مٹھائیاں تقسیم کرنے سے فی الحال گریز کریں

مٹھائیاں تقسیم کرنے سے فی الحال گریز کریں
بظاہر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو وزیراعظم بنانے کے لئے حالات ساز گار دیکھائی دے رہے ہیں۔ ملک میں تین مرتبہ وزیراعظم بننے کا اعزاز حاصل کرنے والے میاں نواز شریف پانامہ کیس میں نااہل ہو چکے ہیں۔ احتساب عدالت سے میاں صاحب، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو قید کی سزا کے علاوہ جرمانہ کیا جا چکا ہے۔ اس فیصلے سے سب سے زیادہ خوشی اور خود اعتمادی تحریک انصاف کے کارکنوں میں دیکھی جا رہی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کی رپورٹ کے مطابق نواز شریف کی لندن رہائش گاہ کے سامنے ان کے گھر کے افراد پر انڈے برسائے گئے ہیں۔ پاکستان میں پی ٹی آئی کی طرف سے مٹھائیاں بانٹی جا رہی ہیں۔ اس طرح نواز شریف فیملی کو بظاہر سیاست سے باہر رکھنے کی کوشش کامیاب ہو رہی ہے۔

پیپلز پارٹی کی قیادت کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے

دوسری طرف پیپلز پارٹی کی قیادت کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق مممتاز بنکار حسین نواحی کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ آصف علی زرداری اور فریال تالپور کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ 25 جولائی 2018 کے انتخابات سے قبل ہو رہا ہے۔ مسلم لیگ کے موجودہ صدر میاں شہباز شریف عمران خان کے لئے بڑا چیلنج نہیں ہیں۔ وہ میاں نواز شریف کی طرح اسٹیبشلمنٹ کے ساتھ محاذ آرائی نہیں کرنا چاہتے بلکہ مفاہمت سے چلنا چاہتے ہیں۔ وہ قومی حکومت کے قیام کے حامی ہیں۔ ان کا معتدل اور غیر مزاحمتی بیانیہ عوام میں مقبولیت حاصل نہیں کر سکا ہے۔

میڈیا نے پنجاب میں بلاول بھٹو کے جلسے جلوسوں کو دکھانے کی ضرورت محسوس نہیں کی

بلاول بھٹو زرداری بھی سندھ کی حد تک کامیابی سے انتخابی مہم چلا چکے ہیں مگر پنجاب میں داخلے کے ساتھ اس مہم کی نوعیت بدل گئی ہے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے پنجاب میں بلاول بھٹو کے جلسے جلوسوں کو دکھانے کی ضرورت محسوس نہیں کی ہے۔ سندھ میں بھی پیپلز پارٹی کے کچھ الیکٹ ایبل تحریک انصاف اور گرینڈ الائنس میں شامل ہونے سے ووٹ بینک کا گراف گرا ہے۔ اب اس کے امیدوار شاید ہزاروں کی لیڈ سے نہیں جیت سکیں گے۔



احتساب کے نعرے اور خفیہ اداروں کی معاونت کی وجہ سے تمام صورتحال پی ٹی آئی کی فیور میں جا رہی ہے

جنوبی پنجاب کے الیکٹ ایبل کے تحریک انصاف میں شامل ہونے یا آزاد امیدوار کے طور پر حصہ لینے سے مسلم لیگ ن کے ووٹ بینک کو خاصی گزند پہنچی ہے جبکہ مسلم لیگ کے امید واروں کی ٹکٹوں کی واپسی یا پی ٹی آئی کے امیدواروں کے حق میں دستبرداری کا سلسلہ جاری ہے۔ بلوچستان میں پی ٹی آئی کا کچھ گراف بڑھا ہے، پختونخوا میں بھی تحریک انصاف کے لئے اے این پی، پیپلز پارٹی اور متحدہ مجلس عمل کی طرف سے کوئی چیلنجز نہیں ہیں۔ عام انتخابات میں آزاد امید وار کامیابی کے بعد پی ٹی آئی کی طرف رخ کریں گے۔ احتساب کے نعرے اور خفیہ اداروں کی معاونت کی وجہ سے تمام صورتحال پی ٹی آئی کی فیور میں جا رہی ہے مگر احتساب اگر بلا امتیاز نہ ہو اور دائرہ محدود رہے تو حالات کی تبدیلی کے لئے سیاسی معروضیت جنم لے سکتی ہے۔ نواز شریف اور مریم نواز کی سزا کے بعد اور لاہور ائرپورٹ آمد اور استقبال سے کئی جگہ ہیجانی کیفیات پیدا ہوئی۔



'اس نااہلی اور سزا پر خوش نہیں ہونا چاہیے'

مزاحمت کے حوالے سے مسلم لیگ ن کے کارکنوں کا کبھی پرجوش اور جارحانہ رویہ سامنے نہیں آیا ہے۔ اب جبکہ مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف مفاہمت کی بات کرتے ہیں اور میاں نواز شریف محاذ آرائی کا بیانیہ اختیار کرتے ہیں تو ان مخالف بیانیوں سے کیا سیاسی فائدہ حاصل ہوگا؟ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ کی لیڈر شپ کی احتساب عدالت سے سزاؤں کے حوالے سے انتہائی ذمہ دارانہ رویہ اختیا ر کیا ہے اور کہا ہے اس نااہلی اور سزا پر خوش نہیں ہونا چاہیے۔ اسٹیبلشمنٹ کے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی پر دباؤ اور سزا کے مختلف حربوں کے ذریعے دونوں جماعتیں سیاسی بالادستی، ووٹ کی عزت، عوامی حقوق اور مفادات کے ایشو پر اکٹھی ہو سکتی ہیں کیونکہ دونوں جاری احتساب اور یکطرفہ سیاسی عمل کے حوالہ سے ایک جیسے تحفظات رکھتی ہیں۔

اس عمل میں سیاستدانوں کے علاوہ جرنیل اور بیورو کریٹس بھی شامل ہیں

پی ٹی آئی کے حمایتیوں کے بقول پہلی دفعہ پاکستان میں طاقتوروں کا احتساب ہو رہا ہے۔ یاد رہے کرپشن پاکستان میں انفرادی معاملہ نہیں ہے بلکہ غیر مساوی دولت کی تقسیم کی وجہ سے ہے۔ اس نظام میں طاقتوروں نے اختیارات کا ناجائز استعمال کر کے دولت اور جائیدادوں میں اضافہ کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ اس عمل میں سیاستدانوں کے علاوہ جرنیل اور بیورو کریٹس بھی شامل ہیں۔

بائیں بازو کے مزاحمتی بیانیہ کو کسی حد تک مسلم لیگ ن کی قیادت نے اپنا لیا ہے

مریم نواز کے بقول پاکستان میں پہلی مرتبہ کسی نے جمہوریت کے خلاف سازشیں کرنے والی پراسرار قوتوں کے راستے میں مزاحمت کی ہے۔ وہ پاکستان میں ریاستی اسحتصال اور جارحانہ رویوں کیخلاف صحافیوں، وکلاء ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی جدو جہد کو بھول گئی ہیں۔ آج بائیں بازو کے مزاحمتی بیانیہ کو کسی حد تک مسلم لیگ ن کی قیادت نے اپنا لیا ہے۔ مگر اس سے موجودہ نظام سیاست اور مفادات کے حوالے سے ممکنہ اہداف حاصل کیے جا سکتے ہیں لیکن عوام کے بنیادی حقوق اور بہتری کے لئے کچھ نظر نہیں آ رہا ہے۔ یاد رہے کہ طاقت کے حقیقی سر چشموں اور کرداروں کا کبھی احتساب نہیں ہوا ہے جبکہ سیاستدانوں کو ہمیشہ نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، جنہیں اقتدار تو دے دیا جاتا ہے مگر داخلہ اور خارجہ پالیسیاں بنانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ یوں بھی سیاستدانوں کو زیادہ اختیارات دے دیا جائے تو اس کو مخالفین استعمال کرتے ہیں۔



نواز شریف نے عدالتی سازش کے ذریعے جسٹس عبدالقیوم سے بے نظیر بھٹو کو سزا دلانے کی کوشش کی

پاکستان میں سالہا سال تک وزیراعظم اور حکومتوں کو بنانے اور ہٹانے کا عمل جاری رہا ہے۔ 1988 سے 1999 تک سیاسی قیادتوں کے درمیان مختلف منافقتوں کے ذریعہ سیاسی انتشار میں اضافہ کیا گیا۔ پرویز مشرف نے نام نہاد احتسابی نظام کی دھمکیوں کے ذریعے پیپلز پارٹی کے ارکین کی ہمدردیاں تبدیل کر کے وزیر اعظم کو منتخب کروایا تھا۔ 1997 میں نواز شریف نے دو تہائی اکثریت سے احتساب بیورو بنانے کے بعد پیپلز پارٹی کے خلاف انتقامی کارروائیاں کیں اور عدالتی سازش کے ذریعے جسٹس عبدالقیوم سے بے نظیر بھٹو کو سزا دلانے کی کوشش کی گئی مگر ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو کو سپریم کورٹ میں پیش کرنے سے سزا دلانے کا کام ادھورا رہا۔ پاکستان میں ناجائز اثاثے بنانے کے الزامات کا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے۔ کبھی سرے محل کا تذکرہ تھا، آج میاں نواز شریف کے لندن فلیٹس اور جائیدادیں زیر بحث ہیں، جس کی نشاندہی حامد میر نے 1997 میں روز نامہ پاکستان میں شائع ہونے والے کالم میں کی تھی۔ اس میں بے نظیر نے الزام لگایا تھا کہ میاں نواز شریف کی جائیدادیں لندن میں موجود ہیں۔ میاں صاحب کو اس بیان کے خلاف دعویٰ کرنے کا مشورہ دیا گیا مگر مسلم لیگ کی لیڈر شپ نے صرف ان الزامات کو غلط قرار دینے پر اکتفا کیا۔



احتساب کے قابل لوگ پی ٹی آئی میں شامل ہیں

اب اس حوالے سے کچا چٹھہ سامنے آ چکا ہے۔ میاں نواز شریف نے ہمیشہ اداروں سے فوائد حاصل کیے ہیں۔ اب کچھ معاملات ان کے خلاف جا رہے ہیں تو مزاحمتی بیانیہ سامنے آ گیا ہے۔ مشرف کو پاکستان سے بھاگنے کو سپریم کورٹ پر ڈال دیا گیا مگر میاں صاحب نے کبھی اپنی غلطیوں کا اعتراف نہیں کیا۔ اب میاں نواز شریف کی سزا، پریشانی اور بیانیے کی حمایت کرنے والوں کا امتحان شروع ہو چکا ہے کیونکہ غلط بیانیوں اور عوام کے ساتھ کیے ہوئے جھوٹے وعدے بے نقاب ہو چکے ہیں۔ عمران خان کی سیاسی اٹھان کے عہد میں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں میں سوال یہ موجود ہے کہ وہ اس رخ کو سیاسی ہیجان میں تبدیل کر دیں جس سے کم از کم سیاسی انتشار تو پیدا ہوگا۔ حالات ہمیشہ یکساں نہیں رہتے۔ ان میں اتار چڑاؤ آتے رہتے ہیں۔ احتساب کے قابل لوگ پی ٹی آئی میں شامل ہیں۔ ان سب کا احتساب ہونا چاہیے۔ اگر ریاست اپنا درست رویہ اختیار نہیں کرتی تو نواز شریف کا بیانیہ مزید مقبول ہوگا۔ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کتنی نشستیں حاصل کرے گی، اس کی صورتحال 25 جولائی کے بعد واضح ہو جائے گی جس کا دار و مدار مسلم لیگ کے کارکنوں اور لیڈر شپ کی حرکیات کے ساتھ جڑا ہوا ہے، جس میں مزاحمت اور مفاہمت کے بیانیے یکجا ہوتے ہوئے نہیں محسوس ہو رہے۔