اعجاز الاحسن، جس نے جنگ کے آغاز سے پہلے ہی ہتھیار ڈال دیے

جسٹس اعجاز الاحسن کو بندوق رکھنے کے لئے کسی دوسرے کا کندھا جب تک میسر رہا وہ خوب بڑھکیں مارتے رہے۔ مگر یہ حیران کن ہے کہ گھنٹی بجنے سے بھی پہلے انہوں نے اپنے گلوز اتار دیے ہیں۔ لڑائی کے آغاز سے بھی پہلے۔ پتہ نہیں ان کو کس سے مڈ بھیڑ کا خوف تھا۔

اعجاز الاحسن، جس نے جنگ کے آغاز سے پہلے ہی ہتھیار ڈال دیے

کچھ لوگ پیدائشی سپر ہیرو ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ سپر ہیرو بن جاتے ہیں جب انہیں ایک خاص عبا اور بالوں کی وِگ پہنائی جاتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ فطری طور پر ہی معاون اداکار ہوتے ہیں، جن کا کام محض یہ ہوتا ہے کہ سپر ہیرو بڑے بڑے کارنامے سرانجام دیتا جائے جبکہ یہ لوگ پردے کے پیچھے رہ کر انتظامی امور دیکھیں۔ کسی نا کسی کو تو بیٹ مین کے غار کی صفائی ستھرائی کا بھی خیال رکھنا ہے نا، کہ نئے نویلے انوکھے ہتھیاروں کا کوئی آرڈر تاخیر کا شکار نہ ہو جائے۔ بیٹ مین کی گاڑی کی بھی سروس ضروری ہوتی ہے۔

اعجاز الاحسن اپنے بیٹ مین ثاقب نثار کے رابن تھے۔ جب ثاقب نثار جیلوں میں کھانا چکھنے جاتے تھے تو اعجاز الاحسن پیچھے کھڑے ہو کر چہرے کے تاثرات سے عملے پر خفگی کا اظہار کرتے، جب ثاقب نثار نجی اسپتال کے مالکان کو ان کی نجی پراپرٹی کا دورہ کرتے ہوئے ہدایات جاری کر رہے ہوتے تھے تو اعجاز الاحسن ان کے ساتھ ساتھ چلتے۔ انہوں نے ثاقب نثار کو آبادی پر کانفرنس کروانے میں بھی بڑی پرجوش معاونت فراہم کی۔ جب وہ ڈیم بنانے کھڑے ہوئے تو اعجاز الاحسن اپنے باس کے شانہ بشانہ تھے۔

پھر گلزار احمد آئے، اور اعجاز صاحب نے ایک بار پھر اپنا یونیفارم پہنا اور شہر کے نئے ہیرو کے لئے انجینیئرنگ کے فرائض انجام دینے لگے۔ انہوں نے اپنے ساتھی جج کو جادو کی چھڑی گھما گھما کر کراچی کی کئی عمارات کو غیر قانونی قرار دے کر گرانے میں پوری مدد دی۔ یہ ایسا سپر ہیروانہ کام تھا کہ شہریوں کا نقصان کر کے شہر کے ماسٹر پلان کا تحفظ کیا گیا، گو پلان خود بھی شہریوں کے تحفظ کے لئے بنایا گیا تھا۔ لیکن اعجاز صاحب کہاں ٹلنے والے تھے؟

پھر عمر عطا بندیال آ گئے، اور یہاں معاون اداکار ہمیں ہیرو کے بڑی حد تک ہم پلہ کردار میں نظر آئے۔ کچھ یہ بھی تھا کہ عمران خان کی سیاسی جماعت ہر سیاسی معاملے پر بندیال عدالت سے اس کا نظریہ دریافت کرنے پہنچ جاتی اور بہانہ ہر بار آئینی تشریح کی درخواست کا ہوتا تھا۔ ہر بار اعجاز صاحب نے آئین کو نئے سرے سے لکھنے میں معاونت کی۔ جب ان سیاسی آرا سے لبریز افسانوں پر عمل درآمد کا وقت آتا تو اعجاز صاحب ہر بار اس تین رکنی بنچ کا حصہ ہوتے جسے ایک ہی صورت حال میں آئین کی دو مختلف تشریحات کرنے پر ملکہ حاصل تھا، محض اس بنیاد پر کہ درخواست گزار کون ہے؛ اگر عمران خان کی پارٹی اس کی بات نہیں سن رہی تو یہ سرکشی ایک کینسر قرار پاتی جو ملک کے سیاسی جسم میں سرایت کر چکا ہوتا، لیکن اگر چودھری شجاعت کی جماعت نافرمانی کرتی تو سیاسی جماعتوں کے اندر بڑھتی ہوئی آمریت ملک کے سیاسی جسم میں سرایت کرنے والا کینسر قرار پا جاتی۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

سیاسی اکھاڑے کے باہر بھی جسٹس اعجاز الاحسن نے بہت سے کارنامے سرانجام دیے۔ مثلاً جب گلزار صاحب مطیع اللہ جان کی جبری گمشدگی کیس کے دوران اپنا حکم نامہ لکھوا رہے تھے تو اعجاز صاحب نے ان کو ٹوک کر کہا کہ 'مبینہ' جبری گمشدگی لکھوانا چاہیے۔ ابصار عالم نے پیمرا چیئرمین کے عہدے سے ہٹائے جانے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو اعجاز صاحب نے اس بنیاد پر پٹیشن خارج کر دی کہ ابصار عالم کا وکیل بیماری کے باعث حاضر نہ ہو سکا تھا۔ اعجاز صاحب کے نزدیک یہ عذر اس لئے ناقابلِ قبول تھا کہ وکیل نے میڈیکل سرٹیفکیٹ نہیں جمع کروایا تھا۔ جو کہ وکیل صاحب اس لئے جمع نہیں کروا سکتے تھے کہ وہی تو بیمار تھے۔

ماحولیات کے حوالے سے بھی ان کا ریکارڈ کسی صورت باقی معاملات میں ان کی کارکردگی سے پیچھے نہیں۔ جسٹس اعجاز اس بنچ کا حصہ تھے جس نے لاہور ہائی کورٹ کا وہ فیصلہ معطل کیا جس میں راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو غریب لوگوں سے زمین ہتھیانے والا پروجیکٹ قرار دیا گیا تھا جس کے خوفناک ماحولیاتی نتائج ہو سکتے تھے، اور اس 'ترقیاتی منصوبے' کو جاری رکھنے کی اجازت دے دی تھی۔ RUDA پروجیکٹ عمران خان کے دل کے بہت قریب تھا، انہوں نے اس کی شان میں موقع پر جا کر ایک ویڈیو بھی بنا کر اپلوڈ کی تھی۔

جسٹس اعجاز الاحسن کو بندوق رکھنے کے لئے کسی دوسرے کا کندھا جب تک میسر رہا وہ خوب بڑھکیں مارتے رہے۔

انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ریفرنس کی سماعت کے لئے بننے والے بنچ سے خود کو علیحدہ نہ کرنے کی حتیٰ الامکان کوشش کی حالانکہ انہیں بتایا بھی گیا کہ جسٹس عیسیٰ کو ہٹائے جانے کا انہیں براہِ راست فائدہ ہوگا، کیونکہ اس صورت میں وہ زیادہ عرصے تک پاکستان کے چیف جسٹس رہ سکتے تھے۔ جسٹس عیسیٰ لڑتے رہے، لڑتے رہے، اس وقت تک کہ اعجاز الاحسن کے تمام دوست انہیں ہٹانے میں ناکام ہو گئے۔

آسکر وائلڈ نے کہا تھا؛ بدکاری شریف لوگوں کا تراشا ہوا ایک تصور ہے جس سے وہ دوسروں کی پراسرار کشش کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب عمران خان کو اقتدار سے نکالا گیا تو اعجاز صاحب نے ان کی پراسرار کشش کو سمجھنے کی پوری کوشش کی۔ یہ سفر بہت کٹھن تھا، اور اس وقت شروع ہوا جب انہیں احساس ہوا کہ عمران خان کو انہی آئینی حقوق کی ضرورت ہو گی جن کے چھینے جانے میں خان صاحب نے اپنے دور میں اپنا پورا حصہ ڈالا تھا۔

اس سب کو واقعتاً پراسرار کشش ثابت کرنے کا مشکل ترین مرحلہ شاید وہی رہا ہوگا جب انہوں نے چار دیگر ججز کے ساتھ مل کر اس مفروضے کو غیر قانونی قرار دیا کہ عام شہریوں پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہو سکتا ہے اور اس قانون کی متعلقہ دفعات کو غیر آئینی قرار دے دیا۔ عمران خان کو ضرورت پڑنے پر دیے گئے ان کے دیگر جمہوری فیصلوں کی طرح اس فیصلے کو بھی سپریم کورٹ میں ان کے برادر ججز سمیت کسی نے سنجیدگی سے نہیں لیا۔

یہ حیران کن ہے کہ جسٹس اعجاز الاحسن نے گھنٹی بجنے سے بھی پہلے ہی اپنے گلوز اتار دیے ہیں۔ لڑائی کے آغاز سے بھی پہلے۔ پتہ نہیں ان کو کس سے مڈ بھیڑ کا خوف تھا۔ غالباً ماضی کے اعجاز الاحسن ہی سے؟

**

عبدالمعز جعفری کا یہ تجزیہ انگریزی روزنامے Dawn میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لیے ترجمہ کیا گیا ہے۔

عبدالمعز جعفری قانون دان ہیں اور مختلف آئینی و قانونی معاملات پر کالم لکھتے ہیں۔ ان کے مضامین انگریزی روزنامے Dawn میں شائع ہوتے ہیں۔