سہیل وڑائچ نے اپنے حالیہ کالم میں جہاں مریم نواز کو کچھ مشورے دیے ہیں، وہیں انہوں نے لاہور جلسے میں عوام کی تعداد کے حوالے سے ایک حقیقی تجزیہ بھی دیا ہے۔ مگر اصل بات وہ ہے جو انہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کے حوالے سے کی ہے۔ سہیل وڑائچ یہاں ایک ایسی خبر دے گئے ہیں جو عقل والوں کے لئے نشانی کی حیثیت رکھتی ہے۔ وڑائچ صاحب نے لیکن اس کالم کے لئے پیرایہ بڑا دلچسپ استعمال کیا ہے۔ بجائے سیدھی بات کرنے کے، انہوں نے مریم نواز کے نام ان کی مرحوم والدہ کلثوم نواز کا عالمِ بالا سے ایک فرضی خط کالم کی صورت میں لکھا ہے اور اس میں یہ سارا تجزیہ یوں بیان کیا ہے گویا کلثوم نواز شفیق انداز میں اپنی بیٹی کو نصیحتیں کر رہی ہوں۔
جہاں پاکستان تحریک انصاف کے حامیوں کا ماننا ہے کہ سہیل وڑائچ اپنے کالموں کے ذریعے ن لیگ کو مشورے دے کر خود کو ان کا حامی ثابت کر رہے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ یہ تجزیہ بڑا ہی پر مغز ہے اور سیاسی حالات کا کوئی بہترین ادراک رکھنے والا ہی اسے لکھ سکتا تھا۔ خصوصاً جو خبر اس کالم میں انہوں نے دی ہے، وہ ایک پائے کا صحافی ہی اس لطیف پیرائے میں بیان کر سکتا تھا۔
سب سے پہلے تو انہوں نے لاہور جلسے کے حوالے سے لکھا کہ عالمِ بالا میں لاہور جلسے کے بارے میں کافی بحث مباحثہ ہوتا رہا۔ ساتویں آسمان پر موجود نونی اُسے کامیاب اور انصافی اُسے ناکام قرار دیتے رہے۔ سچ تو یہ ہے کہ تم نے نون کے لاہوری کارکنوں کو متحرک کرنے کیلئے پورا زور لگا دیا، تمہاری ریلیاں بہت کامیاب رہیں، لاہوری جلسہ کے لئے مینارِ پاکستان کا انتخاب ایک سیاسی غلطی تھی، بہتر ہوتا کہ مال روڈ یا ناصر باغ کا انتخاب کیا جاتا۔
کارکنوں کے اعتبار سے یہ ایک کامیاب جلسہ تھا مگر اُس میں عام عوام، ٹوٹی جوتیوں اور پھٹے کپڑوں والے بہت کم آئے۔ وجہ یہ ہے کہ تم اپنی تقریروں میں مستقبل کے خواب نہیں دکھا رہیں، تم نون کے ماضی اور انصاف کے حال کی بات کرتی ہو لیکن مستقبل میں کیا کرو گی؟ یہ خواب نہیں دکھا پاتیں۔ خواب کے بغیر لوگ جلسوں میں نہیں آتے، وہ ماضی کی کہانیاں سن تو لیتے ہیں مگر جدوجہد کا جذبہ صرف مستقبل کے خواب دکھانے سے پیدا ہوتا ہے۔
پیاری گڑیا!
میں نے جو تھوڑا عرصہ سیاست کی ہے، مجھے احساس ہوا کہ ہمارا حامی ہمیں ووٹ دیکر مطمئن ہو جاتا ہے، وہ جلسے جلوس اور مزاحمت کیلئے باہر نکلنے پر تیار نہیں ہوتا، ہمارا ووٹر کھاتا، پیتا اور خوشحال بزنس مڈل کلاس سے تعلق رکھتا ہے اِس لئے وہ سیاسی مقاصد کے لئے کوئی جسمانی تکلیف اُٹھانے پر تیار نہیں ہوتا۔ لاہور کا جلسہ البتہ اِس لحاظ سے کامیاب تھا کہ کارکنوں کی بھرپور شرکت رہی۔
لانگ مارچ میں ہمیں اِنہی متحرک کارکنوں کی ضرورت ہوگی، لانگ مارچ میں عام عوام ویسے بھی شامل ہی نہیں ہوتے، کارکن ہی سر دھڑ کی بازی لگا سکتے ہیں، وہی کئی دن کا سفر اور پھر لمبے دھرنے کی تکلیف برداشت کر سکتے ہیں۔
سہیل وڑائچ یہاں بات تو بطور کلثوم نواز کر رہے ہیں لیکن ان کا یہ کہنا کہ یہ جلسہ کارکنان کے حوالے سے بھرپور تھا اور عوام کی اس میں شرکت نظر نہیں آئی بالکل درست ہے۔ مریم نواز یا نواز شریف کی تقاریر میں مستقبل کا کوئی پروگرام تاحال دیکھنے میں نہیں آیا۔ وہ عوام کو یہ باور کروانے میں تو کامیاب ہیں کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ سے جھگڑے کے باعث نکالا گیا، یہ بھی کہ انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے انہیں اقتدار سے باہر رکھا گیا۔ لیکن یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ اقتدار میں آ کر وہ ایسا کیا کریں گے جو پہلے کسی نے نہیں کیا۔ مسلم لیگ نواز اپنے دور کی معاشی ترقی کو اب دوبارہ نہیں بیچ سکتی۔ 2013 انتخابات میں نواز شریف نے میٹرو، بلٹ ٹرین، موٹرویز، سڑکوں کے جال اور سب سے بڑھ کر بجلی بحران کے خاتمے کا خواب دکھایا تھا، اور وہ بلاشبہ ایک ایسا خواب تھا جس کے لئے عوام سڑکوں پر بھی آنے کو تیار تھے اور ووٹ دینے کے لئے بھی جوق در جوق سڑکوں پر نکلے۔ 2018 انتخابات میں مریم نواز، نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز ایسا کوئی ترقی یا نئے کل کا سپنا دینے میں ناکام رہے۔
آگے چل کر وہ واضح الفاظ میں کہتے ہیں کہ ن لیگ کے فارورڈ بلاک کی کہانیاں اپنی جگہ، کچھ ایم این اے وغیرہ حالیہ پالیسی سے اختلاف بھی رکھتے ہیں لیکن ن لیگ سے باہر ان کی کوئی حیثیت نہیں، لہٰذا مریم نواز کو ان کی طرف سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
ابا جی بتا رہے تھے کہ پارلیمانی مشاورتی گروپ کے پانچ یا چھ سرکردہ ایم این اے تمہاری قیادت اور مزاحمتی بیانیے کو نہیں مان رہے، اُن کو ایک سابق وزیراعظم نے ’’کرنل گروپ‘‘ کا نام دیا ہے، یہ کرنل گروپ بالآخر تمہارے پیچھے آ کھڑا ہوگا، یہ اِدھر اور اُدھر دونوں طرف بنا کر رکھنا چاہتے ہیں، یہ اُدھر جا ہی نہیں سکتے۔
یہ سارے شہری حلقوں سے رکنِ قومی اسمبلی بنے ہیں، نون سے تھوڑا سا ہٹے تو اُن کا سیاسی نام و نشان تک مٹ جائے گا، ہاں اگر اُن میں کوئی موروثی الیکٹ ایبل ہوتا تو شاید وہ باغی ہو جاتا کیونکہ اُسے حلقے کی حمایت تو بہرحال حاصل رہتی مگر نون کے شہری ارکان قومی اسمبلی تو سرا سر نون کے ووٹ کے مرہونِ منت ہیں، یہ کہیں نہیں جائیں گے، بس دونوں طرف یقین دہانیاں کراتے رہیں گے۔
اور اب آتے ہیں اس خبر کی طرف جو اس کالم کا حاصل ہے۔ سہیل وڑائچ لکھتے ہیں کہ:
چند دن پہلے قائداعظم محمد علی جناح کا میاں شریف، عمران خان کے والد اکرام اللہ نیازی اور ذوالفقار علی بھٹو کو پیغام آیا تھا کہ بھارت آج کل سرحدی علاقے پر شدید گولہ باری کر رہا ہے۔
سرحد پر شدید کشیدگی ہے، اِن حالات میں سیاسی کشیدگی کو کم کرکے اندرونی اتحاد قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ ابا جی نے تو فوراً ہی ہاں کر دی مگر شرط یہ رکھی کہ 2021میں عام انتخابات کروا دیے جائیں اِس سے لانگ مارچ اور اجتماعی استعفوں کی نوبت نہیں آئے گی۔
سنا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو خود قائداعظم سے ملنے گئے تھے، اُن کی آپس میں کیا بات چیت ہوئی؟ اُس کا علم نہیں ہو سکا تاہم اگلے ہی دن قائداعظم نے اکرام اللہ نیازی کو بلا کر کچھ ہدایات دیں، یہ بھی سنا ہے کہ جمہوریت پسند سابق جرنیلوں کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کو بھی پیغام بھیجا گیا ہے۔
توقع یہی ہے کہ لانگ مارچ کے دوران مذاکرات کا کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکل آئے گا۔
یہاں قائد اعظم دراصل پاکستان کے رکھوالے یعنی پاکستانی فوج ہیں اور غالباً یہاں اس کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی بات ہو رہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کوئی اور نہیں، غالباً خود بلاول بھٹو زرداری ہیں۔ میاں شریف شاید نواز شریف ہیں۔ اور اکرام اللہ نیازی خود وزیر اعظم عمران خان لگتے ہیں۔ گویا پیغام عمران خان کو دیا گیا ہے، نواز شریف نے الیکشن کا مطالبہ کیا ہے اور بلاول کی ملاقات ہوئی ہے۔ لیکن ایک اور خبر جو اہم ہے، وہ یہ ہے کہ کچھ سابق جرنیلوں کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کو بھی پیغام دیا گیا ہے اور لانگ مارچ کے دوران کوئی نہ کوئی راستہ نکل آئے گا۔
سہیل وڑائچ نے خبر تو دے دی ہے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ ان کا تجزیہ کس حد تک درست ثابت ہوتا ہے۔ آنے والے چند ہفتوں میں تصویر بالکل واضح ہو جائے گی۔