سینئر صحافی نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ اس وقت پوری حکومت کا فوکس شہباز شریف کی جانب ہے، انھیں گرفتار کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ اگر عمران خان کو شہباز شریف سے شدید ڈر پیدا ہو چکا ہے تو یہ بات عیاں ہے کہ وہی وزارت عظمیٰ کے سب سے مضبوط امیدوار ہیں۔
یہ بات انہوں نے نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر مرتضیٰ سولنگی نے پوچھا کیا یہ بات پیپلز پارٹی کی قیادت کو قابل قبول ہوگی؟
اس کا جواب دیتے ہوئے نجم سیٹھی نے کہا کہ ابھی بڑی دلچسپ چیز سامنے آئی ہے کہ بلاول بھٹو نے کسی سے پوچھے یا کسی کا بیان آئے بغیر یہ اعلان کر دیا ہے کہ ہم تو پہلے ہی دن سے ان ہائوس تبدیلی کی بات کر رہے تھے لیکن دوسری جانب سے لانگ مارچ اور استعفوں کی باتیں کی جا رہی تھیں۔ ہم تو ان چیزوں کے پہلے دن سے ہی خلاف تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب بات سیدھی سی ہے کہ اگر تحریک عدم اعتماد لائی جاتی ہے تو اس کے بعد وزیراعظم کون ہوگا؟ شہباز شریف کیوں وزیراعظم بننا اور کسی حکومت کی باگ دوڑ سنبھالنا چاہیں گے؟
اس پر رضا رومی کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کا معیار تو کارکردگی ہے۔ ان حالات اور معیشت کی ایسی دگرگوں صورتحال میں شہباز شریف یہ ذمہ داری سنبھالتے ہیں تو ان کا بھٹہ بیٹھ جائے گا۔ لوگوں نے تو کہنا شروع کر دینا ہے کہ ان سے بھی کچھ نہیں ہوا۔
اس کا جواب دیتے ہوئے نجم سیٹھی نے کہا کہ اگر ڈیڑھ سال یا صرف ایک دو ماہ کی کیلئے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کی ذمہ داری دی جاتی ہے تو انھیں کوئی پرابلم نہیں ہوگی لیکن اگر انھیں 6 ماہ کی حکومت دی گئی تو وہ کچھ نہیں کر سکیں گے اور ان پر خراب کارکردگی کی مہر بھی لگ جائے گی۔ لیکن ڈیڑھ دو ماہ کے عرصے میں ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ ان کا کام صرف جلدی جلدی سے کچھ چیزیں ٹھیک کرنا ہوگا۔
ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر تحریک عدم اعتماد کے معاملے کو ٹرک کی بتی بنانے کی کوشش کی گئی تو اس کا بہت برا ردعمل آئے گا۔ اگر اسٹیبلشمنٹ اس بار نیوٹرل نہ رہی تو بات بہت آگے نکل جائے گئی۔ آر یا پار گیم ہونے والی ہے۔
نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ اگر کسی شخصیت سے وعدہ کیا گیا تو وہ مولانا فضل الرحمان تھے، تاہم ان کیساتھ مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی شامل نہیں تھی۔ اس لئے دونوں جماعتوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ لیکن وعدہ خلافی کے بعد سب نے دیکھا کہ مولانا کا رویہ اسٹیبلشمنٹ کیخلاف کیسا سخت ہو گیا تھا۔ انہوں نے ایسی تلخ باتیں شروع کر دی تھیں کہ درخواست کی گئی کہ ایسے بیانات نہ دیں، اس پر مولانا پیچھے ہٹے وگرنہ وہ پیچھے ہٹنے والے نہیں تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد شہباز شریف کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا گیا تو نواز شریف اور مریم نواز نے فرنٹ فٹ پر آ کر لوگوں کے نام لینا شروع کر دیئے، اس وقت بھی کہا گیا کہ ہمارے نام نہ لئے جائیں۔
تیزی سے بدلتے ہوئے ملک کے سیاسی منظر نامے پر اپنا سیاسی تجزیہ پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ بات دھیان رہے کہ اب تیسرا رائونڈ شروع ہے۔ اب یہ مولانا فضل الرحمان یا شہباز شریف نہیں بلکہ براہ راست نواز شریف کیساتھ ہے۔
وزیراعظم عمران خان کے اسٹیبلشمنٹ کیساتھ بگڑتے معاملات پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان چیزوں کو انڈر اسٹیمیٹ نہ کیا جائے کہ عمران خان نے دو پوائنٹس پر اسٹیبلمشنٹ کو بہت مایوس کیا۔ ایک اپنی صفر کارکردگی اور دوسری آئی ایس آئی چیف کے معاملے پر، اس کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ بدنام ہوئی ہے۔ اسٹیبشلمنٹ کے اندر 100 فیصد لوگ اس بات پر متفق ہو چکے ہیں کہ اب بہت ہو گیا، ہمیں اب حکومت سے فاصلہ رکھنا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کے ایک دو ٹاپ لوگوں کیساتھ عمران خان کی جو تعلقات رہ گئے تھے وہ بھی انہوں نے آئی ایس آئی چیف کے معاملے پر خراب کر لئے ہیں۔ اب معافیاں مانگتے پھرتے ہیں کہ میں معذرت کرنے کیلئے تیار ہوں لیکن دوسری جانب کسی نے کچی گولیاں نہیں کھیلیں وہ عمران خان کو پہچان چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اگلے الیکشن میں بھی دھاندلی ہو جائے گی تو ایسی باتیں خام خیالی ہیں۔ ملک کے موجودہ حالات میں شارٹ ٹرم چیزوں کی کوئی جگہ نہیں، لانگ ٹرم حل ڈھونڈنا پڑیں گے۔ ہائبرڈ سسٹم فیل ہو چکا ہے۔ صدارتی نظام کی باتیں بھی وہیں سے کی جا رہی ہیں جہاں سے نئی سیکیورٹی پالیسی آئی ہے۔صدارتی نظام لانے کی باتیں کرنے والے پڑھے لکھے جاہل ہیں۔ یہ نظام ایوب خان، ضیا الحق اور مشرف کے دور میں فیل ہو چکا ہے۔