فیصلہ کریں اس سے قبل کہ وقت اپنا فیصلہ سنا دے

فیصلہ کریں اس سے قبل کہ وقت اپنا فیصلہ سنا دے
پاکستان میں انسانی حقوق کی سب سے توانا آواز عاصمہ جہانگیر مرحومہ کی یاد میں منعقدہ اجلاس سے سپریم کورٹ بار کے سابق صدر علی احمد کرد نے خطاب کیا کیا گویا راولپنڈی اور اسلام اباد کے ایوانوں میں زلزلہ آ گیا۔ ہال میں موجود وکلا برادری کے افراد نے جس جوش وجذبہ سے نعرے لگائے اس نے ہمارے موجودہ چیف جسٹس کو بہت بے چین کر دیا اور وہ شدید اشتعال کا شکار ہوگئے۔

چیف جسٹس صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ اپنے منصب کا لحاظ کرتے ہوئے اپنے خطاب کو اسی موضوع تک محدود رکھتے جس مقصد کیلئے یہ اجلاس منعقد کیا گیا تھا لیکن انہوں نے علی احمد کرد صاحب کی تقریر کا جواب دینا مناسب سمجھا۔

چیف جسٹس صاحب کا کہنا تھا کہ کس کی مجال ہے کہ ہمیں ڈکٹیشن دے، ہم اپنے فیصلے خود کرتے ہیں۔ انہوں نے یہی بات ہائی کورٹس اور نچلی عدالتوں کے ججز کے بارے میں بھی اعتماد سے کہی۔ چلئے تھوڑی دیر کیلئے ہم آپ کی بات کو تسلیم کر لیتے ہیں لیکن اس ملک کے ایک شہری ہونے کے ناطے آپ سے چند سوالات کرنا چاہتا ہوں اگر جواب دے سکیں تو آپ کا ممنوں رہوں گا۔

کیا آپ کی نچلی عدالت کے ایک جج ارشد ملک نے تحریری طور پر اسلام آباد ہائی کورٹ کو نہیں بتایا کہ ان پر کس طرح کا دبائو ڈال کر ان سے غلط فیصلہ تحریر کرایا گیا؟ بقول آپ کے جج ارشد ملک کے بیان نے اپ کا سر شرم سے جھکا دیا۔ آپ کی عدالت نے جج ارشد ملک کو تو نوکری سے برخاست کر دیا لیکن جس پر انہوں نے دبائو ڈالنے کا الزام لگایا تھا، عدالت نے اس کو طلب کرنا مناسب نہیں سمجھا، آخر کیوں؟ یکطرفہ تماشا یہ کہ جج ارشد ملک کو تو نوکری سے برطرف کر دیا گیا لیکن دبائو میں دیا گیا ان کا فیصلہ تاحال برقرار ہے۔

کیا اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینیئر جج جسٹس شوکت صدیقی نے پنڈی بار سے خطاب کرتے ہوئے حلفاؑ نہیں کہا کہ خفیہ محکمے کا ایک اعلیٰ افسر ان کے گھر آیا اور کہا کہ انتخابات سے قبل نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت نہیں ہونی چاہیے ورنہ ہماری دو سال کی محنت ضائع ہو جائیگی؟ کیا آئین اور قانون کے تحت آپ اس بات کے پابند نہیں تھے کہ جسٹس شوکت صدیقی کے بیان کے بعد ازخود نوٹس کے تحت خفیہ محکمے کے اس افسر کو بھی عدالت طلب کرتے اور پھر سزا وجزا کا تعین کرتے لیکن اس کے بجائے آپ کی عدالت نے مناسب سمجھا کہ اس مقدمہ کو اتنی طوالت دی جائے کہ جسٹس شوکت صدیقی ریٹائر ہو جائیں۔ وہ مقدمہ آج بھی آپ کی عدالت میں موجود ہے لیکن شنوائی نہیں ہو پا رہی، آخر کیوں؟

پانامہ پیپرز میں نواز شریف کا تو نام ہی نہیں تھا پھر کس کے کہنے پر انہیں سزا دی گئی؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ 'طاقتور" لوگوں کہ کہنے پر واٹس ایپ پر جے آئی ٹی بنائی گئی اور بدنام زمانہ لوگوں کو اس میں شامل کیا گیا؟ کیا آپ ہی کی عدالت نے جے آئی ٹی میں شامل افراد کے مستقبل کی ضمانت نہیں دی؟

احتساب عدالت کے جج بشیر کی عدالت سے باہر نکلتے ہوئے ایک کرنل کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی، آپ کی عدالت نے جج بشیر یا اس کرنل سے پوچھنا کیوں مناسب نہیں سمجھا کہ وہ حضرت وہاں کیا لینے گئے تھے؟

حال ہی میں گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کا ایک بیان حلفی شائع ہوا جس میں انہوں نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار پر الزام لگایا، کیا آپ ان کو طلب کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟

آپ ہی کی عدالت کے بنائے گئے کمیشن کے تحت سابق آمر پرویز مشرف کو سزائے موت سنائی گئی لیکن فیصلے پر عمل تو کیا ہونا تھا لاہور ہائی کورٹ نے ایک فیصلے کے ذریعہ اس کمیشن کو ہی غیر قانونی قرار دے دیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا لاہور ہائی کورٹ کو سپریم کورٹ کے قائم کردہ کمیشن کو غیر قانونی قرار دینے کا اختیار تھا؟

علی احمد کرد آپ اور آپ کے برادر ججز کی طرح ایسی جگہ رہائش نہیں رکھتے جو ایک عام آدمی کیلئے ممنوعہ علاقہ تصور ہوتا ہو۔ کرد صاحب عوام کے درمیان ہی رہتے ہیں، انہی کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے اور کھاتے پیتے ہیں۔ اسی لئے وہ عوامی جذبات سے بخوبی آگاہ ہیں۔ حالات کس قدر تبدیل ہو چکے ہیں اور عوام کے اندر اشتعال کس درجہ پر پہنچ چکا ہے شاید آپ اس سے واقف نہیں۔ اس سے پیشتر کہ عوام معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیں فوری طور پر ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کریں اور آئندہ کیلئے انصاف اور صرف انصاف کریں، خواہ اس کی زد میں کوئی طاقتور ہی کیوں نہ آتا ہو لیکن اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر وقت اپنا فیصلہ سنا ہی دے گا۔ یاد رکھیں وقت کے سنائے ایک ایسے ہی ایک فیصلے کے نتیجہ میں یہ ملک دولخت ہو چکا ہے۔

غالب اس تلخ نوائی سے مجھے رکھیو معاف
آج کچھ درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے

 

مصنف ایک سیاسی ورکر ہیں۔