آٹا چینی بحران اور اسکی ایف آئی اے سے ہونے والی تحقیقات کی رپورٹ نے تحریک انصاف کی وفاقی اور پنجاب حکومت کے ایوانوں میں ہل چل مچا رکھی ہے۔ بظاہر تو یہی لگرہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان عوام کے ساتھ مبینی طور پرہوئی اربوں کی واردات کے پیچھے کارفرما کرداروں کو بے نقاب کرنے پر تلے ہوئے ہیں تاہم سنگین حقیقت یہ ہے کہ ان تمام کرداروں نے جو بھی پایا وزیر اعظم عمران خان کی اجازت سے پایا۔ اس لئے با خبر حلقے اس سب کا محرک عوامی درد کی بجائے اندرون خانہ سیاسی شطرنج میں گھمسان کا رن پڑ نے سے تعبیر کر رہے ہیں۔
ملک کے معروف صحافی سہیل وڑائچ جہانگیر ترین اور عمران خان کے درمیان ہونے والی اس اقتدار کی خواہش سے لبریز لڑائی کے بارے میں مسلسل لکھ رہے ہیں۔ اپنے گذشتہ کالموں نے انہوں نے بتایا تھا کہ جہانگیر ترین پہلے عمران خان کے ذاتی و سیاسی ہر معاملے میں اثر و رسوخ رکھتے تھے لیکن بشریٰ بی بی کی آمد کے بعد وہ با قاعدہ بے دخل کر دیئے گئے اس کے بعد انہوں نے لکھا کہ ایک طاقتور ترین ادارے کے سربراہ کی جانب سے دونوں کو بردباری کا مشورہ دیا تھا جس کے فیض کی ہی بدولت دونوں جانب خاموشی ہے۔
اب سہیل وڑائچ نے ایک اور انکشاف کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ عمران خان کے ارد گرد موجود شوگر ملر سیاستدان جن میں جہانگیر ترین، چوہدری مخدوم اور دریشک جلد یا بدیر خانِ اعظم سے راستے جدا کر لیں گے۔ اور وہ ایسا خاموشی سے کسی کو نقصان پہنچائے بغیر نہیں کریں گے۔
’’دی پرنس‘‘ کے مصنف میکاولی نے کہا تھا کہ حکمران کسی کے باپ کو قتل کرا دے تو اس کے بیٹے اسے معاف کر سکتے ہیں لیکن اگر حکمران کسی کی زمین چھین لے یا کاروبار کو نقصان پہنچا دے تو وہ اسے کبھی معاف نہیں کرتے۔ ہم نے پاکستان کی تاریخ میں اس سنہری قول کو کار فرما ہوتے دیکھا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے رائس ملوں اور چھوٹے بزنس مینوں کی ملکیت کو قومیانے کا جو فیصلہ کیا تھا اس کے سیاسی اثرات آج تک محسوس ہوتے ہیں۔ پنجاب کے بازار اور کاروبار سے پیپلز پارٹی کو اس کے بعد سے کبھی ووٹ نہیں مل سکا۔ سبزی منڈیاں، پھل منڈیاں، آڑھتیں اور ملیں تب سے اب تک اینٹی پیپلز پارٹی رہی ہیں۔ ماضی سے حال میں آئیں تو عمران خان کے دلیرانہ فیصلے پر جہاں ہر طرف داد کے ڈونگرے برسیں گے وہاں اس کے دوررس سیاسی اثرات بھی مرتب ہوں گے۔
شوگر اسکینڈل انکوائری رپورٹ آنے کے بعد تحریک انصاف کے اندر اور اس کے اتحادیوں کے درمیان پہلے بڑے شگاف کی بنیاد پڑ گئی ہے۔ جہانگیر ترین، چوہدری مخدوم اور دریشک جلد یا بدیر خانِ اعظم سے راستے جدا کر لیں گے۔
وقتی طور پر وہ اپنے ردِعمل کا اظہار نہیں کریں گے بظاہر دانت نکال کر، کھسیانی مسکراہٹ دکھا کر معاملے کو ٹالنے کی کوشش کریں گے لیکن اندرونِ خانہ وہ دانت پیستے ہوئے نئی حکمتِ عملی بنانا شروع کر چکے ہوں گے۔ میکاولی کے قول کی روشنی میں شوگر شاہی کا اب عمران خان سے گزارا مشکل ہے۔
دونوں کے درمیان سرد جنگ کبھی نہ کبھی کھلی جنگ بن جائے گی۔ جہانگیر ترین کے پاس اب جوابی وار کے سوا کون سا رستہ بچا ہے؟ مونس الٰہی اور چوہدری اس رپورٹ کے بعد کیسے اتحادی رہیں گے؟ مخدوم خسرو بختیار کیا اپنے بھائی عمر شہریار پر الزامات کو کبھی بھی ہضم کر پائیں گے؟ ہمایوں اختر، دریشک خاندان اور شوگر شاہی کے دوسرے بڑے بڑے نام اگر موجودہ حکومت سے سرعام رعایات لے سکتے ہیں تو کیا خفیہ طور پر اس کو نقصان نہیں پہنچا سکتے؟ ان کے رابطے، واسطے اور دھاگے مضبوط ہیں، وہ کمزور اور بحرانی دور کا فائدہ اٹھا کر اس وقت وار کریں گے۔
اس صورتحال کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ چینی سے کمائی ہوئی دولت کے فیض سے قائم عمران خان کی حکومت کے لئے سیاسی بند وبست بھی ریت کی طرح جلد ہاتھوں سے سرکنے والا ہے۔