پشتونوں نے اسلام کا ٹھیکا نہیں لے رکھا

پشتونوں نے اسلام کا ٹھیکا نہیں لے رکھا

از حمزہ بلوچ


پشتونوں کا ریاستی بیانیہ
پاکستان میں بسنے والی تمام قومیتوں میں پشتونوں کیلئے ریاستی بیانیہ یہ ہے کہ پشتون روایتی طور پر اسلام پسند اور قدامت پسند قوم ہے اور انکے یہاں علمی و فکری ترقی یا تہذیب و تمدن کے آثار نہیں نظر آتے اور ہتھیار ان کا زیور ہے، جو زیور یہ کبھی کشمیر فتح کرنے کے لئے تو کبھی افغانستان میں روس کو شکست دینے کی خاطر استعمال کرتے آئے ہیں۔ جیسا کہ پاکستان کے سابق آمر جنرل ضیاالحق کہا کرتے تھے کہ افغان مجاہدین اپنی نہیں بلکہ پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں، ان کے حق میں دعا کیلئے ہاتھ بلند کیجئے، ان کی سلامتی سے پاکستان کی سلامتی جڑی ہے، بالکل ایسے ہی جنرل حمید گل فرمایا کرتے تھے کہ بیت اللہ محسود اور فقیر محمد ہمارے ہیرو اور سچے مجاہد ہیں۔



 

اسلامی روایت کے علمبردار صرف پشتون ہی کیوں؟
کراچی میں ہم نے آنکھ کھول کر دیکھا ہے کہ رکشے والے سے لے کر بس ڈرائیور تک پشتون ہیں، سبزی والا ہو یا پھل فروٹ والا، اکثر کا تعلق خیبر پختونخوا یا فاٹا سے ہوتا ہے، کپڑا مارکیٹ سے لے کر رینٹ اے کار والوں تک سارے پشتون ہیں اور نان بائی سے لے کر چائے کے ہوٹل تک سب کے سب پشتون چلاتے ہیں۔

ہم نے کراچی میں پشتونوں کو انتہائی محنت کش طبقے کے طور پر کام کرتے دیکھا۔ یہاں تک کہ کراچی میں اکثر گھروں میں ڈرائیور اور عمارتوں میں چوکیدار بھی پشتون ہی ملیں گے مگر ان سب باتوں کے باوجود ہمارے مشاہدے میں آتا ہے کہ پشتونوں کو لسانی بنیادوں پر مذہبی شدت پسند یا سیدھا سیدھا طالبان سمجھا جاتا ہے۔ اکثر ان کے کپڑوں اور داڑھی سے اس بات کو مزید تقویت دی جاتی ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں بسنے والی کون سی ایسی قوم ہے جو شلوار کرتا نہیں پہنتی یا ٹوپی نہیں پہنتی؟ داڑھی بھی سندھی، بلوچ، پنجابی، مہاجر سب ہی رکھتے ہیں تو پھر کیوں پشتونوں کو ہی اسلامی روایات کا علمبردار گردانا جاتا ہے؟

اس کی جڑیں ہمیں تاریخ میں تلاش کرنی پڑیں گی۔ کیا پشتون ہمیشہ سے ہی مذہب کے معاملے میں شدت پسند رہے ہیں یا ان کو استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ہے؟ اگر پشتون طالبانی ذہنیت کے حامل دہشتگرد ہیں تو پھر باچا خان کون تھے اور منظور پشتین کون ہے؟



 

پشتون ہمیشہ سے اسلام کے نام پر بلی کابکرا بنتے آئے ہیں
پشتون سماج کو شدت پسند اسلام کے ٹیکے ہمیشہ غیر مقامی عناصر نے لگانے کی کوشش کی ہے ورنہ پشتون روایات میں حیرت انگیز طور پر آزاد خیالی اور مقامی تہذیب و تمدن کا پرچار نظر آتا ہے۔ پشتونوں کو اسلام کا نام لے کر بلی کے بکرے بنانے کی کہانی افغان جہاد، بلکہ قیامِ پاکستان سے بھی پرانی ہے۔ سید احمد شہید ایک ہندوستانی عالم دین تھے جو ایک مذہبی ریاست بنانے کے حامی تھے اور یہ ہندوؤں کے شدید مخالف تھے۔ ان کا مقصد تھا کہ ایک ایسا دیس آباد کیا جائے جہاں شریعت پر سختی سے عمل کرایا جا سکے۔
سید احمد شہید نے ہندوستان بھر سے مجاہدین اور اسلام پسندوں کو جمع کیا اور ان کی اس تحریک کو مسلم اشرافیہ اور انگریز راج کی حمایت بھی حاصل رہی۔ اپنے لشکر کو لے کر انہوں نے خیبر کا انتخاب کیا اور وہاں چڑھائی کردی۔ خیبر کی مقامی پشتون آبادی ان کی آمد سے بے خبر تھی لیکن ایک شدید تصادم ہوا جس پر پشتونوں کو شکست ہوئی اور سید احمد شہید نے خلافتِ اسلامیہ کا اعلان کر دیا اور خود خلیفہ بن گئے۔
خیبر پر قبضے کے بعد سید احمد شہید نے اپنے غیر مقامی فوجی لشکر کو صوبے کے دور دراز علاقوں اور شہروں میں پھیلا دیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ جو لوگ نماز پابندی سے نہیں پڑھتے، خواتین پردے کا خیال نہیں کرتیں یا اسلامی احکامات پر درست طریقے سے عمل نہیں ہوتا وہاں سخت سے سخت سزائیں رائج ہوں تاکہ لوگوں کو عبرت ہو اور لوگ سچے مسلمان بن جائیں۔
غیر مقامی فوجیوں نے زور زبردستی سے پشتون خواتین سے نکاح کیے اور خیبر کے کونے کونے میں آبادکاری شروع کردی۔ ساتھ ہی 'سرکاری' سطح پر زکوٰۃ اور ٹیکس جمع کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔
زور زبردستی اور بدمعاشی سے خلافت قائم تو ہو گئی تھی لیکن اس کو عوامی حمایت کبھی حاصل نہیں رہی تھی اور جو سلوک غیر مقامی فوج کا مقامی پشتونوں کے ساتھ تھا اس نے اسلامی شریعت اور پشتون روایات میں ایک تصادم کا ماحول پیدا کر دیا تھا جس کو سید احمد شہید اور ان کے لشکری سمجھنے سے قاصر تھے۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پشتون قوم کے نوجوانوں اور بزرگوں کی جانب سے ایک خفیہ منصوبہ تیار کیا گیا اور راتوں رات پورے صوبے میں غیر مقامی فوجیوں کو قتل کر دیا گیا۔ اس طرح بغاوت کامیاب ہوئی اور سید احمد شہید خلافت چھوڑ کر اپنی جان بچا کر فرار ہوئے جنکو بالاکوٹ کے مقام پر سکھ فوج نے موت کے گھاٹ اتار دیا اور یوں نام نہاد خلافت کا قصہ تمام ہوا اور پشتونوں نے اپنے اوپر مسلط کیے گئے نظامِ جبر سے اپنا پیچھا چھڑایا۔
اس تاریخی واقعے سے سیکھنے کو بہت کچھ ملتا ہے لیکن سیکھے کون؟ بعد میں آنے والے مؤرخین نے پشتونوں کو بہت لعن طعن کا نشانہ بنایا کہ انہوں نے دغا دیا لیکن اگر کھلے دل سے سوچا جائے تو پشتونوں نے تو اپنے اوپر مسلط کیے گئے ایک نظام جبر سے آزادی حاصل کرنے کے لئے قومی آزادی و جدوجہد کی کامیاب مثال قائم کی۔ اصل غلطی تو سید احمد شہید کی تھی۔ اگر ان کو خلافت نافذ کرنی ہی تھی تو اپنے علاقے پر کرنے کی کوشش کرتے جہاں ان کے اپنے لوگ تھے، یعنی شمالی ہندوستان۔ مگر ان سے غلطی یہ ہوئی کہ ایک تو غیروں پر حملہ آور ہوئے اور پھر ان پر اپنا نظام مسلط کیا اور پشتونوں کے معاشرے، سماجی ڈھانچے اور ثقافتی سچائیوں کو سمجھے بغیر رد کیا تو اس میں ایک باشعور قوم ہونے کی حیثیت سے پشتون قوم پرستی نے جنم لیا اور اس کے مثبت نتائج بھی دیکھنے میں آئے۔

 

افسوس کہ ہم نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا
کاش ہمارے جرنیلوں اور پالیسی سازوں کو یہ بات سمجھ آ جائے کہ آپ نے جس مصنوعی جنگ کا ایندھن پشتون قوم کو بنائے رکھا اس کا کیا نتیجہ نکلا۔ اور ساتھ ہی منظور پشتین جیسے سورما ایسے حالات میں کیوں اور کیسے جنم لیتے ہیں یہ بھی واضح ہے۔



جیسے کہا جاتا ہے کہ ہر فرعون کو ایک موسٰی ہے، ویسے ہی مہا بھارت کا تعلق اس خطے کے قدیم مذہب اور ادب سے ہے۔ اس کے مطابق ہر دور میں ایک کرشنا جنم لیتا ہے۔ جب ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے تو اس کو مٹانے ایک نڈر مسیحا آتا ہے اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب جب ظلم حد سے گزرا ہے تب تب کہیں نہ کہیں کسی موسیٰ یا کرشنا نے جنم لیا ہے۔


اگر آج پشتون اپنے حقوق کی جدوجہد کرنے اور اپنے خون کا حساب مانگنے ملک بھر میں سراپا احتجاج ہیں تو اس ملک میں طاقت کے ایوانوں میں بیٹھے سیاست دانوں کو چاہیے کہ ان مسائل کو حل کی طرف لے کر جائیں ورنہ بقول مرحومہ عاصمہ جہانگیر کے، "آپ اگر عوام کے دکھوں کا مداوا نہیں کر سکتے تو مستعفی ہو کر گھر جائیں"۔ اگر طاقت آپ کے پاس نہیں تو جن کے پاس ہے ان سے چھین کر طاقت اپنے پاس لائیں کیونکہ عوام نے ووٹ آپ کو دیا ہے کسی خلائی مخلوق کو نہیں!

حمزہ بلوچ انسانی حقوق کے کارکن اور بین الاقوامی تعلقات کے طالب علم ہیں جو سیاست، تاریخ اور سماجی مسائل پر لکھتے ہیں۔