میرے تصور کا خدا الگورتھم لگاتا ہے، فلو چارٹس بناتا ہے

میرے تصور کا خدا الگورتھم لگاتا ہے، فلو چارٹس بناتا ہے
اس میں کوئی برائی نہیں ہے اگر آپ یہ چھوٹی سی ہدایت مان لیں کہ اس وقت ہمیں اپنے گھروں میں رہنا چاہیے اور ایک دوسرے سے میل جول کم کر دینا چاہیے۔ اگر گھر سے کام کرنے کا آپشن موجود ہے تو اسے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ میرے لئے یہ مسئلہ ہے کہ میری بیٹی بہت چھوٹی ہے۔ اس کو یہ تو پتہ ہے کہ بابا روز آفس جاتے ہیں لیکن یہ نہیں پتہ کہ گھر سے بھی آفس کا کام کیا جا سکتا ہے۔ وہ میرے ساتھ کھیلنا چاہتی ہے۔ میں کمرے کا دروازہ بند رکھتا ہوں لیکن دو کمروں اور ایک لاؤنج کے گھر میں کہاں جائے؟ ذرا سا دروازہ کھلتا ہے تو کھولنے والے کی ٹانگوں کے بیچ میں سے نکل کر بھاگ کر آتی ہے اور لپٹ جاتی ہے۔ پھر لیپ ٹاپ پر بٹن دبانے لگتی ہے۔ میں چند منٹ کے لئے سکرین لاک کر کے اس سے کھیل لیتا ہوں۔ پھر اس کی ماں یا دادی کو آواز دے کر کہتا ہوں کہ اسے لے جائیں، وہ گود میں چیختی چلّاتی ہوئی چلی تو جاتی ہے لیکن کمرے کے باہر کھڑے ہو کر دروازہ بجاتی رہتی ہے۔

اسی بچپن پر تو پیار آتا ہے۔ ابھی بابا بڑا اچھا ہے، چند سال بعد ہر بات میں بولنے والا، ہر کام میں ٹانگ اڑانے والا، آزادی نہ دینے والا کھڑوس بڈھا بن جائے گا۔ پھر کون بھاگ کر آئے گا اور لپٹے گا؟ بس ٹھیک ہے، گھر آ گئے ہیں، کھانا کھائیں، دوائی لیں اور سو جائیں، میرے سونے کی فکر نہ کریں۔

مجھے اس کی وہ لاپروائی دیکھنے کا بھی بہت اشتیاق ہے۔ میں اس معصوم محبت کو بھی مس کرنا چاہتا ہوں۔ بلکہ میں تو ہر وہ لمحہ مس کرتا ہوں جو گزر گیا۔ جب میں پچھلے سال گھر سے کام کرتا تھا، وہ بہت چھوٹی تھی، چل نہیں سکتی تھی، کئی کئی گھنٹے ٹکر ٹکر ساتھ لیٹی مجھے اور میرے لیپ ٹاپ کی سکرین کو گھورتی رہتی تھی۔ اب ٹکتی ہی نہیں۔ بس بابا کے لیپ ٹاپ کا بٹن دبانا ہے اور وہ بھی صرف اس وقت تک جب تک بابا روک رہے ہیں۔ جیسے ہی بابا کا دھیان کسی اور طرف ہوا، اس کا دل بھی لیپ ٹاپ سے بھر گیا۔ پھر کوئی اور شرارت۔

میں نہیں چاہتا کہ میں مر جاؤں۔ میرے لئے میری زندگی اب پہلے سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔ میں اسے بڑا ہوتا دیکھنا چاہتا ہوں۔ اب کوئی میرا مذاق اڑائے کہ اس نے تو کرونا کو سر پر ہی سوار کر لیا ہے۔ کوئی ناراض ہو جائے کہ ہم نے گھر بلایا تھا، چھٹی بھی تھی، نہیں آئے، کوئی میرے ایمان کی کمزوری پر مجھے کمتر سمجھے، مجھے فرق نہیں پڑتا۔

کیا کہا؟ جتنی لکھ دی گئی ہے، اتنی ہی ملے گی؟ آپ نے لوح و قلم دیکھے ہیں؟ میں نے تو نہیں دیکھے۔ کیا پتہ اللہ نے اتنا سیدھا معاملہ نہ رکھا ہو۔ ہم بھی تو flow charts بنانے پر قادر ہیں، تو اللہ پر کیوں لازم ہے کہ وہ سیدھی سیدھی بات ہی لکھے گا؟ آپ کا ایمان ہے کہ جتنی لکھ دی اتنی ہی ملے گی۔ کیا پتہ وہاں اس سے زیادہ کوئی پیچیدہ الگورتھم ہو۔ کہ علی وارثی کورونا کے دنوں میں احتیاط کرے گا تو بچ جائے گا ورنہ مر جائے گا۔

اور یقین جانیے بات صرف بیٹی کی نہیں ہے۔ آپ نے Kill Bill Vol 2 دیکھی ہے؟ اس کے ایک سین میں لڑکی کو زندہ دفنا دیا جاتا ہے۔ وہ تو مارشل آرٹس سیکھی ہوئی تھی اور فلم بھی ٹارنٹینو کی تھی، اس لئے قبر توڑ کر باہر نکل آئی۔ لیکن میرا تو سین دیکھ کر ہی سانس بند ہو رہا تھا۔ کئی سال ہو گئے ہیں پر آج بھی سب سے بڑا خوف سانس بند ہونے سے مرنے کا ہی ہے۔ بچپن میں گرا تھا، ناک کی ہڈی ٹیڑھی ہو گئی۔ تبھی سے رات کو سوتے میں سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ کئی سال ایک ہی خواب دیکھ کر اٹھتا رہا ہوں کہ سمندر میں ڈوب رہا ہوں اور پاپا کہیں چلے گئے ہیں۔ مجھے سانس نہیں آ رہا۔ اور پھر گھبرا کر اٹھتا تھا۔ مجھے سانس کے بند ہونے سے واقع ہونے والی موت سے بہت ڈر لگتا ہے۔

کورونا کے مریضوں کی بھی چند ویڈیوز دیکھی ہیں۔ کورونا جب انتہائی گھمبیر صورت اختیار کرتا ہے تو سانس لینا دشوار ہو جاتا ہے۔ پھیپھڑوں میں بلغم بھر جاتا ہے۔ سانس لینے کے لئے زور زور سے منہ سے ہوا کھینچنی پڑتی ہے لیکن کھانسی اٹھنے لگتی ہے اور جی بھر کر سانس نہیں لیا جاتا۔ آدمی چلّانے لگتا ہے۔ شور کرتا ہے۔ پر سانس آتا ہی نہیں۔ قابلِ رحم منظر ہوتا ہے۔ مجھے ایسی موت نہیں مرنا۔

آپ ہو جائیے ناراض۔ اڑا لیجئے ٹھٹہ۔ ہاں، ہم ایمان کے کمزور ہی سہی۔ آپ کے خیال میں جتنی لکھ دی گئی ہے اتنی ہی ملے گی، لیکن میرے تصوّر کا خدا الگورتھمز لگاتا ہے، فلو چارٹس بناتا ہے۔ سادی بات کرنے والے تو انسان بھی مجھے کوڑھ لگتے ہیں۔ اللہ تو تہہ در تہہ، پرت در پرت بات کرنے والا ہے۔ اس نے کچھ آپشنز مجھے بھی دی ہوں گی۔ اور میرا آپشن یہی ہے کہ مجھے survive کرنے کے لئے جو کچھ کرنا پڑے، میں کروں گا۔ میں اپنی بیوی کے ساتھ بوڑھا ہو کر ’وفا کی اجرکیں پہنے ۔۔۔ سمے کی رہگزر کی آخری سر حد‘ پہ رک کر کچھ دیر باتیں کرنا چاہتا ہوں۔

قصہ مختصر، مجھے ابھی نہیں مرنا۔ اس لئے میں تو social distancing پر عمل کر رہا ہوں۔ بار بار ہاتھ بھی دھو رہا ہوں۔ کسی سے ہاتھ نہیں ملا رہا۔ میڈیکل سٹور میں آدم پر آدم چڑھا جا رہا تھا، میں نے ہاتھ باندھے رکھے، دروازہ بھی دھکے سے کھولا، ہاتھ نہیں لگایا۔ ہلکی کھانسی تھی، فوراً دوا پی، اب بہتر ہے۔ نزلہ نہیں ہے۔ فی الحال معاملات ٹھیک ہیں۔ آگے کا پتہ نہیں، پر میں موت کے منہ میں کودوں گا نہیں۔ آ بھی گئی، تو بھی اس کے ساتھ شطرنج کی ایک آخری بازی تو ضرور لگاؤں گا۔ آپ بھی تھوڑا گہرا سوچنا شروع کر دیں۔ یہ ڈگّوں والی گفتگو سے پرہیز کریں کہ اوہ جی، جب آنی ہے آ جائے گی۔ میری الگورتھم والی تھیوری پر ذرا غور کریں۔ مجھے تو منطق میں بڑی کشش نظر آتی ہے۔ آپ کو کیوں نہیں آتی؟

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.