پچھلی تین دہائیوں میں ن لیگ کی معاشی کارکردگی بہترین رہی؛ بلومبرگ

بلومبرگ اکنامکس نے 1990 کے بعد سے بڑی سیاسی جماعتوں میں سے ہر ایک کے دور حکومت کے دوران بدحالی انڈیکس کے اعداد و شمار کو سامنے رکھتے ہوئے یہ رپورٹ تیار کی۔ انڈیکس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نواز شریف کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ ن نے تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے مقابلے میں بہتر معاشی نتائج دیے۔

پچھلی تین دہائیوں میں ن لیگ کی معاشی کارکردگی بہترین رہی؛ بلومبرگ

بلومبرگ اکنامکس کے ایک تجزیے کے مطابق، پچھلی تین دہائیوں کے دوران قائم ہونے والی حکومتوں میں نواز شریف کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت نے حریف سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں معیشت کو سنبھالنے میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

بلومبرگ اکنامکس نے پاکستان میں بدحالی کے انڈیکس کا مطالعہ کیا جو بے روزگاری اور مہنگائی کی شرح کو یکجا کر کے مرتب کیا جاتا ہے۔ اس بدحالی انڈیکس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نواز شریف کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ ن نے عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی پاکستان پیپلز پارٹی کے مقابلے میں بہتر معاشی نتائج دیے۔

بلومبرگ اکنامکس نے 1990 کے بعد سے ان بڑی سیاسی جماعتوں میں سے ہر ایک کے دور حکومت کے دوران بدحالی انڈیکس کے اعداد و شمار کو سامنے رکھتے ہوئے یہ رپورٹ تیار کی۔ بدحالی انڈیکس کی بلند شرح کا مطلب ہے کہ اس دوران معیشت کمزور رہی اور عوام کو زیادہ معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

بلومبرگ اکنامکس کے مطابق بدحالی انڈیکس کا موازنہ کرنے کے بعد جو نتائج برآمد ہوئے ان کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے ادوار حکومت میں بدحالی کی شرح 17.2 فیصد رہی جو نسبتاً بلند ترین شرح ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے واحد دور حکومت کے دوران یہ شرح 16.1 فیصد ریکارڈ کی گئی جو پیپلز پارٹی کے مقابلے میں نسبتاً کم ہے جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن کے ادوار حکومت کے دوران بدحالی انڈیکس کی شرح باقی دونوں پارٹیوں سے کم یعنی 14.5 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ ان اعداد و شمار سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے دور میں مہنگائی اور بے روزگاری کی شرح باقی سیاسی جماعتوں کے ادوار کے مقابلے میں سب سے کم ریکارڈ کی گئی۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

ایسے وقت میں جب عمران خان اڈیالہ جیل میں ہیں اور درجنوں مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں جبکہ ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو مؤثر طریقے سے انتخابات میں حصہ لینے سے روکا جا چکا ہے، نواز شریف 8 فروری کے انتخابات کے بعد ایک مرتبہ پھر اقتدار سنبھالنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔ حال ہی میں ہونے والے گیلپ سروے کے مطابق سابق کرکٹ سٹار عمران خان اس وقت بھی پاکستان میں مقبول ترین سیاست دان ہیں۔ سروے کے مطابق 57 فیصد عوام ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ان کے مقابلے میں نواز شریف کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جو پچھلے 6 ماہ کے دوران 36 فیصد سے بڑھ کر 52 فیصد پر پہنچ چکی ہے۔

بلومبرگ اکنامکس سے وابستہ تجزیہ کار انکور شکلا نے رپورٹ میں لکھا کہ 'ہو سکتا ہے عوام نواز شریف کو شک کا فائدہ دے رہے ہیں'۔ انہوں نے مزید لکھا کہ 'انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے آگے کا راستہ آسان نہیں ہوگا'، کیونکہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح کے آس پاس پہنچ چکی ہے اور بے روزگاری کی شرح میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

پاکستان میں اس وقت مہنگائی کی شرح 30 فیصد کے لگ بھگ ہے، پچھلے سال کے دوران پاکستانی روپیہ ایشیا کی بدترین کرنسی شمار ہوا اور زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی آ چکی ہے۔ پاکستان اس وقت عالمی مالیاتی فنڈ کی جانب سے ملنے والے بیل آؤٹ پیکج پر انحصار کر رہا ہے اس لیے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرتے ہوئے نئی حکومت کو ایسی پالیسیاں نافذ کرنی پڑیں گی جنہیں ووٹرز کی جانب سے پذیرائی نہیں ملے گی۔ مثال کے طور پر نئی حکومت کو سبسڈیز ختم کرنی پڑیں گی اور ٹیکس کی شرح میں اضافہ کرنا پڑے گا۔ آئی ایم ایف کو توقع ہے کہ پچھلے سال ہونے والے معاہدے کے بعد رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی معیشت کی شرح نمو 2 فیصد تک پہنچ جائے گی۔

گذشتہ تین دہائیوں کے دوران پاکستان مسلم لیگ ن نے نواز شریف کی قیادت میں تین مرتبہ حکومت کی جبکہ چوتھی مرتبہ مختصر مدت کے لیے شہباز شریف ملک کے وزیر اعظم رہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کی قیادت میں تین مرتبہ حکومت میں رہی جبکہ عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف 2018 کے انتخابات کے بعد پہلی مرتبہ حکومت میں آئی اور 3 سال 8 ماہ کے بعد اپریل 2022 میں عدم اعتماد کے ذریعے ان کی حکومت ختم کر دی گئی۔

اس سے قبل بلومبرگ نے اپنے تجزیے میں لکھا تھا کہ پاکستان کی 76 سالہ سیاسی تاریخ میں قومی اسمبلی اپنی مدت محض تین ہی مرتبہ پوری کر سکی ہے۔ عام انتخابات سے توقع لگائی جا رہی ہے کہ ان کے بعد پاکستان میں موجود سیاسی غیر یقینی کی فضا کا خاتمہ ہو جائے گا جس نے اس وقت سے پاکستان کو گھیر رکھا ہے جب سے عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو ختم کیا گیا تھا۔ حکومت سے بے دخلی کے بعد عمران خان فوجی جرنیلوں کے خلاف محاذ آرائی پر اتر آئے تھے۔ عمران خان فوج پر الزام لگاتے آئے ہیں کہ اس نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ذریعے سازش تیار کر کے ان کی حکومت ختم کروائی تھی تاہم پاک فوج مسلسل اس الزام کی تردید کرتی آئی ہے۔

**

یہ رپورٹ امریکی اخبار Bloomberg News میں شائع ہوئی جسے نیا دور قارئین کے لیے اردو ترجمہ کیا گیا ہے۔