عزیز سر، ہفتہ 19 مارچ 2022 کو آپ کی سربراہی میں آٹھویں پوزیشن پر موجود معزز جسٹس منیب اختر پر مشتمل دو رکنی بنچ نے ایک ایسی درخواست کی سماعت کی جو چاہے جمعرات کے روز ہی دائر ہوئی تھی۔ اُس روز آپ نے آرڈر لکھوایا کہ اِس درخواست کو آرٹیکل 186 کے تحت دائر صدارتی ریفرنس کے ساتھ سنا جائے گا۔ اگر ایسا کوئی ریفرنس بھیجا گیا تو اور پھر حکم دیا کہ ممکنہ ریفرنس کو درخواستوں کے ساتھ سماعت کے لیے مقرر کر دیا جائے۔ میں پریشان ہوگیا کہ ایک ایسے معاملے کو سماعت کے لیے مقرر کرنے کا حکم دیا گیا جو ابھی دائر ہی نہیں ہوا تھا۔
میں سمجھ سکتا ہوں کہ آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر درخواست پر تو حکم دینا بنتا ہے لیکن اِس کو آرٹیکل 186 کے تحت رائے دینے والے دائرہ کار کے ساتھ سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا جا سکتا تھا۔ آرٹیکل 186 سپریم کورٹ کو صرف رائے دینے کا کہتا ہے جبکہ آرٹیکل 184/3 اِس سے بالکل مختلف ہے۔ سپریم کورٹ پہلے میں صرف رائے دے سکتی جبکہ دوسرے میں وہ حکمنامہ سنانے کی پابند ہے اور اِس وجہ سے دونوں مختلف نوعیت کی درخواستوں کی سماعت ایک ساتھ نہیں ہوسکتی تھی۔
سپریم کورٹ بار کی درخواست اور صدارتی ریفرنس دونوں ایک پانچ رکنی بنچ کے سامنے مقرر کردی گئی جِس میں حُکم دینے والے دو رُکنی بینچ نے اپنے ساتھ تین مزید ججز شامل کر لیے جو بالترتیب چوتھی، آٹھویں اور تیرہویں پوزیشن پر موجود ہیں۔ سُپریم کورٹ کی ججز سنیارٹی لِسٹ میں اور ایسا کرتے ہوئے آپ نے اپنے پیشرو چیف جسٹس کی اہم آئینی سوالات کے پانچ سینئر ترین ججز کے سامنے رکھنے کی اچھی روایت کو ضائع میں کر دیا۔
سر میں بہت ہی ادب سے یہ نشاندہی کرنے پر مجبور ہوں کہ سینئر ججز کے سامنے اہم آئینی سوالات اور امور رکھنے کے اصول کو ختم کرنے کے بعد اب عدالتی بنچز کی تشکیل کا کوئی قابلِ فہم طریقہ کار نہیں رہا۔ یہ غیر ضروری طور پر بہت ہی پریشان کُن بدگمانیاں پیدا کرے گا جِن سے بچا جا سکتا تھا اور خصوصی طور پر ایسے کیسز میں جِس پر پوری قوم کی نظر لگی ہوئی ہے۔
سر میں آپ کو نصیحت نہیں کرنا چاہتا لیکن ہم اپنے حلف کے تحت پابند ہیں کہ ہمارا ذاتی مُفاد ہمارے دفتری طرزِ عمل، دفتری فیصلہ سازی، لوگوں کے ساتھ انصاف کرنا قانون کے مُطابق بغیر کسی خوف، احسان کرنے، پیار، بُری خواہش کا حاوی نظر آتا ہے اگر یہ تاثر گہرا ہو جائے۔ صدیوں سے یہ طے شُدہ ہے کہ انصاف ہونا نہیں ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے اور یہ بات اِس سُپریم کورٹ میں بھی متعدد بار دہرائی گئی ہے۔ یہ اصول ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ کی شق چار میں بھی درج ہے۔
آئین کے آرٹیکل 191 کے تحت سُپریم کورٹ کو اپنی رولز بنانے کا اختیار ہے اور اِس کے تحت رولز 1980 میں بنچز کی تشکیل کے اختیار کے بارے میں لکھا ہے کہ بنچز کی تشکیل میں انصاف اور شفافیت کی وجوہات دے کر بنچوں کا قیام عمل میں لایا جائے۔ سر میں نے بار بار اعتراض کیا ہے اور تحریری طور پر بھی توجہ دلائی ہے کہ وزیرِاعظم کے دفتر سے ایک بیوروکریٹ کو درآمد کرکے رجسٹرار سُپریم کورٹ بنا دیا گیا ہے۔ اکثریت کا یہ ماننا ہے کہ رجسٹرار سُپریم کورٹ نے یہ طریقہ اپنا رکھا ہے کہ کونسا کیس کِس وقت کِس کے سامنے سماعت کے لیے مُقرر کرنا ہے اور کون سے کیس کی فائل دُبا کر بھول جانی ہے۔ ایگزیکٹو سے ایک افسر کو اُدھار لے کر سُپریم کورٹ کا رجسٹرار نہیں بنایا جا سکتا۔ میری رائے میں ایک رجسٹرار سُپریم کورٹ کی تعیناتی آئین کی مُکمل خلاف ورزی ہے جو سُپریم کورٹ کو مُکمل خودمُختار اور ایگزیکٹو سے علیحدہ بناتا ہے۔
میں نے یہ خط لکھنے سے پہلے دو بار سوچا لیکن کیونکہ آئین بہت واضح طور پر کہتا ہے کہ آپ نے سب سے سینئر سُپریم کورٹ کے جج کے ساتھ مُشاورت کرنی ہے تو آپ آئین کے اِس حُکم کو باطل قرار نہیں دے سکتے۔ سب سے سینئر جج دراصل سُپریم کورٹ کو بطور ادارہ چلاتا ہے۔ آپ کے پیشرو تمام چیف جسٹس اِس آئینی پابندی پر عمل کرتے ہوئے سب سے سینئر جج سے مُشاورت کرتے رہے ہیں۔ آپ نے ایک طے شُدہ آئینی مشق سے بھی انحراف کیا ہے جو سُپریم کورٹ کے لیے بطورِ ادارہ منفی نتائج کو دعوت دینا ہے۔
میں خاموش رہ کر اچھا بن سکتا ہوں جبکہ بولنے کی صورت میں مُجھے نتائج کا سامنا ہوگا لیکن میں نے جج کا عہدہ آئین کے دفاع اور آئینِ پاکستان پر عملدرآمد کروانے کے لیے اللہ سے وعدہ کر رکھا ہے اور اِس لیے خاموشی میرے لیے مُمکن نہیں ہے۔ مُسلمانوں کو قرآن میں حُکم دیا گیا ہے کہ وہ بتائیں درست کیا ہے اور غلط کیا ہے۔
آپ کا مُخلص
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ