خواتین اسمبلیوں میں آتی تو ہیں مگر اختیارات سے محروم رہتی ہیں

اکثر سیاسی پارٹیاں عورتوں کو صرف اپنی کرسیاں پُر کرنے کے لیے ممبر چنتی ہیں۔ کچھ خواتین رہنماؤں نے ہم سے بات کرتے ہوئے خود اس کی نشاندہی کی کہ خواتین کی مخصوص نشستوں پر اقربا پروری غالب ہے، وہاں موجود سیاسی رہنما اور دیگر مرد اراکین اسمبلی خواتین کی آواز بھی سننا پسند نہیں کرتے۔

خواتین اسمبلیوں میں آتی تو ہیں مگر اختیارات سے محروم رہتی ہیں

8 فروری 2024 کا دن پاکستان کے عوام کے لیے اہم دن ہو گا جہاں وہ ووٹ کا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے انتخابی عمل میں حصہ لے کر ایسے نمائندوں کا انتخاب کریں گے جو ملک کو آگے بڑھانے کے راستے کو تشکیل دیں گے۔ اس جمہوری عمل کے بعد ایک نئی اسمبلی تشکیل دی جائے گی، جس میں منتخب اراکین ہوں گے جو حکومتی بنچوں یا اپوزیشن کی کرسیوں پر اپنی نشستیں سنبھالیں گے۔ انہی نشستوں پر بیٹھے مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے رہنما ملکی اور سیاسی مسائل پر بحث کریں گے، ایک دوسرے کے خلاف نعرے لگائیں گے اور بعض اوقات بجٹ کی کاپیاں بھی پھاڑیں گے، کیونکہ یہی ملکی تاریخ کے گذشتہ 75 سالوں سے ہوتا آیا ہے۔

عوام کے ووٹوں سے منتخب رہنما مقدس ایوان میں براجمان تو ہو جاتے ہیں لیکن کیا وہ عوام کے مسائل بالخصوص خواتین سے متعلق مسائل حل کرنے میں واقعی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں؟ میری توجہ خواتین کے الیکشن کے عمل میں حصہ لینے، ایوان میں ان کی کارکردگی اور سب سے بڑھ کرانتخابات کے دوران ان کے ساتھ درپیش مسائل ہیں۔

ہر 4 سال بعد عام انتخابات میں خواتین کے مسائل پر بات ہوتی ہے لیکن اب 2023 میں گذشتہ برسوں کے مقابلے میں ان کے مسائل میں کتنی کمی آئی ہے اور اس جدید دور میں کیا پاکستانی خواتین اب بھی 10 سال پیچھے ہیں، یہ تحریر انہی سوالوں کے جواب کھوجنے کی ایک کوشش ہے۔

اعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟

تاریخ پر اگر نظر دوڑائی جائے تو پاکستان کی سیاست میں صرف کچھ خواتین ہی نمایاں نظر آتی ہیں۔ 2013 میں بدقسمتی کے ساتھ پاکستان میں پولنگ ڈے پر خواتین کی ایک بڑی تعداد حق رائے دہی کا استعمال کرنے میں ناکام رہی تھی۔ ڈان اخبار کی ایک خبر کے مطابق 2013 میں ثقافتی رکاوٹوں کی وجہ سے صرف کراچی کے ضلع مغربی کے 26 پولنگ سٹیشنوں پر خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ صفر رہا۔

ان ثقافتی رکاوٹوں میں مثال کے طور پر خواتین کو خاندان کے مردوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو سیاست میں ان کی شمولیت کی حمایت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

ملک سے سب سے بڑے شہر کراچی کی یہ صورت حال ہے تو دیگر پسماندہ علاقوں میں کیا صورت حال ہو گی؟ سندھ کمیشن سٹیٹس آف وومین کے مطابق اس وقت سندھ کے ضلع ٹھٹہ میں 50 ہزار خواتین ووٹ نہیں ڈال پائی تھیں کیونکہ ان کے خاندان کے مردوں نے انہیں ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی تھی۔

شاید یہی وجہ ہے کہ 2018 میں فیصلہ کیا گیا کہ جن حلقوں میں خواتین ووٹرز کی تعداد 10 فیصد سے کم ہو گی، الیکشن کمیشن آف پاکستان الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت ان حلقوں کے نتائج کو کالعدم قرار دینے کا مجاز ہوگا۔

سیاسی نظام میں خواتین کے کردار کو بڑھانے کے حوالے سے الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ اہم تھا لیکن زمینی حقائق میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اگرچہ 2018 کے عام انتخابات میں خواتین امیدواروں کی تعداد زیادہ تھی جہاں سب سے زیادہ تقریباً 183 خواتین امیدواروں نے الیکشن لڑا، لیکن ان میں کامیابی کا تناسب 2008 کے الیکشن سے زیادہ نہ رہا اور صرف 14 خواتین امیدوار ہی کامیاب ہو سکیں۔

اسی دور میں اگر سندھ اسمبلی کی بات کریں تو میں کل 24 خواتین مخصوص نشستیں حاصل کر سکیں جن میں پیپلز پارٹی کی 17، پی ٹی آئی کی 5، ایم کیو ایم کی 4، جی ڈی اے کی 2 اور ٹی ایل پی کی ایک خاتون شامل تھیں۔

تھوڑا مزید پیچھے چلے جائیں تو الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق عام انتخابات 2013 کے لیے پاکستان بھر سے کل 516 خواتین نے اپنی قسمت آزمائی جن میں 161 خواتین نے قومی اسمبلی اور 355 خواتین نے صوبائی اسمبلی کی نشست پر الیکشن میں حصہ لیا۔ ان میں سے 14 خواتین نے کامیابی حاصل کی جن میں قومی اسمبلی کے لیے 5 جبکہ صوبائی اسمبلیوں کے لیے 9 خواتین کامیاب ہوئی تھیں۔

سندھ اسمبلی کے لیے منتخب ہونے والی خواتین ارکان اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی پروین عزیز نے حلقہ پی ایس 76 دادو سے جبکہ ثانیہ خان نے حلقہ پی ایس 109 کراچی سے صوبائی اسمبلی کی نشست اپنے نام کی تھی۔ تاہم بلوچستان اور خیبر پختونخوا اسمبلی کی رکنیت کے لیے کوئی خاتون امیدوار کامیابی حاصل نہ کر سکی۔

عام انتخابات 2008 میں صرف 72 خواتین انتخابات میں براہ راست حصہ لے رہی تھیں جن میں 41 خواتین پارٹی ٹکٹ پر جبکہ 31 آزاد امیدوار کی حیثیت سے میدان میں تھیں۔ ان انتخابات کے نتائج کے مطاق قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے 16 خواتین جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے صرف 10 خواتین منتخب ہوئی تھیں۔

ان اعداد و شمار پر نظر دوڑائی جائے تو ان تینوں انتخابات میں خواتین کی سیاست میں شرکت میں کچھ زیادہ فرق نہیں آیا۔ اگرچہ سیاست میں خواتین کی نمائندگی تاریخی طور پر محدود رہی ہے، لیکن ایک قابل ذکر مثال بینظیر بھٹو ہیں، جنہوں نے ناصرف انتخابات میں کامیابیاں حاصل کیں بلکہ ایک اہم سیاسی جماعت کی قیادت بھی سنبھالی اور دو مرتبہ بطور وزیر اعظم بھی خدمات انجام دیں۔ ایسی مثالیں سیاسی میدانوں میں صنفی تنوع میں اضافے کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہیں۔

اس کے علاوہ اگر پاکستان میں الیکٹ ایبلز خواتین کی بات کی جائے تو صرف خاندان کا اثر و رسوخ رکھنے والی خواتین ہی کامیاب قرار پاتی ہیں۔

کچھ ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں جہاں خواتین سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا تو چاہتی ہیں لیکن مالی، سکیورٹی، تنظیمی، فیملی اور پارٹی کی عدم سپورٹ ان کے قدموں میں زنجریں باندھ دیتی ہے۔

گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2022 میں خواتین کو سیاسی طور پر بااختیار بنانے کی رینکنگ میں پاکستان 153 ممالک میں سے 93 ویں نمبر پر ہے۔ کل خواتین میں سے صرف 20 فیصد خواتین قانون سازی کا حصہ رہیں اور ان میں سے صرف 12 فیصد خواتین کو وزارتیں مل سکیں۔

'عورت تقریر کرے تو میک اپ اور لباس پر زیادہ تبصرے کیے جاتے ہیں'

انہی مسائل کے حوالے سے جب ہم نے سندھ کی مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ایسا نہیں ہے کہ خواتین سیاست میں آنا نہیں چاہتیں بلکہ بعض اوقات مالی مسائل اور تنظیم کی عدم سپورٹ آڑے آ جاتی ہے۔

اس سے متعلق ہم نے سندھ کی جانی مانی شخصیات کے علاوہ ایسی خواتین سے بھی بات کی جن کا تعلق اندرون سندھ سے تھا لیکن پارٹی کی جانب سے انہیں خاموشی سے مخصوص نشست دے کر گھر تک ہی محدود کر دیا جاتا تھا اور سیاسی فیصلے مرد حضرات ہی کرتے نظر آتے تھے۔

اس سے متعلق ہم نے سسی پلیجو سے بات کی۔ ان کا تعلق ٹھٹہ سے ہے، وہ پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے سندھ اسمبلی کی رکن رہ چکی ہیں۔ صوبائی وزیر سسی پلیجو ساحلی ضلع ٹھٹہ سے 2002 میں ایک جنرل نشست پر انتخابات جیت کر رکن سندھ اسمبلی بنیں۔ بائیں بازو کے رہنما رسول بخش پلیجو ان کے چچا اور غلام قادر پلیجو ان کے والد ہیں۔ سسی پلیجو نے حلقہ پی ایس 85 سے ناصرف 2002 کا الیکشن جیتا بلکہ 2008 کا الیکشن بھی بھاری اکثریت سے جیتا۔

ان کے مطابق 2002 میں جب انہوں نے الیکشن لڑا تو مخالف امیدواروں نے پورے ضلع کے ایک لاکھ سے زائد لوگوں کے خلاف جعلی ایف آر آئی کاٹ لی تھیں جن میں تقریباً 75 ہزار لوگ میرے حلقے سے تھے۔ جب میں الیکشن لڑ رہی تھی تو میرے تمام ایجنٹ اور ٹیم مینجمنٹ کو پولیس نے گرفتار کر لیا تھا۔ مخالفین نے میرے خلاف سازش کی، صرف اس لیے کہ میں ایک خاتون ہوں۔ اس وقت میں نے اپنی مدد آپ کے تحت تمام کام سرانجام دیے اور کامیابی سے الیکشن لڑا۔

انہوں نے کہا کہ کسی جلسے میں اگر مرد تقریر کرتا ہے تو اس کے کام سے متعلق تنقید کی جاتی ہے لیکن جب عورت تقریر کرتی ہے تو سب سے پہلے اس کے لباس اور میک اپ سے لے کر اس کے جوتوں پر تبصرے کیے جاتے ہیں۔

سسی پلیجو نے کہا کہ انہوں نے ٹھٹہ میں جب بھی الیکشن لڑا ان کے مخالف وڈیرے، جاگیردار اور بااثر لوگ کھڑے ہوتے تھے لیکن چونکہ انہیں خود فیملی اور پارٹی کی جانب سے سپورٹ حاصل تھی اس لیے انہوں نے ان مسائل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ پسماندہ علاقوں میں مردوں کی کوشش ہوتی ہے کہ جو خواتین الیکشن لڑ رہی ہیں انہیں ہر طرح سے متنازعہ بنایا جائے، ایسا ان کے ساتھ بھی ہوا، لیکن ایسی صورت حال میں وہ ذہنی اور جذباتی طور پر مضبوط رہیں۔

'خواتین کی مخصوص نشستوں پر اقربا پروری غالب ہے'

لیکن اب سوال یہ ہے کہ کسی طرح اگر خواتین الیکشن لڑ کر ایوان میں پہنچ جاتی ہیں تو کیا ان کے فیصلوں کو اہمیت دی جاتی ہے؟

افسوس کی بات ہے کہ اکثر سیاسی پارٹیاں عورتوں کو صرف اپنی کرسیاں پُر کرنے کے لیے ممبر چنتی ہیں۔ کچھ خواتین رہنماؤں نے ہم سے بات کرتے ہوئے خود اس کی نشاندہی کی کہ خواتین کی مخصوص نشستوں پر اقربا پروری غالب ہے، وہاں موجود سیاسی رہنماؤں اور دیگر مرد اراکین اسمبلی کو عورتوں کی آواز سننا بھی پسند ہی نہیں ہوتا۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ گذشتہ 5 پارلیمانی برسوں کے دوران صرف 2 بل منظور ہوئے جن کا خواتین سے براہ راست تعلق تھا۔

ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عورتوں کے مسائل دراصل پورے معاشرے کے مسائل ہوتے ہیں۔ ان سے متعلق آواز اٹھانا ہر رکن اسمبلی کا فرض ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔

اب یہ مسائل ایوان یا الیکشن مہم کی حد تک نہیں رہے، آج کے جدید دور میں سوشل میڈیا پر بھی خواتین کی کردار کشی کی جاتی ہے۔

اس حوالے سے پیپلز پارٹی رہنما ناز بلوچ کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر خواتین اگر سیاسی مخالفت کریں تو ان کی کردار کشی کر کے گالم گلوچ کے ذریعے انہیں خاموش کروا دیا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ صوبائی اسمبلی کے حلقے پی ایس 13 سے قوم پرست پارٹی سندھ یونائیٹڈ پارٹی (ایس یو پی) کی امیدوار عاصمہ ابڑو جو پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں، وہ 2018 میں سندھ سے انتخاب لڑنے والی کم عمر خواتین امیدواروں میں سے ایک تھیں۔

سندھ سے انتخاب لڑنے والی کم عمر خواتین امیدواروں میں شامل ہونے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ کسی چیلنج سے کم نہیں ہے، یہ مردانہ معاشرہ ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ جب انہوں نے انتخابات میں حصہ لیا تو سب سے اہم مسئلہ یہ تھا کہ سیاسی جماعتیں صرف انہی خواتین کو سامنے لاتی ہیں جن کا تعلق سیاسی خاندان سے ہو یا وہ خواتین جو مالی طور زیادہ مضبوط ہوتی ہیں، لیکن ہم جیسی نوجوان سیاسی کارکنوں کی ایسی سیاسی جماعتوں میں کوئی جگہ نہیں ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان میں خواتین سیاست دان اکثر پارلیمنٹ میں زیادہ وقت گزارتی ہیں، جبکہ مرد ریلیوں، جلسوں اور پریس ٹاک کے دوران سیاسی لڑائیوں میں مصروف رہتے ہیں۔

اسی لیے اچھی بات یہ ہے کہ پارلیمانی کارکردگی پر فافن کی 2022-2023 کی رپورٹ کے مطابق خواتین نے قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں میں مردوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ قومی اسمبلی میں 3 فیصد اور سینیٹ میں 30 فیصد ایجنڈا خواتین کی جانب سے پیش کیے گئے۔

خواتین ارکان پارلیمنٹ نے زیادہ اجلاسوں میں شرکت کی۔ قومی اسمبلی میں مردوں کی 53 فیصد حاضری کے مقابلے میں خواتین کی 66 فیصد حاضری دیکھنے میں آئی، جبکہ سینیٹ میں مردوں کی 56 فیصد کے مقابلے میں خواتین کی حاضری 68 فیصد رہی۔

اس سارے معاملے میں ایک بات واضح ہے کہ خواتین ارکان کی سیاست اور پارلیمنٹ میں زیادہ حاضری کی وجہ سے ہی دیگر خواتین میں سیاست میں آنے کا رجحان بڑھے گا۔ پاکستان میں خواتین کو نمائندگی تو حاصل ہے لیکن اگر انہیں اختیارات دیے جائیں اور اہم فیصلوں میں ان کی رائے کو ترجیح دی جائے تو خواتین سے متعلق مسائل اور حالات مختلف ہو سکتے ہیں۔

ہمیں یہ سمجھنا چاہئیے کہ صنفی تفریق اور عورتوں کو لاحق مسائل کے خاتمے اور حقوق نسواں کی پاسداری سے ہی معاشرے میں عورتیں اپنی بھرپور صلاحیتوں کے ساتھ ملک و معیشت کے ہر شعبے میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکتی ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ملکی آزادی کے 75 سال گزر جانے کے بعد بھی ہم ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔

امید ہے کہ آئندہ انتخاب کے نتیجے میں منتخب ہونے والی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کی نمائندگی کا تناسب گذشتہ تمام اسمبلیوں سے زیادہ ہو گا اور یہاں خواتین کے اہم مسائل پر بھرپور روشنی ڈالی جائے گی۔

اقرا عاشق ڈان نیوز سے وابستہ ہیں اورملٹی میڈیا پروڈیوسر ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور سماجی مسائل بالخصوص خواتین کے مسائل سے متعلق لکھتی ہیں۔