کرونا وائرس کہاں سے نکلا ہے اور اس کا مقصد کیا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کے بارے میں بیسیوں دعوے کیئے جا چکے ہیں۔ تازہ ترین دعویٰ پاکستان کے سینئر صحافی اور جنگ اخبار کے کالمسٹ مظہر برلاس کی جانب سے کیا گیا ہے۔ جس کے مطابق چینی ماہرین کو سمجھ آگئی تھی کہ کرونا وائرس ایک حیاتیاتی بم یا بائیو ویپن ہے۔ اس لئے انہوں نے اس کا کوڈ تبدیل کیا اور اسے بیجنگ میں آنے کی بجائے امریکا میں نیویارک، لندن اور اسرائیل کے شہروں میں پہنچ دیا۔
انہوں نے اپنے تازہ ترین کالم میں لکھا ہے کہ چین کی اس مہارت سے حضور اکرم ﷺ کی ایک حدیث کی حقانیت مزید واضح ہوگئی ہے وہ لکھتے ہیں کہ ایک فرمان ہے کہ ’’علم حاصل کرو، خواہ تمہیں چین جانا پڑے‘‘ میں اکثر سوچتا تھا کہ اِس فرمان میں ایران، روم اور افریقہ کا تذکرہ کیوں نہ کیا گیااور آخر چین ہی کا کیوں فرمایاگیا۔ وقت گزرتا رہا اور بالآخر وقت انسانوں کو اس موڑ پر لے آیا کہ چینی ماہرین سب سے آگے نکل گئے، چین کی مہارت نے سب کو مات دے دی"۔
وہ لکھتے ہیں کہ "چین کے دشمنوں نے وائرس کا نشانہ چین کے سب سے بڑے صنعتی صوبے ووہان کو بنایا۔ چین کے بقول یہ وائرس امریکی فوجی یہاں لے کر آئے۔ چینیوں نے ووہان کو بند کیا، انہوں نے وبا سے متعلق جو سبق حدیث میں تھا، اسی پر عمل کیا، انہوں نے ووہان کو بالکل بند کر دیا۔ کورونا سے ہلاک ہونے والے ایک مریض کی لاش کا پوسٹ مارٹم کیا". کورونا پر ریسرچ کی تو چینی ماہرین اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ بایو ویپن ہے، اس ہتھیار سے دشمن چین کو زیر کرنا چاہتا ہے، چینی ماہرین نے ریورس ٹیکنالوجی کے ذریعے وائرس کو ڈی کوڈ کیا پھر اس پر نئے کوڈ لگا دیے۔ نئے کوڈ کے بعد چینیوں نے اس وائرس کو بیجنگ تو پہنچنے نہ دیا البتہ اسے لندن اور نیو یارک سمیت دشمن کے کئی شہروں تک پہنچا دیا۔
وہ لکھتے ہیں کہ ایک اور بات آپ کو سننے کو ملی ہو گی کہ ووہان والے وائرس سے یہ کورونا وائرس تھوڑا سا مختلف ہے۔ اب دنیا میں جو وائرس پھیلا ہوا ہے، یہ نئی کوڈنگ کے ساتھ ہے۔ امریکا، برطانیہ اور اسرائیل کے پاس جو ویکسین تیار ہے وہ کورونا وائرس کی پرانی کوڈنگ کے مطابق ہے۔انہوں نے اب اس کو آزمایا تو وہ بےاثر نکلی پھر ان کے ماہرین نے کہا کہ کلوروکوین دی جائے، کلورو کوین کے حصول کی خاطر ٹرمپ نے انڈیا کو دھمکی بھی دی مگر افسوس جتنے مریضوں کو کلورو کوین دی گئی وہ جان کی بازی ہار گئے۔ اب جب ان کے پاس علاج نہیں ہے تو انہوں نے اس کا علاج صرف لاک ڈائون ڈھونڈا ہے، مگر کب تک؟ امریکا کے مختلف شہروں میں لاک ڈائون کے خلاف مظاہرے شروع ہو چکے ہیں۔جب وائرس مغربی ملکوں میں آیا تو دو ہفتوں میں اسٹاک ایکسچینج بیس فیصد گری پھر ایک ہفتے میں مزید بیس فیصد گری اور پھر ایک دن میں دس فیصد گر گئی۔ اس صورتحال میں چینیوں نے یورپ اور امریکا کی بہت سی کمپنیاں سستے داموں خرید لیں پھر اسٹاک ایکسچینج کو ایک دن اٹھا کر نہ صرف اپنا نقصان پورا کر لیا بلکہ نفع بھی کما لیا۔
یاد رہے کہ ماہرین نے اس قسم کی کسی بھی سازشی تھیوری پر یقین کرنے سے منع کیا ہے اور کہا ہے کہ اس وائرس کے حوالے سے ابھی دنیا کے کسی بھی ملک کو زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ نہ ہی کسی لیبارٹری وغیرہ میں اس کے ملنے کے کوئی شواہد سامنے آئے ہیں اس لئے اس سے متعلق قیاس آرائیوں سے باز رہا جائے۔