وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کی سماعت میں پولیس کی جانب سے شدید بدنظمی ہوئی اور شہباز شریف اور ججز کو بھی عدالت کے باہر روکنا پڑا۔
لاہور کی خصوصی سینٹرل عدالت میں منی لانڈرنگ کیس کی سماعت ہوئی۔ شہباز شریف اور حمزہ شہباز پیش ہوئے۔
اس موقع پر پولیس نے سخت سیکیورٹی انتظامات کیے اور بھاری نفری تعینات کی، جبکہ عدالت میں صحافیوں اور عام سائلین کا داخلہ بھی بند کردیا گیا۔ پولیس کی بدانتظامی کی وجہ سے ناخوشگوار صورتحال پیش آئی اور ججز و وکلا کو بھی اندر آنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
اسپیشل سینٹرل عدالت کے جج اعجاز اعوان نے شہباز شریف سے کہا کہ جو حالات اس عدالت کے باہر ہوگئے ہیں ایسا تو کبھی نہیں دیکھا، میں گاڑی میں بیٹھا تھا اور میری گاڑی روک لی، آپ کی سکیورٹی والا میرے گن مین کے گلے پڑا تھا اور اس کا گریبان پکڑا ہوا ہے، آپ کی سکیورٹی نے عدالت کو ہی بند کردیا۔
صحافیوں کا داخلہ بند کرنے پر لیگی رہنما عطا تارڑ نے بھی عدالت کے باہر ہی دھرنا دے کر کہا کہ وزیراعظم بھی اسی وقت اندر جائیں گے جب صحافی جائیں گے۔ دھرنے کی وجہ سے وزیراعظم بھی عدالت کے باہر ہی کھڑے رہے اور سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے انہیں آگے جانے سے روکا گیا۔
بعدازاں ان کے حکم پر سیکیورٹی نے صحافیوں کو اندر جانے کی اجازت دیدی۔ شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز نے بھی شکوہ کیا کہ میری گاڑی کو بھی باہر ہی روکا گیا اور تمام ریکارڈ باہر پڑا ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ ہماری طرف سے ایسی کوٸی ہدایت نہیں دی گئی تھی، مجھے بھی اندر نہیں آنے دیا جارہا تھا، میں خود باہر کھڑا تھا، اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔
جج اعجاز حسن کی ناراضی پر وزیراعظم نے کہا کہ میں آیا ہوں، میں نے کہا کسی کو نہ روکا جائے۔
اس موقع پر عدالت نے ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کو طلب کیا لیکن عدالتی اہلکار کے بلائے جانے پر دونوں افسران عدالت میں نہ آئے جس پر جج نے کہا کہ پولیس والوں کے یہ حالات ہیں کہ عدالت کا حکم نہیں مان رہے۔
جج اسپیشل کورٹ نے کہا کہ اگر یہ سکیورٹی ہے تو اللہ ہی حافظ ہے، ایسا تو پہلے کبھی نہیں ہوا جب کہ اس موقع پر ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر نے بھی عدالت میں بتایا کہ انہیں بھی راستے میں روکا گیا۔
فاضل جج نے شہباز شریف سے مکالمہ کیا کہ سکیورٹی والے اندر نہیں آنے دے رہے، میں کیس کی کارروائی کیسے کروں، آپ یہاں بھی وزیراعظم ہیں، یہاں حکم جاری کریں۔
اس موقع پر ایس پی سول لائنز عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ یقین دہانی کراتا ہوں کہ آئندہ ایسا نہیں ہو گا، اس پر جج نے کہا کہ آئندہ نہیں، آج کی بات کریں، آج جس نے یہ سب خراب کیا اس کے خلاف کارروائی کرکےبتائیں، میں اس میں باقاعدہ حکم جاری کروں گا، کیا سکیورٹی کا یہ مطلب ہے کہ آپ کام میں رکاوٹ ڈالیں؟
ایس پی نے بتایا کہ یہ رابطے کا فقدان ہوا ہے، عدالت کا مکمل احترام ہوگا، فاضل جج نے ایس پی سے سوال کیا کہ یہ عدالت کا احترام ہو رہا ہے؟ تحریری طور پر دیں کس نےجج کی گاڑی روکی۔
بعد ازاں ایس پی سیکیورٹی نے عدالت میں پیش ہوکر بدنظمی پر معذرت کی۔