ذرائع کے مطابق حکومت نے اپوزیشن کی تحریک کی ناکامی کے لئے تاخیری حکمت عملی بنا لی ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے اجلاس کو غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کئے جانے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے قومی اسمبلی کا اجلاس 25 مارچ کو طلب کیا ہے۔ وہ اس روز رکن قومی اسمبلی حاجی خیال زمان مرحوم کے ایصال ثواب کیلئے فاتحہ خوانی کروائیں گے۔ اس کے بعد اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دیں گے۔ تاخیری حکمت عملی کے تحت ہی سپیکر نے قومی اسمبلی کے اجلاس کا ایجنڈا جاری نہیں کیا۔
پارلیمانی روایت کے مطابق اپوزیشن کی ریکوزیشن پر طلب اجلاس کا ایجنڈا جاری کیا جاتا ہے۔ اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی ہونے پر اپوزیشن معاملہ عدالت لے جا سکتی ہے۔ اپوزیشن نے عدالت سے رجوع نہ کیا تو اجلاس کی نئی ریکوزیشن جمع کرائے گی۔ اس حکمت عملی کے ذریعے حکومت کو مزید 14 روز مل جائیں گے۔ اس سے حکومت کو ناراض ارکان کو راضی کرنے میں بھی مزید وقت مل سکے گا۔
اس معاملے پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ چودہ دن میں اجلاس طلب کرنے کی آئینی ذمہ داری سے سپیکر نے انحراف کیا۔ آئین میں وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کے لئے اجلاس کا ٹائم فریم موجود ہے۔ آئین کا تقاضا تھا سات دن میں عدم اعتماد کا عمل مکمل ہوتا لیکن سارے عمل کے ٹائم فریم کی خلاف ورزی کی گئی۔
قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ سپیکر نے یہ کام نہیں کیا، اپوزیشن نے اسمبلی ریکوزیشن دے دی۔ او آئی سی کو ڈسٹرب کرنے کی ہمارے خلاف لغو باتیں کی گئیں۔ 21 مارچ کو ایک رکن کی فوتگی کی وجہ سے اجلاس ملتوی ہو جانا تھا، جو روایت ہے۔ حکومت نے خود اس تاریخ کو اجلاس کی تجویز دی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ کارروائی 15 منٹ کی ہونی تھی۔ رکن کی فوتگی پر تعزیت کے بعد قرارداد آنا تھی اور اجلاس ملتوی ہو جانا تھا۔ سپیکر نے دو آرٹیکلز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آئین کے خلاف کام کئے۔
پیپلز پارٹی رہنما نے کہا کہ او آئی سی کا بہت احترام ہے لیکن آیا پاکستان کی کوئی حثیت نہیں ہے؟ آئین پاکستان سب سے اہم ہے۔ سپیکر کی بد دیانتی ہے کہ اجلاس آج نہیں بلایا گیا۔ سارا ملک استعفیٰ مانگ رہا ہے۔ کتنے لوگ آپ کو آکر کہیں کہ خان صاحب جان چھڈ دیو۔