ہمارا معاشرہ شدید نظریاتی بحران سے دوچار ہے، پیر و جواں سب اس بحران کا شکار ہیں۔ معاشرے میں کثیر تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو نظریاتی طور پر مردہ ہیں، نہ یہ کسی سے نظریاتی اختلاف کرتے ہیں نہ اتفاق۔
نظرئیے کی عدم موجودگی کے نتیجے میں انکی ذات بے حس اور مُردہ ضمیر ہوجاتی ہے۔ انکا وجود معاشرے میں کیسی چوپائے کی مانند ہوتا ہے جو بس اپنی ضروریات پوری کرنے کی کوشش میں موت تک پہنچ جاتا ہے۔ معاشرے میں جو کچھ چل رہا ہوتا ہے اور اس سے انکی چمڈی بےاثر رہتی ہے۔
ظاہری طور پر وہ رائے بھی دیتے ہیں تنقید بھی کرتے ہیں لیکن حقیقی معنوں میں وہ اس سے نظریاتی طور پر غیر موثر ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہمارا معاشرہ بد عنوانی اور اخلاقی پستی سے دوچار ہے۔
ستم ظریفی کا عالم یہ ہے سیاست اور معاشرتی امور میں ایسے لوگوں کی اکثریت ہے جو اخلاقی تہذیبی، ثقافتی، علمی، ادبی، تعلیمی اور خاص طور پر نظریاتی پستی میں اوّل درجے کی مہارت رکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے امریکی انگریزی میں ایک انیسویں صدی کی اصطلاح موجود ہے سنوليگوسٹر (snollygoster) یعنی ایک ایسا شاطر شخص جسکا کوئی ایمان نہ ہو۔
یہ اصطلاح ہمارے موجودہ دور کے حکمرانوں پر صادق آتی ہے۔ یہ لوگ آج ایک بات کی تائید کرتے ہیں، کل کو اسی کی مخالفت۔ کبھی ایک نظریہ رکھنے والی جماعت کے ساتھ کبھی اس سے نظریاتی تصادم رکھنے والے جماعت کے ساتھ۔ جو شخص نظریاتی طور پر مضبوط اور ثابت قدم ہو وہ کبھی بھی ایسا نہیں کرسکتا۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ایسا نظریاتی تبدیلی کی وجہ سے ہوتا ہے بلکہ یہ طاقت اور اقتدار میں میں تبدیلی کی باعث نظر آتا ہے۔ میرا کہنا ہرگز یہ نہیں کی انسان میں نظریاتی تبدیلی نہیں آتی یا نہیں آنی چاہیے بلکہ میرا نقطہ نظر یہ ہے کی انسان کو ہمیشہ دوسرے کی بات سنکر اپنی خامیاں تلاش کرتے ہوئے اپنی اصلاح کرنی چاہیے پھر وہ نظریاتی ہو یہ کچھ اور۔
مگر مندرجہ بالا جنکا ذکر ہوا اُن میں ایسی کسی بات کا کوئی وہم و گمان ہی موجود نہیں۔ ایسے لوگوں کا ایسے عہدوں پر مامور ہونا معاشرے کے لیے ایک ناسور ہے۔ ہمارے معاشرے کی جواں نسل کو اب ہوش کے ناخن لینے چاہییں تا کہ ہمارا معاشرہ مزید اخلاقی اور نظریاتی پستی سے بچا رہے۔
مصنف کا تعلق سری نگر جموں کشمیر سے ہے، حالات حاضرہ کے بارے میں تجزیہ اور تبصرہ ان کا مشغلہ ہے۔