہر کے گھروں اور گلی کوچوں میں بارشوں کی وجہ سے جمع شدہ پانی نکالنے میں متعلقہ ادارے ناکام نظر آتے ہیں۔

گوادر چونکہ تین اطراف سے سمندر میں گھرا شہر ہے اور میگا پروجیکٹس کے نام پر سمندر کے دو اطراف ایکسپریس بے وے اور میرین ڈرائیو کے نام پر دو بڑی شاہراہیں بنا کر پانی کے قدرتی راستوں کو بند کر دیا ہے۔ ان میگا پروجیکٹس میں غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے حالیہ بارشوں نے شہر کو ڈبو دیا ہے اور شہر کا لیول چونکہ سطح زمین سے نیچے ہے جبکہ یہ دونوں شاہراہیں اوپر ہیں۔

گوادر میں حالیہ بارشوں کے بعد سینکڑوں گھر منہدم ہو گئے یا کسی بھی وقت منہدم ہو سکتے ہیں اور اب بھی سرکار پلاننگ کے بجائے متاثرین کو راشن کے چند پیکٹ تھما کر سب اچھا ہونے کا راگ الاپ رہی ہے۔

کلائمیٹ چینج کے اثرات چونکہ گوادر کے ساحلی علاقوں میں نمودار ہو چکے ہیں اور ماہرین انتباہ کر رہے ہیں کہ گوادر میں اس سے بڑے پیمانے پر بارشیں ہو سکتی ہیں۔ قدرت کے قانون کے آگے رکاوٹیں کھڑی کر کے انہیں روکا نہیں جا سکتا بلکہ پائیدار منصوبہ بندی کر کے نقصانات سے بچا جا سکتا ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے اور حالیہ بارشوں کے بعد گوادر میں پانی کا لیول بھی بڑھ چکا ہے جو آنے والے وقتوں میں کسی بڑے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔