عاصمہ شیرازی ایک بہترین صحافی، تجزیہ نگار اور لکھاری ہیں ۔ان کا بے باک قلم انکی منفرد شخصیت اور ان کا پراعتماد حجاب انکی پہچان ہے ۔ انہوں نے 2000 میں صحافت کی دنیا میں قدم رکھا اور اپنے کیرئیر کا آغاز پاکستان ٹیلی وژن سے کیا۔ اس کے بعد انہوں نے متعدد پلیٹ فارمز کے ساتھ کام کیا جس میں جیو نیوز ، اے آر وائی نیوز، ڈان نیوز سماء نیوز ، ایکسپریس نیوز اور آج نیوز سر فہرست ہیں ۔ انہوں نے بے حد سراہے جانے والے شو “فیصلہ آپ کا “ کی میزبانی کی ۔ انہیں ان کی جامع، غیر جانبدارانہ اور منصفانہ صحافتی صلاحیتوں کے لیے 'بہترین کرنٹ افیئر اینکر' کے اعزاز سے نوازا گیا۔
عاصمہ شیرازی نے متعدد تنازعات کے بارے میں بھی رپورٹنگ کی ۔ جس میں 2005 کا کشمیر کا زلزلہ ، 2006 کا اسرائیل لبنان تنازعہ ،2007 میں جنرل پرویز مشرف کی طرف سے نافذ ایمرجنسی صورتحال ، اور 2009 میں پاکستان افغانستان تنازعہ شامل ہیں ۔ وہ پہلی سیاسی نامہ نگار بھی ہیں ۔ اسکے علاوہ انہوں نے ایک ہی طرز کے پروگراموں کی روایت کو توڑا۔
انہوں نے ٹیلی ویژن پہ اپنی طرز کے ایک منفرد شو “پارلیمنٹ کیفے ٹیریا “ کی میزبانی کی جو پارلیمنٹ سے براہ راست دکھایا جاتا تھا ۔ اب وہ آج نیوز پہ “فیصلہ آپ کا “ کی میزبانی کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں ۔ وہ ایک نہایت قابل صحافی اور ایک بہت شائستہ خاتون ہیں ۔ ہمیں ان سے بات کرنے کا موقع ملا ۔ آئیں اس ملاقات کا احوال آپ کے گوش گزار کرتے ہیں ۔
اپنے بارے میں بات کرتے ہوئے عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ وہ اسلام آباد میں پیدا ہوئیں ۔ انکے والد ایک سرکاری افسر اور والدہ ریٹائیرڈ گورنمنٹ ٹیچر ہیں ۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اسلام آباد سے ہی حاصل کی اور اسکے بعدپولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی لاہور سے حاصل کی۔ طالب علمی کے زمانے میں انہوں نے بہت سے تقریری مقابلے جیتے اور انہیں بہترین مقرر کا ایوارڈ بھی ملا ۔ زمانہ طالب علمی میں وہ بہت سی غیر نصابی سرگرمیوں ( ڈرامہ ، گلوکاری ، شاعری، تقریری مقابلے ) میں بھرپور حصہ لیتی تھی ۔اور انہوں نے 1999 میں پرائم منسٹر شیلڈ بھی جیتی ۔
اپنے بچپن کو یاد کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کے گھر کا ماحول بہت تہذیب یافتہ تھا ۔ انکی والدہ کچھ سخت تھیں جبکہ والد بہت نرم دل اور محبت کرنے والے تھے ۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بچپن سے ہی اپنے والد کے زیادہ قریب ہیں، انکی شخصیت، انہیں ا تنا پر اعتماد بنانے اور آگے بڑھانے میں ان کے والد کا بہت زیادہ اثر ہے۔
عاصمہ شیرازی نے بتایا کہ چونکہ انکے والدین کو مطالعے کا بہت شوق تھا اس لئے وہ بھی بچپن سے ہی کتابوں کی دلداہ ہیں ۔ بچپن کی حسین دور کو یاد کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے والد کے ہمراہ روز شام کو آئس کریم کھانے جاتی تھیں اور اس وقت ٹیلیوژن کا رجحان زیادہ نہ تھا تو وہ بہت سکون والی زندگی بھی تھی، انہوں نے بتایا کہ بچپن میں وہ اپنے فارغ وقت میں زیادہ تر کتابیں پڑھتی تھیں ۔
اپنے حجاب پہ بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ سید فیملی سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے ان کے گھر میں ہمیشہ مذہبی روایات کا خیال رکھا جاتا تھا، انکی والدہ خاصی مذہبی ہیں مگر حجاب پہنے پہ ان کے والدین کی طرف سے کوئی دباؤ نہیں تھا ۔ بلکہ جب وہ کالج میں تھیں تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ہمیشہ سر کو ڈھانپیں گی۔
زندگی پہ بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا زندگی امید کا نام ہے ۔ جب تک سانس میں سانس باقی ہے تب تک امید باقی ہے اور امید مر جائے تو زندگی کا کوئی فائدہ یا معنی باقی نہیں رہتا ۔
اپنے خاندان کی روایات پہ بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کے خاندان میں بیٹیوں کو بہت عزت اور احترام دیا جاتا ہے ۔ انہیں پراعتماد بنایا جاتا ہے اور انہیں زمانے کے ساتھ چلنا سیکھایا جاتا ہے، ان کے خاندان میں دین اور دنیا کے ملاپ کو بہترین انداز میں پیش کیا جاتا ہے، مذہبی اور معاشرتی روایات کی پاسداری کی جاتی ہے، اسکے علاوہ ان کے گھر میں ہمیشہ پنجابی زبان بولی جاتی تھی ۔ لوگ اس بات پہ اکثر حیران ہوتے تھے کہ یہ لوگ اپنے بچوں سے پنجابی بولتے ہیں ۔ کیونکہ ہمارے معاشرے میں پنجابی زبان کو دقیانوسیت سے جوڑا جاتا ہے ۔ اور اب بھی ان کے گھر میں پنجابی زبان ہی بولی جاتی ہے۔
عاصمہ شیرازی نے بتایا کہ انہوں نے 2000 میں صحافت کے شعبے میں قدم رکھا۔ انہوں نے پاکستان ٹیلی ویژن سے اپنے کیرئیر کا باقاعدہ آغاز کیا مگر اس دوران انہیں سکرین پر آنے نہیں دیا گیا کیونکہ انہیں کہا جاتا تھا کہ آپ حجاب اتار کر سکرین پہ آئیں جبکہ ان کا کہنا تھا کہ سکارف پہننا یا اتارنا ان کی اپنی مرضی کے مطابق ہونا چاہیے تھا اس لئے انہوں نے جلد ہی وہاں سے نوکری چھوڑ دی ۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں اب سب سے بڑا فقدان جمہوریت کا ہے ۔ دوسرا مسئلہ مہنگائی بھی ہے مگر سب سے بڑا مسئلہ جمہوریت کا ہے۔
عاصمہ شیرازی نے بتیا کہ ہماری عوام ہمیشہ تبدیلی کی تلاش میں رہتی ہے ۔ اور کیونکہ پچھلے ستر سالوں میں سے چالیس سال جب مارشل لاء تھا تو عوام نے اس کی مخالفت کی۔ قائداعظم کے بعد کوئی اچھا رہنما بھی بدقسمتی سے ہمیں نہیں ملا ۔اور بدقسمتی سے جتنی بھی سیاسی قیادتیں جیسے ذوالفقار علی بھٹو انہیں اپنی وقت نہ دیا گیا ۔ اسکے بعد جب نواز شریف کو اقتدار ملا تو انہیں بھی اپنی مدت پوری نہ کرنے دی گئی، انہیں برطرف کر دیا گیا۔ جمہوریت اور قیادت کا فقدان ہمارے نوجوانوں میں شدت پسندی پیدا کر رہا ہے کیونکہ جمہوریت اور قیادت نوجوانوں کو ایک صحیح سمت مہیا کرتی ہے ۔ انہیں راستہ دکھاتی ہے جبکہ غیر جمہوری رویے معاشرے کے ہر مسئلے کا سبب ہیں ۔
سوشل میڈیا کے استعمال پہ بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کچھ حد تک سوشل میڈیا عوام میں آگاہی فراہم کر رہا ہے مگر اسکے فوائد اور نقصان ساتھ ساتھ ہیں اور چونکہ سوشل میڈیا ہمارے معاشرے میں ابھی نیا ہے تو ایک طرح سے بندر کے ہاتھ میں استُرا آیا ہوا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس میں بھی وہ کسی قسم کی پابندیوں کی قائل نہیں ہیں، ان کا ماننا ہے لوگ وقت کے ساتھ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال بھی سیکھ جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ٹیلی ویژن انڈسٹری آئی تب بھی کنٹرول میڈیا ہونے کے باوجود الیکٹرونک میڈیا نے بہت کچھ سیکھا اور اب بھی لوگ کسی خبر کی صداقت کو پرکھنے کیلئے ٹیلی ویژن ہی دیکھتے ہیں ۔
نئے آنے والے صحافیوں کو پیغام دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہمت نہ ہاریں ۔ بہت سی آندھیوں اور طوفانوں سے لڑ کر آپ کو آگے بڑھنا ہوگا مگر ہمت نہ ہاریں اور ہمیشہ سچ کو سامنے لانے کی کوشش کریں اور سچ بولیں ایک غیر جمہوری معاشرے میں جو سچ بولنے کی حد ہے اس حد کو ضرور چھوئیں ۔ اور آگے بڑھتے رہیں ۔