بھید کے ابھیاد

بھید کے ابھیاد
ہو سکتا ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ یہ وقوعہ بلکہ واردات بھی بھید کے ابھیاد میں سے ایک ہو! یا کئی ہو! ولا تالا عالم، پائی جان!

ناول ایک رات میں سارا پڑھ ڈالا گیا، خدا چاہے جھوٹ بلوائے، بندہ نہ بولے تو کیا ہو سکتا ہے۔ سارا نہیں، تقریبا سارا پڑھا گیا۔ اب میرے پاس عمیر احمد ایند برادرز کا چُس چشیدہ  قلم تو ہے نہیں کہ لاہور کی سوہنی کو جی چنگی مندی سویر پہ ایسی تیسی پھیر سکوں۔ بات اتنی ہے کہ رات کے بعد کیا ہوتا ہے؟ جی، توصبح ہو گئی۔

ناول ہی میں جا بجا بکھان کردہ کھٹی مٹھی نمکین غذاوں، رنگین اداوں سنگین بلاوں پلنگین پلاوں کو اپنی یعنی ان کی جگہ پہ چھوڑ کے،  دو ڈھائی راونڈ پر مشتمل گوالمنڈوی ہاتھا پائی عرف  خالص لہوری ناشتہ کرنے کے ارادے سے جو بانساں والے بزار سے ،منہ طرف صفاں والا چوک، پچھے ایس سو سال نویں انارکلی دے کر کے نکلا تو ٹیمپل روڈ تک نکلتا ہی چلا گیا۔

لاہور ٹی وی کے عہد۔زریں میں ویک اینڈ پہ رُونما ہونے والے محمد نثار حسین کے ہدایت یافتہ مرغوب و ملغووں کی طرح ، یہ بھی طویل مختصردورانیے کا لب چسپ وکجیب ناشتہ  ثابت ہوا۔ عہد۔ می ٹُو کے برگروں کی زرگری زبان میں جسے برنچ کہتے ہیں۔ واشتے کے دوران دیگر ماکولات و نامعقولات کے ساتھ ساتھ  بندہ ناول ھذا کے مضمرات و مشمولات پر پیچ و تاب، مفت سلاد سمجھ کر، کھاتا گیا۔ بھوک کی پیاس اور چائے کی چہاس متٓا کر حجرہ ٗ غیر شاہ۔ غیر مقیم میں حاضر ہوا تو  ناول ھذا کوغائب پایا. انا انھا ھے و انا الیٰ عینکنا راجے اون

حسب رواج ، بعد از انتظار بسیار و تلاش بے سود،  یہ آدمی نما اشتہا نما دائرہ اس واسطے کھینچنا ناگزیر ہو گیا کہ  ناول ھذا پر کسی بھلے مانس کی نظر پڑے تو اسے برے کے یعنی قاری ھذا کے گھر تک پہنچا کر دَم لے، اور دُم دبا کر بھاگنے سے قبل چاے بنا بسکٹ و توس نوش جان فرماے ۔ عند اللہ بھی بیشک ماموریا ماجور یا کچھ اور ہو،  ان روحانی ناصر باغی معاملات  میں کسی گناہگار لکشمی زادے  کا دخل ہی کیا  بنتا ہے، استغفراللہ، سبحان اللہ ، غٹرغوں غٹر غوں

اسی فارمولے کے مطابق خود ناول ھذا سے بھی، جیسا کہ ونس اگین ، رسم دنیا وغیرہ ہے، استدعا کی جاتی ہے کہ اگر کہیں اتفاق سے اشتہار ھذا اس کی نظر سے  گزرے تو وہ پڑھتے ہی سالم رکشہ بیشک نہ کراے، سپیڈو بس پکڑ کر واپس آ جاے. صاف ظاہر ہے کہ اسے کچھ نہیں کہا جاے گا. البتہ اگر وہ چاہے تو اسے مندرجہ بالا چاے میں شریک کیا جا سکتا ہے.

نیز ناول مذکورہ کی طبع خاص اور قبول عام کو مد نظر رکھنے ہوے پیشکش ھذا میں یہ اضافہ لازمی ٹھیرا کہ وہ چاہے تو اپنا پتا ایس ایم ایس بھی کر سکتا ہے.  تمام ٹیکسٹنگ بمعہ سیکسٹنگ کے،  صیغہ راز بے تزک و احتشام میں رکھی جاے گی

مضمون آدھا ہونے کو آیا، دگنا جس کا کہ پُورا ہوتا ہے، ہو نہ ہو، یہ مقام جملہ معترضہ کا ہے۔ کتاب کی گمشدگی اس فقیر کے لیے، جو عمومن کتابیں خریدنے سے پہلے معقول حد تک امیر واقع ہوا کرتا ہے، کوئی نئی واردات بھی نہیں۔ آخر وہ سینکڑوں کتابیں کیا کتابیں نہ تھیں اس کے باوا کے سوراخواں میں آویزاں  اگر بتیاں تھیں جو ایک بدبخت چرسی ڈھابے نے ہتھیا لی تھیں حلانکہ فقیر بٹا امیر اس شئے کثیف سے شوق نہ رکھتا تھا۔

یادش بہ شر، اُس وقت تو موجودہ فقیر یعنی سابقہ امیر نے خاصا شور مچایا کہ لوٹے گئے، مارے گئے۔ بعد میں یہ جان کے کچھ اطمینان ہُوا کہ ڈھابے مردود کے ہاں موجود بیشتر بلکہ تمام کتب اسی طرح بد سلوکی کے مدارج میں مقیم اور بد شگونی کے عوارض مں مبتلا گذشتہ امیروں آئندہ فقیروں سے بزور۔شر ہتھیائی گئی تھیں۔ ڈھابہ منحوس اس ذخیرے کو اپنی خاندانی لائبریری قرار دیتا۔ جس طرح وہ فرنگی آقائوں کی اصطبلشمینٹ میں آبائی خصیہ پوشی و دیگر خصوصی خدمات سے مفعولہ محصولات کو خاندانی جائداد کا نام دیتا۔

چنانچہ جب استاد شاعر کا ایک ہی مصرع کسی مشاعرے کی پہلی تین صفیں الٹا دیتا ہے

تیری جاگیر سے بُو آتی ہے غداری کی

تب ڈھابے کے پے رول پہ لمبے بالوں، چھوٹی سریوں والے شدولے کے چوپون، ایلیائی جون کے چیلیائی کلون، اُتھل پتھل مچاتے ہیں،  داد دینے کے بہانے توجہ اپنی اچھل کود کی جانب کھینچت لے جاتے ہیں گویا، سموچی ادبی  فضا کو ناروا کرتے ہیں۔ اور کریں بھی تو کیا، مرچیں لگتی ہیں تو حق۔ مرچ ادا کرتے ہیں۔

حواتین و خضرات! اگر آپ نے یہ سوچ سمجھ کر یہ ریویو پڑھنا شروع کیا تھا کہ یہ آپ جناب کی خدمت خاطر میں کوئی کسر نہ بجا لائے گا، ناول ھذا کے بارے میں سیر حاصل معلومات کا سر چشمہ ثابت ہو گا،  کرداروں کی نفسیات و ما بعد نفسیات آپ کے قدموں میں لا کرڈھیر کردے گا، گنجھلک کہانی کے پیچیدہ پلاٹ کے جوڑ توڑ آپ اپنی موٹی انگلیوں کی بھدی پوروں پر گنوا سکیں گے، وغیرہ وغیرہ، تو یقین کریں نہ کریں، مجھے، مبینہ فقیری امیری سے ہٹ کے، آپ سے قطعی کوئی ہمدردی نہیں۔

 آپ جیسے مُفت خوروں کے ساتھ یہی ہونا چاہئیے جو کتاب کو خرید کر پڑھنا دور کی بات، دو چار کام چلائو ڈنگ ٹپاو قسم کے تبصرے پڑھ کر؛ اور وہ بھی پورے کہاں، بس چکھ وکھ، سُونگھ سانگھ کر، خود کو اس  بلکہ ہر موضوع پر لیکچر دینے کا اہل سمجھتے ہیں! محض بچارے ناول پرنہیں، یا ان ناولوں پر جو اس سال یا اس پوری دہائی میں سامنے آئے ہوں۔ نہ جی نہ۔ فیس بُکی ہوے کے ناطے اب اپ سموچی ادبی روایت پر یک طرفہ گفتگو کرنے کے مکمل طور مجازِ غیر مُرسل ہیں۔ چاہے چار دانگ۔ عالم میں بانگیں دیتے، ڈانگیں گھماتے پھریں۔ بشک، سنی سنائی  پر مبنی لگائی بجھائی کرواتے پھریں۔

لاہور۔ لاہور اور جُون۔ وسط لاہور اور وسط جُون ! یہی کچھ سوچتے، مزید بہت کچھ نہ سوچتے سو مرگیا ہوں گا۔ عالم حشف میں مولبی نیطشے، سکندر بٹ، نیوٹن کن ٹٹے، چودھری مارکس، بالے چھینی، زلفی نامراد، بی بی پھپھی کٹ اور دوسرے لا ریب و زوال، بے حد و مثال پھنکاروں کی زیارت نصیب نہ ہو سکی۔  جس کا کہ فریقین کو بہت کیا بالکل بھی افسوس نہیں۔ کیونکہ ، اپنے نیک ناموں،  بد کاموں سمیت، یہ احبابے،  احبابیاں وچارے اس ناول کے کردار سرے سے تھے ہی نہیں۔ جی وہی ناول! یعنی یہی ناول  جسے میں ناول ھذا کہنا بھول گیا ہوں۔

حق سچ بات یہ ہے کہ بندہ بشر ٹھیرا، سو آپ کی طرح، اے مجھ قاری کے تجھ قاری (ماماں!)، آپ کی طرح  تھوڑا بلکہ بہوں سارا تجسس مجھے بھی ہئی کہ آخر بنیا کیہہ۔ یہ کوئی ابوالکلام آزاد کا اندیا لوزز فریڈم یا کچھ ایسا ویسا کتا بچہ تھوڑی تھا کہ پہاڑ کو کھود کر چوہا کالنے کے لیے نصف صدی انتظاری کاٹی جاتی۔

پھر سوچتا ہوں، کیا ہو گیا ہو گا۔ بہت سے بہت ہیروئن ہیرو سے نہیں تو ولن سے بیاہی گئی ہو گی، یا اس کے قریبی دوست یعنی دشمن سے۔ حد سے حد،  ہیرو اورولن اکٹھے بھاگ گئے ہوں گے۔ چائے نیبو پانی  کچھ پیے بہت دیرہو چلی، ٹھیک سے یاد نہیں کہ ہیرو سالا کیا بیچتا تھا، نیز کونسا بد شکلا کب سے کب تک ولن کے فرائض انجام دیتا رہاا۔  مجھے تو اپنی ، کیا نام، (برف گرتی ہے، ساز بجتے ہیں) ہیروئن بھی یاد نہ رہتی اگر۔۔ ۔خیر! تو پھر مجھ  بھلکڑ کو یاد ہی کیا رہا؟ کیا، کیسے، کیوں۔ اس آسان سوال کا جواب مشکل ہواتا، جیکر جوکر تہاڈا بھلا کرے، شاعر نے پہلے سے بُوٹی نہ بنا دی ہوتی۔ تو صاحبو، نوکرو، چھوکریو، چھوکرو، اس بھید، اس پزل اس دُبدھا کا قریب ترین ٹھیک جواب ہے: لاہور! ناول آپ سب کا ہُوا!

گاڑی رُکی تو کتنے سٹیشن گزر گئے
لاہور میں قیام سفر جیسا بن گیا