از فواد حسن
"مجھے اس بات کا دکھ ہے کہ اس ریاست کو 14 مہینے مجھے زندان میں ڈال کر مجھے بے گناہ ثابت کرنا پڑا۔ یہ سب شاید مجھے لاپتہ کئے بغیر بھی کیا جاسکتا تھا"۔ ایسا کہنا ہے ثمر عباس کا جو پچھلے ماہ کئی مہینے کی جبری گمشدگی کے بعداپنے گھر لوٹے۔
اس طویل کھٹن وقت میں ثمر کی مظلوموں کے لئے کام کرنے کی ہمت تو مزید بلند ہو گئی ہے مگر وہ تمام وسائل جو انہوں نے زندگی میں بہت محنت کر کے حاصل کئے تھے سب جا چکے ہیں۔
نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ اپنی گاڑی بھی بیچ ڈالی۔ چاول کی برآمدات کا کام جو اچھا خاصا چل رہا تھا اب ختم ہو گیا ہے اور رہنےکو گھر تک نہیں۔ "14 مہینے بعد واپس آیا تو پتہ چلا کہ اسباب ہی نہیں بچے۔ بس ایک کمرہ لے کر بیٹھا ہوں اور دل میں صبر کی دعا کےسوا کچھ نہیں۔۔"
ثمر کو پچھلے سال جنوری آٹھ کی شب لاپتہ کر دیا گیا تھا۔ ایک سال سے زائد کا عرصہ عقوبت خانوں میں رہنے کے بعد وہ مارچ 4 کو رہا ہوئے۔
ثمر کو چھوڑتے وقت ایک اہلکار نے ان سے پوچھا، جو کچھ ان کے ساتھ ہوا اس پر وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں تو 14 ماہ اذیت و بدترین ٹارچر کاٹنے والے بے گناہ سماجی کارکن کا کہنا یہ تھا کہ انہیں اب کوئی شکایت نہیں بلکہ صرف دکھ ہے۔
"میں نے صرف صحیفہ کاملہ سے ایک دعا اس اہلکار کو سنائی جو کچھ یوں ہے کہ اے پروردگار ترا احسان ہے کہ تو نے میرے تزکیہ نفس کے لئے مجھے اس امتحان میں ڈالا۔۔"
ثمر کا کہنا ہے کہ ریاستی اداروں کو شاید دو گھنٹے لگے ہوں یہ فیصلہ کرنے میں کہ وہ مجھے لاپتہ کر دیں، لیکن انہیں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے پورے 14 مہینے لگ گئے۔
ایسے میں ان کا سب کچھ برباد ہو گیا۔ اب ان کا بڑا بیٹا جو پہلے سپاہی بننا چاہتا تھا، کہتا ہے کہ اب ایسا کبھی نہیں کرے گا کیونکہ اسے اب سپاہیوں سے ڈر لگتا ہے۔ ان کی سب سے چھوٹی بیٹی باپ کو باہر جاتے دیکھ کر ان سے لپٹ جاتی ہیں اور سوال کرتی ہیں کہ کہیں ایک بار پھر وہ اسلام آباد تو نہیں جا رہے جہاں سے وہ کئی دن تک واپس گھر نہیں لوٹے تھے۔
ثمر پر لگائے جانے والے سارے الزام ان کے مطابق بے بنیاد تھے اور کچھ نادان دوستوں کی بے جا مخبری کے سبب انہیں گرفتار کیا گیا۔
"وقت آنے پر ان نادان لوگوں کے نام بھی منظرِ عام پر لے کر آؤں گا تاکہ آئندہ وہ کسی کے ساتھ ناجائز نہ کریں۔۔"
ان کا کہنا یہ بھی ہے کہ وہ صرف کاروبار میں مصروف تھے اور اس کے ساتھ کچھ سماجی سرگرمیاں تھیں۔ جتنا کماتے تھے اس سے زیادہ اپنا شرعی وظیفہ سمجھ کر ضرورتمندوں کو دے دیا کرتے تھے۔ "مجھ سے دورانِ گفتگو پوچھا گیا کہ آخر تمہارے اکاؤنٹ میں کروڑوں روپے کہاں سے آئے ہیں۔۔ اور اتنی مالیت کا فلیٹ کہاں سے بنا لیا۔ جس پر میں نے ان کی تصحیح کرتے ہوئے بتایا کہ میرے اکاؤنٹ میں مشکل سے دو لاکھ ہوں گے اور جس گھر کی آپ بات کر رہے ہیں وہ کرائے پر لے رکھا ہے۔۔"
سماجی کارکن کا کہنا ہے کہ انہیں کچھ سوچے سمجھے بغیر اور کسی قسم کی تفتیش سے پہلے ہی اٹھوا لیا گیا اور اپنی بے گناہی ثابت کرنے میں انہیں 14 ماہ لگ گئے۔
جب ان لوگوں کی فہرست سامنے لائی گئی جن کی امدد ثمر کیا کرتے رہے تھے اس میں اہل تشیع سمیت کئی اہلِ سنت اور مسیحی حضرات بھی شامل تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں خوشی ہوئی کہ اس فہرست سے وہ اپنے رسول کے سامنے وہ سرخرو ہو گئے کہ جب انسانیت کی بنیاد پر مدد کرنے کی بات آئی تو انہوں نے کسی کا مذہب یہ فرقہ نہیں دیکھا۔ "یہ الزام بھی اسی طرح مسترد ہوگیا تھا کہ میں خدا نخواستہ دہشتگردوں کی مالی امداد کرتا رہا ہوں۔"
آنکھوں میں اطمینان لئے، اور ہونٹوں میں مصائب سے پر مسکراہٹ کے ساتھ ثمر کا کہنا ہے کہ اب انہیں اپنی زندگی صفر سے شروع کرنی ہوگی۔ وہ تو واپس آ گئے مگر اسی سلسے میں اٹھایا جانے والا ان کا برادرِ نسبتی محمد علی عرف فیضی اب تک لاپتہ ہے۔
ثمر نے یہ بھی بتایا کہ تمام تر تفصیلات تک پہچنے کے لئے اور مکمل تفتیش کے لئے دورانِ قید ان کے سکول کے کئی ساتھیوں کو بھی دس دس دن کے لئے اٹھایا گیا۔ ان کا سوال ہے کہ آخر یہ سب کچھ کس قانون کے تحت ملک میں ہو رہا ہے۔
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]