Get Alerts

پاکستان تحریک انصاف کا پھر سے یو ٹرن

پی ٹی آئی وفد کی چیف جسٹس آف پاکستان سے ملاقات ہوئی ، میں نے جب یہ خبر پڑھی  تو حیرانی کے ساتھ کچھ سوالات بھی دماغ میں اُٹھے کہ کیا یہ وہی قیادت ہے جو انہی چیف جسٹس یعنی یحییٰ خان آفریدی صاحب کی تعیناتی کیخلاف تھی؟؟ جس پارٹی نے چیف جسٹس کی تعیناتی رکوانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی آج وہی قیادت چیف جسٹس صاحب کے ”گھٹنے پکڑنے انکے گھر پہنچی “ہوئی تھی،اسی طرح عمران خان کے جنرل عاصم منیر کو خط کی بھی عجیب کہانی ہے انہی چیف آف آرمی سٹاف کیخلاف بھی تحریک چلائی گئی اور سوشل میڈیا پر طوفان بد تمیزی برپا کیا گیا پھر انہیں ہی اپنی مدد کیلئے خط لکھے گئے

پاکستان تحریک انصاف کا پھر سے یو ٹرن

پاکستان تحریک انصاف  جو پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی  ہونے کا کلیم کرتی ہے اور اپنے جارحانہ انداز کی وجہ سے پاکستانی نوجوانوں میں کافی مقبولیت رکھتی ہے۔ پی ٹی آئی وفد کی چیف جسٹس آف پاکستان سے ملاقات ہوئی ، میں نے جب یہ خبر پڑھی  تو حیرانی کے ساتھ کچھ سوالات بھی دماغ میں اُٹھے کہ کیا یہ وہی قیادت ہے جو انہی چیف جسٹس یعنی یحییٰ خان آفریدی صاحب کی تعیناتی کیخلاف تھی۔ جس پارٹی نے چیف جسٹس یحییٰ خان آفریدی تعیناتی رکوانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی آج وہی قیادت چیف جسٹس صاحب کے ”گھٹنے پکڑنے انکے گھر پہنچی “ہوئی تھی۔

اس سے قبل پی ٹی آئی کے بانی عمران خان صاحب جو کہ خود کو پاکستان کے  مقبول ترین لیڈر کہتے ہیں نے آرمی چیف کو ایک کے بعد ایک خط  لکھے  ،ان دنوں میں بھی یہ خبریں دیکھ کر کافی حیران ہوا کہ عمران خان انہی چیف آف آرمی سٹاف کو خط لکھ رہے ہیں جن کی تعیناتی کیخلاف انکی جماعت نے متفقہ طور پر تحریک چلائی اور سوشل میڈیا پر بے پناہ طوفان بد تمیزی برپا کیا ۔جی ہاں یہ وہی آرمی چیف ہیں حافظ سید عاصم منیر صاحب جن کو عمران خان نے خط لکھے اور عجیب و غریب باتیں اس خط میں تحریر کیں جو سوشل میڈیا کی زینت بنیں۔

اصولاً تو یہ بحث پی ٹی آئی کے 2014 کے دھرنے سے شروع ہونی چاہئے مگر ہم اس بحث کو پی ٹی آئی کے دور ِ اقتدار سے شروع کرتے ہیں ۔ جب عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد آنے والی تھی تو پی ٹی آئی نے پورے پاکستان میں جلسے کئے اور خود عمران خان صاحب نے ایک کاغذ ہوا میں لہرا کر کہا کہ یہ سائفر امریکہ سے آیا ہے اور اس میں لکھا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کو ختم کیا جائے ۔ شاید عمران خان امریکہ کارڈ استعمال کر رہے تھے مگر انکا یہ کارڈ چل نہ سکا اور انکی حکومت ختم ہوئی ،نئے نگران سیٹ اَپ نے اقتدار سنبھالا اور ملک چلانا شروع کر دیا۔ 

اس کے بعد عمران خان صاحب نے پھر ملک میں جلسے شروع کر دیئے اور ایسی انتشاری قسم کی تقاریر شروع کر دیں  جو ایک سینئر سیاستدان سے متوقع نہیں تھیں ۔انہوں نے ملک کے نوجوانوں کو پاکستان کے اداروں کیخلاف بھڑکایا اور ہر طرف ایک آواز سننے لگی کہ ”عمران خان ہماری ریڈ لائن ہے“ ۔ کیا عمران خان پاکستان کے پہلے سیاستدان تھے جنہیں گرفتار کیا جا رہا تھا ؟ شاید نہیں مگر انکی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کے ایسے کارنامے دیکھنے کو ملے کہ بیرون ملک خصوصاً ہمسایہ ملک نے ان سب معاملات پر انتہا کی بکواس بازی کی اور اس طرح عمران خان کی جماعت نے پاکستان کا نام پوری دنیا میں بد نام کیا ۔

جب سے بانی پی آئی جیل میں ہیں تب سے انکے یوٹرنز ختم نہیں ہو رہے ،پہلے ایک شخصیت کیخلاف صف آرا ہوتے ہیں پھر اسی شخصیت کی منت سماجت کرتے ہیں کہ ہمیں انصاف دلایا جائے ہمارے ساتھ بہت نا انصافی ہو رہی ہے ۔ کیا پی ٹی آئی کے ووٹرز، سپورٹر ان چیزوں کو دیکھ کر ان دیکھا  کر دیتے ہیں  یا ان پر عمران خان کی لپٹی چپڑی باتوں  کا اتنا اثر ہے کہ وہ ایسے” بلنڈرز“ کو ان دیکھا کر دیتے ہیں۔ بلا شبہ پی ٹی آئی پاکستانی سیاست میں پرانی جماعت ہے مگر 2014 سے اس جماعت کو مقبولیت ملی اور اب یہ جماعت یہ بات بار بار ثابت کر رہی ہے کہ پی ٹی آئی  پاکستان کی سیاست میں نومولود بچے کی حیثیت رکھتی ہے۔

پنجاب کی ایک مثال ہے ” سو چھیتر وی کھا لے، تے سو گنڈے وی کھا لے“ یہ مثال پاکستان تحریک انصاف پر بالکل فٹ بیٹھتی ہے ۔ دیکھا جائے تو عمران خان ایک سیاستدان ہیں انہیں ملک کی سیاسی قیادت سے مل کر اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش کرنا ہو گی اگر وہ خود کو مقدس گائے سمجھتے ہیں تو یہ انکی سب سے بڑی بھول ہے ۔ انہیں چاہئے کہ ایک خط وزیر اعظم پاکستان کو بھی لکھیں اور اس میں اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں ،سیاست بچوں کا کھیل نہیں اس میں حکمت عملی اور صبر کا بہت بڑا  عمل دخل  ہے مگر پی ٹی آئی میں نہ تو حکمت عملی نظر آتی ہے نہ ہی صبر عمران خان کا اس وقت ایک ہی نعرہ ہے ” مجھے جیل سے نکالو“ مگر وہ اپنی ماضی کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھے ،اگر سیکھے ہوتے تو کبھی بھی مذاکرات کا بائیکاٹ نہ کرتے اور نہ ہی ایسے وقت میں آرمی چیف کو خط لکھتے اور نہ ہی چیف جسٹس کی منت سماجت کے لئے وفد بھیجتے ۔ انکے ”قول اور فعل میں تضاد ہے“ جو کہ ہر ذی شعور شخص کو نظر آتا ہے عمران خان اگر پاکستان کا بھلا چاہتے ہیں تو ملکی سیاسی قیادت سے بیٹھ کا اپنی پارٹی کے مسائل پر بات کریں اور اپنی غلطیوں پر معافی مانگ کر اپنی پارٹی اور پاکستان کو آگے لے کر چلیں۔