کئی ہفتے قبل ایک رپورٹ پڑھنے کو ملی کہ پاکستان سے اتنے لوگ بیرون ملک چلے گئے جس میں ہر مہینے اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس کی بنیادی وجہ ملک کے حالات ہیں جو 9 مئی کے بعد بہت زیادہ خراب ہو گئے ہیں حالانکہ جیسے 9 مئی سے پہلے وطن عزیز میں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی تھیں، ہر جگہ سکون تھا، امن تھا اور میرٹ پر کام ہو رہا تھا بلکہ باہر ممالک سے لوگ وطن عزیز میں ملازمتوں کے لئے آئے تھے اور پھر 9 مئی کا واقعہ رونما ہو گیا اور حالات اتنے خراب ہو گئے کہ سب لوگ ملک سے باہر جانے کے لئے پر تولنے لگے۔ سرکاری ملازمتوں والے غیر ملکی بھی ملک چھوڑ کر بھاگ گئے۔ امن اور سکون غارت ہو گیا۔ میرٹ کا خاتمہ ہو گیا۔ مہنگائی کا جن 9 مئی کے بعد بوتل سے باہر نکل آیا کیونکہ اس سے پہلے اس کو عمران خان کی پیرنی صاحبہ نے بنی گالہ میں قید کر رکھا تھا۔ حالانکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔
خود انحصاری حاصل کرنے کے بجائے دوسروں پر انحصار کرنے والے ممالک کا یہی حال ہوتا ہے جو پاکستان کا ہو رہا ہے۔ ایٹمی ملک ہو کر اور جیو سٹریٹجک لوکیشن کے باوجود ہم سری لنکا کے ساتھ یاد کئے جاتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی جھولی میں جب سے ہم گرے ہیں تب سے ملک کی تباہی کا حال شروع ہوا ہے۔ 1960 اور 70 کے قریب ملک میں کئی کارخانے قائم تھے اور خاصی ترقی دیکھی جا رہی تھی۔ پھر جب ذوالفقار علی بھٹو کا دور آتا ہے اور کمپنیوں کو حکومتی تحویل میں لیا جاتا ہے تو ہمارے کارخانہ دار بھاگنے لگتے ہیں اور وطن عزیز میں پھر کوئی کارخانہ نہیں لگتا بلکہ سیاست دان سمیت سب ملک کو کھانے لگتے ہیں۔ ان کا بنک بیلنس بڑھنے لگتا ہے اور اب وہ حالات ہیں کہ ہر کوئی ملک چھوڑ کر بھاگ جانے کی فکر میں ہے۔
سیاست دان آتے گئے۔ مارشل لا لگتے گئے اور ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچتا گیا۔ آج پی ٹی آئی والے پی ڈی ایم کو اور پی ڈی ایم والے پی ٹی آئی کو مودرالزام ٹھہرا رہے ہیں کہ یہ سب ان کی وجہ سے ہوا۔ حالانکہ اس میں سب برابر کے شریک ہیں مگر عوام کو سکیورٹی فورسز کے ساتھ لڑوانے میں پی ٹی آئی نے بڑا کردار ادا کیا اور 9 مئی کے واقعات رونما ہوئے جس کے بعد وطن عزیز میں پی ٹی آئی کے ورکرز نے پاک آرمی کو آڑے ہاتھوں لیا اور پھر وقت نے دیکھا کہ جب حالات کنٹرول سے باہر ہونے لگے تو ان عناصر کے خلاف گھیرا تنگ کر دیا گیا جو حکومتی اداروں کے خلاف پروپیگنڈا مہم میں پیش پیش تھے جس میں سابق حکومت کے اراکین شامل تھے جنہوں نے اپنے پارٹی ورکرز کی اتنی برین واشنگ کی تھی کہ انہیں عمران خان اور پی ٹی آئی کے سوا کوئی نظر ہی نہیں آتا تھا۔
جب گرفتاریاں اور پریس کانفرنسز شروع ہوئیں اور فصلی بٹیروں کی طرح خان کے دوست اور احباب جن کی غیرت آخر کار جاگ ہی گئی تھی، نے جب خان کی اندرونی کہانیاں سنانی شروع کر دیں تو بہت سے لوگ ساتھ چھوڑتے گئے۔ کچھ ملک چھوڑ کر نکل گئے۔ کیونکہ تبدیلی ایک خواب ثابت ہو گئی۔ جب عمران خان کو لانچ کیا جا رہا تھا تو میرے ایک صحافی دوست نے ایک دن گفتگو کے دوران کہا کہ عمران خان پاکستان کے نوجوانوں کو بگاڑنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑے گا اور ملک میں انقلاب کی جو راہ ہموار ہو رہی ہے اس میں عمران خان ایک رکاوٹ ہیں اور عمران خان کی حکومت کے آنے کے بعد ملک انقلاب کی راہ سے ہٹ کر دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ جائے گا کیونکہ اس ملک کے ساتھ ازل سے ہی کوئی مخلص نہیں ہے۔ جو بھی آیا اُس نے اپنے لئے منصوبہ بندی کی یا پھر اپنوں کو ایسے نوازا جس کی تاریخ نہیں ملتی۔ ہم یہاں پر کسی بھی خاص پارٹی یا ادارے کو ٹارگٹ نہیں کر رہے۔ آپ خود اردگرد نظر ڈالیں۔ آپ کے پڑوس کا بندہ جب حکومت میں نہیں تھا اس کے ٹھاٹھ بھاٹھ کیسے تھے اور جب اُن کی حکومت چلی گئی تو اُن کا رہن سہن کیسا تھا۔
ہم بڑے لیول کے بندے کی بات نہیں کر رہے بلکہ ایک عام ورکر کی بات کر رہے ہیں جو اقتدار میں آ کر اپنا بنک بیلنس بڑھا لیتا ہے۔ ملک میں ہر جگہ مافیا کا ایک جم غفیر ہے جس نے سب اداروں کو لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ کوئی ایک جگہ بھی خالی نہیں ہے۔ بے چارے پستے ہیں تو غریب عوام ہی اور رلتے بھی وہی ہیں کیونکہ پالیسیاں جو بنائی جاتی ہیں وہ ان کے لئے نہیں ہوتیں۔ وہ حکومت کی اپنے لوگوں کو خوش رکھنے کے لئے ہوتی ہیں۔ کوئی چینی، کوئی ایل پی جی، کوئی آٹا، کوئی ملٹی نیشنل، کوئی ٹیلی کام سیکٹر کے ساتھ بزنس کر رہا ہے جس سے وہی لوگ یعنی سیاست دانوں کے اپنے لوگ ان ڈائریکٹ فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ کوئی بھی حکومت ایسی نہیں گزری جس میں اپنوں کو نہ نوازا گیا ہو۔ سرکاری نوکریاں، ٹھیکے اور دیگر فوائد سے اپنوں کو بہرہ ور کیا جاتا ہے۔ ایسے میں نوجوان ملک چھوڑنے کی نہیں سوچیں گے تو کیا کریں گے؟
گذشتہ کئی مہینوں سے ملک سے باہر جانے والے لوگوں کا ڈیٹا شیئر کیا جا رہا ہے کہ تین مہینوں میں اتنے لوگ ملک سے نکل گئے۔ میں سوچ میں پڑ گیا ہوں کہ کیا جو لوگ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں یہ وہاں کون سی ڈیوٹیاں کرتے ہوں گے جو اتنے فخر سے ملک چھوڑنے کی بات کرتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق بھارت سے ہر سال 10 لاکھ کے قریب لوگ باہر ممالک جاتے ہیں۔ وہ سکلڈ ورکرز ہوتے ہیں۔ بھارت سے ہر سال کینیڈا ڈیڑھ لاکھ لوگ جاتے ہیں اور امریکہ جانے والے بھارتیوں کی تعداد 2 لاکھ سالانہ ہے اور پوری دنیا میں بھارت سے ایکسپورٹ ہونے والے لوگوں کی تعداد 10 لاکھ ہے۔ کوئی جرمنی گیا، کوئی جاپان گیا اور کوئی یورپ کے کسی اور ملک میں گیا اور عرب ممالک میں جانے والے بھارتی بھی ہزاروں کی تعداد میں سالانہ جاتے ہیں۔ ان میں آپ کو ایک بھی ایسا نہیں ملے گا جو انجینیئر ہو، ڈاکٹر ہو، پروفیسر ہو، کاروباری ہو، سارے کے سارے وہ لوگ ہیں جن کو بطور خاص بیرون ملک جانے کے لیے تیار کیا جاتا ہے اور اکثر کی باقاعدہ تربیت کی جاتی ہے، ٹریننگ کی جاتی ہے۔ جیسا کہ بھارت کے کئی شہروں میں سلیکون ویلی بن چکی ہیں وہاں پر آئی ٹی ایکسپرٹ تیار ہوتے ہیں اور ان میں سے ضرورت کے مطابق بھارتی کمپنیوں میں کام کرتے ہیں اور باقی جتنے بھی سارے کے سارے بیرون ملک بھیجوا دیے جاتے ہیں۔ اس سے بھارت کی جہاں پر اپنی ترقی اور خوشحالی متاثر نہیں ہوتی، وہیں معیشت کا پہیہ بھی تیزی سے گھومنے لگتا ہے۔
اس کے برعکس ہمارے نوجوان پی ایچ ڈی کی ڈگری کے ساتھ وہاں پر اوبر چلاتے ہیں یا کسی ہوٹل وغیرہ میں ویٹر بن جاتے ہیں۔ یعنی ان کو کوئی اچھی نوکری نہیں ملتی اور یہ لوگ جب ملک سے جاتے ہیں تو تیس سے چالیس لاکھ روپے قرض کے طور پر کسی سے لے کر یا زمین بیچ کر چلے جاتے ہیں۔ یہاں پر اتنی رقم سے کوئی چھوٹا موٹا کاروبار بالکل بھی نہیں کریں گے مگر باہر جانے کا بھوت ان پر سوار ہوتا ہے۔ اس لئے تو باہر ممالک خاص کر کینیڈا نے پاکستانیوں کے لئے ویزوں میں آسانی پیدا کردی ہے اور بہت سے لوگ آسانی کے ساتھ کینیڈا کے لئے اپلائی کر لیتے ہیں بلکہ حالیہ رجحان بھی کینیڈا کی جانب زیادہ ہے جس کی بنیادی وجہ کینیڈا کی طرف سے پاکستانیوں کے لیے ویزے میں کچھ آسانیاں پیدا کرنا ہیں۔ اس کو زیادہ تر ایجنٹوں نے کیش کیا۔
پاکستان میں جس طرح کے حالات ہیں، جس طرح سے لوگ مہنگائی کی چکی میں پِس کر جو کل زکوٰۃ دینے والے تھے، آج خود زکوٰۃ کے مستحق ہو گئے ہیں۔ اندازے کے مطابق گذشتہ ڈیڑھ سال کے دوران پاکستان سے 15 لاکھ لوگ بیرونِ ممالک جا چکے ہیں۔ یہ اعداد و شمار پی ٹی آئی کے قیدی نمبر 804 کی طرف سے دیے گئے ہیں جبکہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ خاندان سمیت پاکستان سے باہر جانے والے کوئی 60 لاکھ کے قریب لوگ ہوں گے۔ ان میں سے دس پندرہ لاکھ تو وہ لوگ ہیں جو ہنرمند تھے، انجینیئر تھے، ڈاکٹر تھے، بزنس مین تھے، تعلیم کے اعلیٰ شعبوں سے تعلق رکھنے والے تھے۔ گویا ایک طرح سے برین ڈرین ہو گیا۔ جن لوگوں کی ہمیں، ملک کو ترقی کی معراج تک پہنچانے کی ضرورت تھی یا ہے وہ بیرون ملک چلے گئے یا جا رہے ہیں۔ ان کو پڑھایا لکھایا ریاست نے، وسائل خرچ کیے لیکن جب ان سے آؤٹ پٹ کی ضرورت پڑی تو ان لوگوں نے حالات کو وہیں چھوڑ کر صرف اپنے لئے سوچا اور ملک چھوڑ کر بھاگنے میں ہی عافیت جانی۔
نوجوانوں کے ساتھ کاروباری، انجینیئر، سائنس دان، ڈاکٹر، ٹیچر یہ لوگ تو اتنے زیادہ ملکی حالات سے دل برداشتہ ہوئے ہیں کہ کروڑ کروڑ روپے دے کر وہ پاکستان چھوڑ گئے۔ ایسے بھی ہیں جنہوں نے بیس بیس لاکھ روپیہ دیا اور ان میں سے کئی راستے میں تاریک راہوں میں گم ہو گئے۔ منزل پر پہنچنے کی بجائے موت کی وادی میں اتر گئے۔ لوگ دوسرے ممالک سے بھی ہجرت کرتے ہیں بہتر مستقبل کے لیے، دوسرے ممالک چلے جاتے ہیں مگر وہ ملک کو یوں تنہا نہیں چھوڑتے کہ عناصر ان کے ساتھ کھلواڑ کر سکیں۔ ان کی روک تھام کون کرے گا۔ اگر ہم سب ملک چھوڑ کر بھاگ جائیں تو کیا یہ ملک ترقی کر لے گا؟ کیا ملک چھوڑ کر بھاگ جانے کو کامیابی کہتے ہیں؟ اگر کہتے ہیں تو شوق سے جائیں مگر یاد رکھیں جو لوگ میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ جائیں انہیں دنیا بزدل اور ڈرپوک کہتی ہے۔