سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ میں نے بطور چیف جسٹس بغیر کسی دبائو اور خوف کے اپنے فرائض ادا کئے۔ آئین پاکستان میں چیک اینڈ بیلنس نظام موجود ہے تاکہ ریاست کا ہر ستون بہتر کام کر سکے۔
اپنے آخری عدالتی دن فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے بحیثیت چیف جسٹس ناصرف کیسوں کے فیصلے کئے بلکہ انتظامی امور کی ذمہ داری بھی نبھائی۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے بڑی تعداد میں زیر التوا کیسوں کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ میں نے جیسے ہی ذمہ داری سنبھالی کورونا وائرس کا معاملہ شروع ہو گیا۔ مجھے کام کے ساتھ ساتھ ججوں اور سٹاف کی صحت کا بھی خیال رکھنا تھا۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے ریکارڈ کے مطابق جنوری 2019ء میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کے وقت زیر التوا کیسوں کی تعداد 40،481 تھی جبکہ دسمبر 2019ء میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ ریٹائر ہوئے تو ان میں 5 ہزار کا اضافہ ہو چکا تھا۔
چیف جسٹس گلزار نے 20 دسمبر 2019ء کو حلف لیا تو اُس وقت سپریم کورٹ کے ریکارڈ کے مطابق زیر التوا کیس 45،275 تھے۔ 2020ء اور 2021ء میں کورونا وائرس کی وجہ سے اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لارجر بنچ کے باعث معمول کے مقدمات التوا کا شکار ہوتے گئے، جس کے بعد جنوری 2022ء تک عدالتی ریکارڈ کے مطابق زیر التوا مقدمات ترپن ہزار سے تجاوز کر کے 53،575 تک پہنچ گئے جو سپریم کورٹ کی تاریخ میں بلند ترین سطح ہے۔
سبکدوش ہونیوالے چیف جسٹس گلزار احمد کے آخری عدالتی دن اُن کے اعزاز میں فُل کورٹ ریفرنس سپریم کورٹ کمرہ عدالت نمبر ایک میں ہوا جس میں تمام ججوں کے علاوہ سپریم کورٹ اور وکلا کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔