1948 میں اسرائیل کا قیام فلسطینی آبادی کے لئے ایک مکمل طور پر ناقابلِ یقین حد تک دہشت ناک تباہی لایا تھا۔ صلحہ میں یہودی لشکر نے ’آپریشن ہیرام‘ کے عنوان سے قتلِ عام کیا جس میں اسرائیل کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق ساٹھ سے نوے افراد کو قتل کیا گیا[2]۔ ایک عینی شاہد نمر عون کے مطابق: ’’جب یہودی لشکر ہمارے گاؤں میں آیا تو اعلان کیا کہ اگر ہمارے پاس کوئی ہتھیار ہیں تو ان کے حوالے کر کے سرنڈر کر دیں۔ گاؤں کے لوگوں نے ایسا ہی کیا۔ یہودی لشکر اپنے ساتھ 13 گاڑیاں لایا تھا جنہوں نے گاؤں کو گھیر لیا تھا۔ جب گاؤں والے ایک جگہ جمع ہو گئے تو یہودیوں نے فائر کھول دیا۔ متعدد لوگ قتل ہوئے۔ میں زخمی ہوا مگر لاشوں کے نیچے چھپ کر جان بچائی۔ رات پڑی تو میں زخمی حالت میں ایک گدھے پر سوار ہو کر لبنان چلا آیا‘‘[3]۔ المالکیہ پر صیہونی ایئر فورس نے بمباری کی[4]۔ ھونین میں بیس افراد کو قتل اور چار لڑکیوں سے جنسی زیادتی کی گئی[5]۔ اس قتلِ عام کا مقصد شیعہ آبادی کو دہشت زدہ کر کے اپنی زمین سے بے دخلی پر مجبور کرنا تھا۔ نتیجتاً شیعہ قصبوں سے آبادی لبنان کی سرحد سے پار کر کے وہاں کے شیعہ اکثریتی علاقے میں چلے گئی۔ البتہ اس دوران کچھ بچے ہجرت نہ کر سکے اور خود کو زمانے کے بے رحم دھارے کے حوالے کرنے کے سوا ان کے پاس کوئی راستہ نہ بچا۔ آج بھی ان کی اولاد اسرائیل میں رہتی ہے لیکن وہ اپنی آبائی ثقافت اور مذہب سے اپنا رشتہ برقرار نہ رکھ سکے اور اب وہ اپنے آبا و اجداد کی طرح روزِ عاشورا پر جلوس یا نیاز کا اہتمام نہیں کرتے[6]۔
بیسویں صدی اور فاشزم
سائنس جب نئی ٹیکنالوجی کو جنم دیتی ہے تو زمانہ بدل جاتا ہے۔ صنعتی انقلاب کے نتیجے میں انیسویں صدی میں سامنے آنے والے قومی ریاست کے تصور نے ہر شخص کو سیاسی طاقت میں حصہ دار بنا دیا، گویا ہر فرد ایک چھوٹا موٹا بادشاہ بن گیا۔ ایسے میں آبادی کا اکثریتی طبقہ حاکم بن گیا اور اقلیتوں کے مساوی انسانی حقوق خطرے میں پڑ گئے[7]۔ جمہوریت اکثریت کے لئے بادشاہت یا کسی مذہبی حکومت سے بہتر نظام حکومت ہے۔ جمہوریت کی کئی شکلیں ہو سکتی ہیں اور انسانی حقوق کے احترام پر کاربند جمہوریت اقلیتی آبادیوں کے استحصال اور ان پر اکثریت کے تشدد کا سد باب کر سکتی ہے۔ لیکن اس کی ایک شکل فاشزم بھی ہے جو اقلیتوں کے لئے ظلم کی سیاہ رات ثابت ہوتا ہے۔ برصغیر میں جب یہ نیا دور شروع ہوا تو یہاں شدھی تحریک، راشٹریہ سیوک سنگھ اور تحریک خلافت نے نسلی اور مذہبی افکار کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنا شروع کیا۔ اس دیسی فاشزم کا مکروہ چہرہ 1947 میں بے نقاب ہوا جب ہندوستان میں مسلمانوں اور پاکستان میں ہندوؤں اور سکھوں کو قتل، جنسی زیادتی اور لوٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی ذمہ داری کانگریس اور مسلم لیگ کی سیکولر قیادت پر نہیں بلکہ فاشسٹ افکار والے ہندو، سکھ اور مسلمان مولویوں پر آتی ہے جو نئی حکومتوں کے مستحکم ہونے کے عمل کے دوران مذہبی مراکز سے اپنے علاقوں میں موجود اقلیتوں کے خلاف مذہبی جنگ کے اعلانات کرتے رہے[8]۔ قائد اعظم نے گیارہ اگست 1947 کو قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ: ’’آپ پاکستان میں اپنے مندروں، مسجدوں اور عبادت کی دوسری تمام جگہوں میں جانے میں آزاد ہیں۔ آپ کا مذہب اور فرقہ کیا ہے، اس سے کاروبار ریاست کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ سیاسی معنوں میں ہندو ہندو نہیں رہیں گے، مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے۔ مذہبی معنوں میں نہیں، کیونکہ وہ تو ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے‘‘۔ لیکن وہ لوگ جو قائد کو اچھا مسلمان نہیں سمجھتے تھے غیر مسلم پاکستانیوں کے جان و مال و ناموس پر ٹوٹ پڑے۔ بارڈر کے اُس طرف مسلمانوں کے تحفظ کے لئے جانے کی جرأت کرنے کے بجائے بارڈر کے اِس طرف غیر مسلم اقلیت کو جہاد کا ہدف قرار دیا گیا۔ آج بھی پاکستان میں اقلیت دشمن افکار کی حامل تنظیمیں تحریک خلافت کی انہی فاشسٹ باقیات کا تسلسل ہیں[9]۔
یہ بھی پڑھیے: قیامِ پاکستان سے پہلے پنجاب اور پختون خواہ میں فرقہ وارانہ تشدد
صیہونی فاشزم اور فلسطین کا انخلا
یورپ میں یہودیوں کے ساتھ امتیازی سلوک صدیوں سے جاری تھا۔ صنعتی انقلاب کے بعد جدید قومی ریاستیں متشکل ہوئیں تو یہ امتیازی سلوک منظم تر ہو گیا۔ انیسویں صدی میں مغربی ممالک نے ایشیا اور افریقہ کے ممالک کو کالونیاں بنایا تو یورپ کے کچھ یہودیوں نے صیہونی تحریک کی بنیاد رکھی۔ اس تحریک نے یہودیت کو ایک مذہب کے بجائے ایک قوم کے طور پر پیش کرنا شروع کیا اور فلسطین کی طرف ہجرت کر کے اسے کالونی بنانے کی دعوت دینا شروع کی۔ صیہونی تحریک شروع سے ہی فلسطینی آبادی کا نسلی صفایا کرنے کا رجحان رکھتی تھی، چنانچہ 1917 میں ایک صیہونی فکری رہنما نے لکھا:
’’ہمارا خیال ہے کہ فلسطین کو کالونی بنانے کا عمل دو جہتی ہونا چاہیے: اسرائیل میں یہودیوں کی آباد کاری اور وہاں سے عرب آبادی کو ملک سے باہر منتقل کرنا“[10]۔
برطانیہ نے 1923 میں فلسطین پر قبضہ جمایا تھا۔ 1928 میں برطانیہ نے فلسطین میں مقامی آبادی کو اقتدار میں شریک کرنا چاہا تو مجوزہ قانون ساز کونسل میں فلسطینی نمائندگان کی تعداد کو یہودی نمائندگان کے برابر رکھا گیا۔ صیہونی تحریک کی طرف سے یورپ میں ہجرت کی تشویق دینے کے باوجود یورپ سے یہودی عوام اپنا گھر بار چھوڑنے کو تیار نہ ہوئے تھے اور فلسطین میں یہودیوں کی آبادی دس فیصد تک تھی۔ برطانیہ کی طرف سے فلسطینی نمائندگان کی تعداد کو آبادی کے تناسب سے کہیں کم قرار دینے کے خلاف فلسطین میں احتجاج شروع ہو گیا۔ انگریز یہودی اقلیت کے حقوق کے تحفظ کے لئے اس سے بہتر تجویز لانے میں ناکام رہے، اور اس ناکامی میں برطانیہ میں موجود صیہونی لابی نے اہم کردار ادا کیا۔ صیہونی تحریک پورے فلسطین پر قبضہ چاہتی تھی اور اقتدار میں فلسطینیوں کاحصہ کم سے کم رکھنا چاہتی تھی۔ فلسطینیوں کا احتجاج 1936 میں ایک مسلح تحریک آزادی میں بدل گیا جس کو انگریزوں نے باہر سے فوج لا کر تین سال کے ظلم و ستم کے بعد کچل دیا۔ اسی دوران برطانوی فوج کے ایک افسر نے صیہونی عسکری تنظیم ’ہگاناہ‘ کو فوجی تربیت دی تا کہ ان کو فلسطینی تحریک آزادی کے خلاف استعمال کیا جا سکے[11]۔ فلسطین میں انگریزوں کی فوج کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر گئی تھی اور جنگ عظیم دوم میں فلسطینی مزاحمت مفلوج ہو کر ختم ہو گئی[12]۔ اقتدار میں حصہ نہ ملنے اور ہگاناہ کے مقابلے کے لئے کوئی فوج نہ ہونے سے اکثریت کا قومی وجود مٹ گیا۔
یہ بھی پڑھیے: ملائشیا کی حکومت کے شیعہ شہریوں پر مظالم
جنگ عظیم دوم کے دوران یورپ میں رہنے والے یہودیوں کو نازی فاشزم کے ہاتھوں بدترین مظالم کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان میں سے ساٹھ لاکھ کو قتل کیا گیا اور بچ جانے والوں کی اکثریت امریکہ اور فلسطین ہجرت کر گئی۔ البتہ اس ہجرت کے بعد بھی فلسطین کی مقامی آبادی میں یہودی ایک تہائی اقلیت تھے، کیوں کہ اکثر مہاجرین نے امریکہ جانے کو ترجیح دی تھی۔ فلسطین میں صیہونی تحریک کثیر سرمایہ خرچ کر کے محض چھ فیصد زمین خرید پائی تھی جس پرکوئی ریاست قائم نہیں کی جا سکتی تھی۔ فاشزم نظریات کبھی اقلیت میں رہ کر رو بہ عمل بھی نہیں لائے جا سکتے۔ چنانچہ صیہونیوں نے اپنی فاشسٹ ریاست قائم کرنے کے لئے فلسطینیوں کے مکمل خاتمے یا ان کو ایک غیر اہم اقلیت بنانے کے منصوبوں کو عملی شکل دینے کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کے حصول کے لئے یورپ کی فاشسٹ پارٹیوں کے ہتھکنڈوں کو اپنایا۔
انگریز ہندوستان سے نکل چکے تھے اور اب وہ فلسطین سے جا رہے تھے۔ برطانیہ نے فلسطین کے سوال کا حل نکالنے کی ذمہ داری اقوام متحدہ کو دے دی اور نومبر 1947 کو جنرل اسمبلی نے فلسطین کی دو ریاستوں میں تقسیم کی قرارداد منظور کر لی۔ فلسطینیوں نے اس تقسیم کو مسترد کیا اور حقیقت پسندانہ مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کے حل پر زور دیا، مگر صیہونیوں نے اس کو قبول کرنے کا اعلان کیا۔ البتہ اس تقسیم کے مطابق بھی نئی یہودی ریاست کے زیر قبضہ آنے والے علاقوں میں آدھی آبادی فلسطینیوں کی تھی۔ 10 مارچ 1948 کو تل ابیب میں ہگاناہ کے دفتر میں یہودی فوجی افسران اور صیہونی پارٹی کے سینیئر ارکان کی میٹنگ ہوئی جس میں ’پلان ڈی‘ کے عنوان سے فلسطینی آبادی کی فوری اور تیز بے دخلی کا منصوبہ تیار کیا گیا۔ اس کے مطابق بڑے پیمانے پر خوف پھیلانے؛ آبادیوں کو گھیرے میں لے کر بمباری کرنے؛ گھروں، سامان اور املاک کو آگ لگانے؛ عمارتوں کو مسمار کرنے؛ آبادی کو نکال باہر کرنے اور آخر میں تباہ شدہ املاک کو بارودی سرنگیں بچھا کر مکمل طور پر ختم کرنے کے لئے مفصل اور واضح ہدایات دی گئی تھیں۔ یہ فلسطینی شہری اور دیہی آبادیوں کی مکمل تباہی کا منصوبہ تھا۔ جنگ عظیم دوم میں یورپ کے یہودیوں کی طرح 1948 میں فلسطینی بھی آنے والی تباہی کے آثار دیکھتے ہوئے بھی اس کو پوری طرح سمجھ نہ سکے تھے اور نہ ہی اس کا مقابلہ کرنے کی تیاری کے قابل تھے۔ صیہونیت فلسطینیوں کے ساتھ وہی کچھ کر رہی تھی جو اس سے بڑے پیمانے پر فسطائیت نے یورپ میں یہودیوں کے ساتھ کیا تھا: مار دو یا مٹا دو!۔ اس مار دھاڑ کے بیچ برطانیہ کا فلسطین پر مینڈیٹ ختم ہو گیا اور 14 مئی 1948 کو بن گوریان نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا، جس کے بعد پہلی عرب اسرائیل جنگ ہوئی جس میں اردن نے شمولیت نہ کی اور ہگاناہ سے دس گنا کم نفری پر مشتمل غیر تربیت یافتہ عرب لشکر شکست کھا گیا[13]۔ یہ منصوبہ نو ماہ میں مکمل ہوا۔ تقریباً آٹھ لاکھ انسانوں کو مار بھگایا گیا اور 531 قصبوں کو برباد اور 11 شہری علاقوں کو فلسطینی آبادی سے خالی کر دیا گیا۔ 80 فیصد فلسطینی علاقے پر قبضہ کر لیا گیا۔
لبنان پر اسرائیلی حملے اور فلسطینی شیعیت کا احیا
اسرائیل کی طرف سے 1948 میں کیے گئے نسلی صفائے سے بچ جانے والی سنی مسلمان آبادی، جس کی تعداد 11.5 لاکھ کے قریب ہے، میں سے چند ایک نے 2006 کی دوسری حزب الله اسرائیل جنگ کے بعد شیعہ مسلک قبول کیا ہے۔ اس طرح اس سرزمین پر شیعہ مسلک کا ناتواں درخت پھر سے ہرا ہو گیا ہے۔ الناصرہ صوبے کے قصبے دبوریہ میں ایک امام بارگاہ قائم کی جا چکی ہے جہاں محرم کے پہلے دس دنوں میں عزاداری کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ البتہ شیعہ اقلیت کو قصبے کے باقی رہائشیوں کی طرف سے کبھی کبھی منافرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور حکومتی ایجنسیاں بھی ان کوزیرِ نظر رکھتی ہیں۔ اس دباؤ کی وجہ سے شیعہ آبادی کا درست تخمینہ لگانا ممکن نہیں کیوں کہ کئی شیعہ تقیہ کرتے ہیں[14]۔
حوالہ جات:
[1] Khalid Sindawi, “Are There any Shi'ite Muslims in Israel?”, Journal of Holy Land and Palestine Studies, Vol. 7 (2), pp. 183–199, (2008).
[2] Ibid
[3] Robert Fisk, “The Great War for Civilisation: The Conquest of the Middle East”, Harper Perennial (2006).
[4] Ilan Pappe, “The Ethnic Cleansing of Palestine”, p. 181, Oneworld Publications Limited, Oxford, (2006).
[5] B. Morris, “The Birth of the Palestinian Refugee Problem Revisited”, pp. 249, 447; Cambridge University Press, (2004).
[6] Khalid Sindawi, “Are There any Shi'ite Muslims in Israel?”, Journal of Holy Land and Palestine Studies, Vol. 7 (2), pp. 183–199, (2008).
[7] Michael Mann, “The Dark Side of Democracy”, Cambridge University Press, (2005).
[8] (i) Ishtiaq Ahmed, “The Punjab Bloodied, Partitioned and Cleansed”, Oxford University Press, (2014). (ii) Nandita Bhavnani, “The Making of Exile: Sindhi Hindus and the Partition of India”, Tranquebar Press, (2014).
[9] Mushirul Hasan, “Traditional Rites and Contested Meanings: Sectarian Strife in Colonial Lucknow”, Economic and Political Weekly, Vol. 31(9) pp. 543–550, (1996).
[10] Ilan Pappe, “The Ethnic Cleansing of Palestine”, p. 7, Oneworld Publications Limited, Oxford, (2006).
[11] Ilan Pappe, “The Ethnic Cleansing of Palestine”, pp. 14–16, Oneworld Publications Limited, Oxford, (2006).
[12] Ilan Pappe, “The Ethnic Cleansing of Palestine”, p. 25, Oneworld Publications Limited, Oxford, (2006).
[13] Ilan Pappe, “The Ethnic Cleansing of Palestine”, pp. xii–xiii, Oneworld Publications Limited, Oxford, (2006).
[14] [14] Khalid Sindawi, “Are There any Shi'ite Muslims in Israel?”, Journal of Holy Land and Palestine Studies, Vol. 7 (2), pp. 183–199, (2008).