کارگل کے شہیدوں کی گمنام لاشیں آج بھی آواز دیتی ہیں

کارگل کے شہیدوں کی گمنام لاشیں آج بھی آواز دیتی ہیں
گزشتہ کئی مہینوں سے پاک فوج نے کوئی نیا نغمہ ریلیز نہیں کیا، میں حیران بھی ہوں اور خوش بھی۔ حیرانگی اس بات کی ہے کہ نغمے سنا کر ہی تو قوم کو اپنی بہادری اور شجاعت کی کارستانیاں بتائی جاتی ہیں تو آخر کیوں اب کوئی نیا محاذ نہیں کھل رہا یا نغمہ نہیں آ رہا؟ میں خوش اس لئے بھی ہوں کہ مجھے لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز کی کتاب 'یہ خاموشی کہاں تک' کے کچھ جملے یاد آ گئے کہ کس طرح 1965 اور پھر کارگل میں ہم نغمے سنا سنا کر عوام سے جھوٹ بولتے رہے کہ ہم نے دشمن کو چاروں شانے چت کر دیا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس تھی۔

کارگل پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسی جنگ رہی ہے جس کو جب جس نے چاہا اپنے مفاد کیلئے ویسے مروڑ کر پیش کر دیا اور لوگوں نے اسے قبول بھی کر لیا۔ افواج پاکستان کا کہنا تھا کہ ہم تو جیت چکے تھے لیکن سیاسی حکومت نے واپسی کا آرڈر دے دیا جس سے شکست ہوئی۔ سول حکومت کہتی ہے کہ ہمیں تو جنگ میں جانے تک کا معلوم نہیں تھا، بلکہ کہا جاتا رہا کہ مجاہدین لڑ رہے ہیں ہمارا کوئی ہاتھ نہیں اور جب عالمی پریشر آیا کہ آپ کی افواج ہی اس میں ملوث ہیں تو واپسی کا کہا گیا اور تب تک جوانوں کی شہادتیں بڑی سطح پر ہو چکی تھیں۔ ملک کا آخری براہ راست مارشل لاء بھی اس کا پیش خیمہ بتایا جاتا ہے۔ اور ایک وجہ جو کہ بالکل جھوٹ اور فریب پر مبنی ہے وہ مارشل لاء کی یہ بتائی جاتی ہے کہ جنرل مشرف مارشل لاء نہیں لگانا چاہتے تھے بلکہ ان کی غیر موجودگی میں جب جنرل ضیاء الدین بٹ کو چیف بنایا گیا اور ان کا طیارہ سری لنکا سے واپسی پر زمین پر اترنے سے روکا گیا تو انہوں نے یہ اقدام اٹھایا حالانکہ اس حوالے سے سابق جرنیل ہی اپنی کتابوں میں حقیقت لکھ چکے ہیں۔

اگر بات کارگل کی کریں تو اس حوالے سے جنرل شاہد عزیز نے اپنی کتاب میں ایسے ایسے انکشافات کر دیے ہیں جن کے بعد پاکستانی افواج کی جانب سے کم از کم قومی سطح پر معافی مانگنے جواز پیدا ہو جاتا ہے جبکہ شاہد عزیز خود بھی یہ لکھتے ہیں کہ انہیں اپنے اقدامات پر افسوس ہے چاہے وہ کارگل کے ہوں یا مارشل لاء لگوانے میں مشرف کا ساتھ دینے اور اسے نجات دہندہ سمجھنے والے ہوں۔

کارگل کی جنگ سمیت ہر جنگ پر پاکستان میں ایک جملہ زبان زد عام بھی ہے اور مطالعہ پاکستان جو درحقیقت مغالطہ پاکستان کا کردار ادا کرتی ہے میں بھی ہے کہ دشمن کی جانب سے پہل کی گئی اور ہم نے منہ توڑ جواب دیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر بار پہل ہم نے کی اور جواب بھارت کی جانب سے آیا۔ یہ بات بھی میں نہیں، جنرل شاہد عزیز ہی اپنی کتاب میں لکھ رہے ہیں۔ وضاحت بار بار اور ساتھ ساتھ اس لئے ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ ملک پاکستان میں آزادی صرف ریمنڈ ڈیوس جیسے لوگوں کو ہے جو سر عام قتل بھی کر دیں تو آزاد کر دیے جاتے ہیں جبکہ مجھ جیسا اور آپ جیسا وہ شخص جو قومی شناختی کارڈ ہولڈر ہے وہ کوئی بھی بات آزادی سے نہیں کر پاتا کیونکہ ایف آئی اے سمیت دیگر اداروں کی کارروائیاں ہمارے خلاف عمل میں آ جاتی ہیں۔

قصہ مختصر یہ کہ کارگل جنگ میں بھارت کی جانب سے کسی قسم کی کارروائی کی پہل نہیں کی گئی تھی۔ جنرل شاہد عزیز لکھتے ہیں کہ میں آئی ایس آئی میں ہندوستان کی تمام کارروائیوں پر نظر رکھنے پر مامور تھا۔ ان کی طرف سے کوئی ایسی حرکت نہیں تھی جس سے یہ اندازہ لگایا جائے کہ وہ کسی جارحانہ کارروائی کا ارادہ رکھتے تھے۔ ہندوستان کی طرف سے نہ ہی کسی حملے کی تیاری تھی اور نہ ہی کسی طرح سے کوئی ارادہ نظر آتا تھا۔ اس پوری لڑائی میں مجاہدین کا کوئی حصہ نہیں تھا۔

دوسری جانب یہ تاثر کہ ہم نے مکمل طور پر جائزہ لے کر کارروائی شروع کی تھی اور دشمن کے مورچوں پر قبضہ کر لیا تھا یہ بھی حقیقت کے منافی ہے بلکہ اس جنگ کی سرے سے کوئی منصوبہ بندی ہی نہیں کی گئی تھی۔ اسی کتاب میں لکھا گیا ہے کہ کارگل آپریشن کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی۔ اس کا علم صرف 4 جرنیلوں کو تھا۔ آپریشن کی بریفنگ جی ایچ کیو کو بھی نہیں دی گئی تھی۔ پاک فضائیہ کو آخر تک جنگ سے بے خبر رکھا گیا تھا۔ جب لڑائی شروع ہو گئی تو ہندوستان کے ہوائی جہاز سے لے کر توپ خانے کی ایک بڑی تعداد وہاں جمع ہو گئی۔ ہم نے فضائیہ کو لڑائی سے باہر رکھا کیونکہ ہم ہندوستان کا جواب دیکھ کر گھبرا گئے تھے۔

بلا مقصد اپنے جوانوں کو آگ میں جھونک دیا، پھر کہا واپس آ جاؤ غلطی ہو گئی۔ کسی نے اپنا بیٹا نہ سمجھا، اپنے ہی ہاتھوں سے انہیں قتل کر دیا پھر ہنس کر کہا میں نے بڑا تیر چلایا ہے۔ لاشیں بھی واپس نہیں لیں۔ ان کی گنتی بھی نہ بتائی۔ اس سے پوچھو جس کے بیٹے کی لاش بھی اور بہت سی لاشوں کی طرح ہم نے دشمن سے واپس لینے سے انکار کر دیا تھا۔

حالات اس حد تک خراب ہو چکے تھے اور ہاتھ سے نکل چکے تھے کہ اب اس بات پر میٹنگز شروع کر دی گئیں کہ آخر اس جنگ سے باہر کیسے نکلا جائے۔ جنرل شاہد عزیز کہتے ہیں کہ میں نے مشورہ دیا کہ کشمیر کے دیگر علاقوں میں چھوٹے محاذ کھول دیں اور کہہ دیں کہ بھارت نے جوابی حملہ کر دیا ہے۔

میں نے کہا کہ اس سے یہ ہوگا کہ کارگل سیکٹر سے ہم پر کم از کم کچھ عرصے کے لیے بوجھ کام ہو جائے گا۔ کچھ آبرو بچا کر جنگ سے باہر نکالا جا سکتا ہے۔ جب کارگل سے نکلیں گے تو دوسرے چھوٹے محاذوں سے بھی ساتھ ہی نکل آئیں گے۔

جنرل شاہد عزیر لکھتے ہیں کہ 1965 کی جنگ میں بھی تو ہم نے یہی کیا تھا۔ کسی نے یقین نہیں کیا ہم البتہ اب تک قوم سے جھوٹ بولے جا رہے ہیں کہ جنگ دشمن نے شروع کی جبکہ بھارت کا حملہ کشمیر میں ہماری آپریشن جبرالٹر کی جوابی کارروائی کے طور پر کیا گیا تھا۔

فیلڈ مارشل ایوب خان نے تین دریاؤں کا پانی ہندوستان کو بخش دیا محض اپنے دوست امریکہ کو خوش کرنے کی خاطر اور اپنے بینک اکاؤنٹ کے چند سکوں کے عوض۔ بھارت پانی بند کر کے ہماری زمینوں کو بنجر کر رہا ہے۔ ہندوستان اب سیلاب میں ڈبونے کی صلاحیت حاصل کر چکا ہے، ہمارے دفاعی نظام کو درہم برہم کر سکتا ہے مگر ہم پھر بھی سوائے چر چر کرنے کے کچھ نہیں کر پاتے۔

کارگل سے متعلق یہ روایت بھی انتہائی منسوخ شدہ ہے کہ بھارت گھبرا گیا تھا اور جنگ بندی چاہتا تھا۔ اس حوالے سے جنرل شاہد عزیر نے لکھا ہے کہ دنیا میں ہماری تصویر سہمے ہوئے جانور کی سی تھی، افسوس کہ اصلیت بھی یہی تھی۔

کیا ہی بد قسمتی ہے کہ اس سہمے ہوئے جانور  نے بعد میں اپنی شکست کا بدلہ پورے ملک سے لیا اور آئین کو پامال کیا۔ ملک میں مارشل لاء کا نفاذ کیا۔ مارشل لاء سے متعلق یہ بات بھی حقیقت سے دور ہے کہ حکومت کا تختہ اچانک حالات کو دیکھتے ہوئے پلٹا گیا تھا جبکہ جنرل شاہد عزیز وہ شخص ہیں جن کے احکامات پر ملک میں مارشل لاء لگا تھا کیونکہ جنرل مشرف مارشل لاء لگانے کا پورا پلان سری لنکا جانے سے قبل ہی بنا چکے تھے۔

سری لنکا جانے سے پہلے آخری ملاقات تھی، فیصلہ یہ تھا کہ اگر ان کی غیر موجودگی میں نواز شریف صاحب فوج کے سربراہ کو کرسی سے ہٹانے کی کارروائی کریں تو فوری طور پر حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے۔ کئی دنوں سے ان کے گھر پر اس سلسلے کی کئی ملاقاتیں ہو چکی تھیں۔ ان ملاقاتوں میں میرے (شاہد عزیز کے) علاوہ لیفٹیننٹ جنرل محمود کمانڈر 10 کور، لیفٹیننٹ جنرل عزیز خان (بعد میں جنرل بنے)، میجر جنرل احسان الحق ڈی جی ایم آئی (بعد میں جنرل بنے)، برگیڈیئر راشد قریشی ڈی جی آئی ایس پی آر اور آرمی چیف کے پرنسپل سٹاف افسر موجود تھے۔

ان میں سے ہر ایک انفرادی طور پر اس بات کا مجاز ہوگا کہ حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے احکامات جاری کرے۔

میں آپ تینوں کو اس بات کا ذمہ دار ٹھہراتا ہوں جنرل محمود، جنرل عزیز اور شاید آپ۔ جنرل مشرف نے میٹنگ ختم کرتے ہوئے ہمیں اس سلسلے میں تیار کیا اور ذمہ دار ٹھہرایا۔ یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اگر کسی وجہ سے آپس میں آپ لوگوں کا رابطہ نہ ہو سکے یا کوئی اور دشواری پیش آ جائے تو پھر بھی کارروائی میں رکاوٹ نہ پڑے۔ یہ کہہ کر وہ کھڑے ہوئے ۔شاید یہ بات اس لیے بھی کہی ہو کہ کوئی ایک شخص آخری وقت پر پیچھے ہٹنا چاہے تو بھی کارروائی نہ رکے۔

دوسری جانب جب جنرل ضیاء الدین بٹ کو چیف بنایا گیا تھا تو اس حوالے سے شاہد عزیز لکھتے ہیں کہ 'جنرل ضیاء الدین بٹ کو نیا آرمی چیف بنا دیا گیا ہے، ایم او سے ایک کرنل صاحب کا فون تھا۔ اکتوبر کی 12 تاریخ 1999 کی شام تقریباً 5 بجے تھے۔ میں ابھی دفتر سے گھر پہنچا ہی تھا گیسٹ روم سے نکل کر اپنے نئے گھر میں آئے ہوئے ہمیں دو یا تین دن ہوئے تھے سامان بھی پورا نہیں کھلا تھا سوٹ پھلانگتا ہوا واپس دفتر کی طرف بھاگا'۔

'جاتے ہوئے انجم سے کہا گیٹ بند کر لو اور ہاں میرا لیپ ٹاپ بھائی کے گھر بھجوا دیں اس میں حکومت کا تختہ الٹنے کی ساری تفصیلات پر کام کیا تھا نہ جانے آج کیا ہوگا'۔

ان تمام تر تفصیلات کا مقصد صرف یہ ہے کہ کم از کم اب تو ہم اپنے عوام سے سچ بولنا شروع کر دیں۔ اب تو ہم عوام کو مطالعہ پاکستان کے بجائے تاریخ پاکستان پڑھا دیں کیونکہ ملک و قوم کی ترقی کی بنیاد صرف سچائی میں ہے۔ لہٰذا سچ کو اپنائیں، لوگ آپ کو اپنائیں گے۔

عظیم بٹ لگ بھگ 8 برسوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ بطور سماجی کارکن ملکی و غیر ملکی میڈیا فورمز اور ٹیلی وژن چینلز پر پاکستان کا مؤقف پیش کرتے ہیں۔ سردست وہ سماء ٹی وی کے ساتھ بطور ریسرچر اور پروڈیوسر وابستہ ہیں۔ ان کا ٹویٹر ہینڈل یہ ہے؛ Azeembutt_@