میں نے کینسر سرجری کے بعد اپنے بازو میں فالج کی وجہ سے کالمز لکھنا بند کر دیا کیونکہ میں ایک ہاتھ کی وجہ سے مشکل سے پانچ چھ گھنٹے میں اگر کسی مسئلے پر ایک پیراگراف ٹائپ کر پاتی تو پاکستان میں تین چار اور بریکنگ نیوز آ جاتیں اور وہ مسئلہ کہیں بہت پیچھے رہ جاتا۔ لوگوں کی یادداشت بھی اتنی شارٹ ٹرم ہوگئی ہے کہ وہ بھی ہر پچھلی بات بُھول جاتے ہیں جیسے عمران خان کا فاشزم اور اُس کے مُجھ سمیت میڈیا پر کئے گئے رکیک حملے۔
نئے آرمی چیف کی تقرری کے مسئلے نے تو اتنا ہیجان پیدا کر دیا کہ ٹوئٹر اور سوشل میڈیا پر بھی ہر دس پندرہ منٹ میں خبر پُرانی ہو جاتی تو میرا جرنلزم کا کیریئر بھی ٹوئٹر یا کچھ ٹی وی یا یوٹیوب پروگرامز کے تجزیوں تک ہی محدود ہوکے رہ گیا اور میرا ٹوئٹر بھی اصل خبر ویریفائی کرنے کے چکر میں اتنی پاپولیرٹی بھی نہ لے سکا جو افواہوں کی صورت میں جُھوٹی خبریں پھیلانے اور پھر اُن اُفواہوں کے جُھوٹا ہونے کے بعد ایک نئے جُھوٹ کو بغیر کسی شرمندگی کے پھیلانے والوں کو ملی ہے۔
لیکن آج پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے جو آخری تقریر کی اُس پر لازم ہے کہ کچھ لکھا جائے۔ گو کہ جب تک یہ کالم چھپنے کے لیے جائے گا، مُلک میں نئے آرمی چیف کی تقرری فائنل ہو چکی ہوگی جو کہ بہت مُمکنہ حد تک وہی نام ہے جو زرداری صاحب مُلک میں سالوں سے چلتے ہوئے فتنے کو کچلنے کے لیے دے چُکے ہیں کہ کچھ گورننس کا استحکام ہو۔
جنرل باجوہ کا شُکریہ کہ اُنہوں نے ریکارڈ سیدھا کرتے ہوئے بتا دیا کہ ہاں فوج ماورائے آئین اور ماورائے قانون پچھلے 75 سالوں سے سیاسی سرگرمیوں میں ملوث رہی جو کہ غیر آئینی اور غیر قانونی تھا۔ قوم جنرل باجوہ کی اور بھی شُکر گزار ہوتی اگر وہ پروجیکٹ عمران اور باجوہ ڈاکٹرائن کے بھی catastrophic outcomes پر بات کرکے قوم سے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے۔ باجوہ صاحب کی تقریر دیکھ کے مُجھے بروکس کی 'Citizen-Soldier Paradox' تھیوری یاد آ گئی جس میں ایک فوجی ایک شہری ہونے کے ناطے اپنی پسندیدہ پارٹی کو ووٹ تو دے سکتا ہے لیکن اپنے حلف کی وجہ سے اسے سپورٹ نہیں کر سکتا اور یہیں سے وہ پیراڈاکس شروع ہوتا ہے جس کا اختتام ہم نے باجوہ صاحب کی بے بسی بلکہ اُس عبرت ناک سلوک پر دیکھا ہے جو اُن کی اپنی ہی لائی گئی پی ٹی آئی نے اُن کے ساتھ کیا کہ اُن کو اپنی باقی زندگی انتہائی سکیورٹی اور یُوتھیوں کی پہنچ سے دور گزارنی ہوگی، جس کا مُجھے ذاتی طور پر بے حد افسوس ہے کہ یہ اُس خواب کا انجام نہیں ہے جو اُنہوں نے دیکھا تھا۔
چلیں ہم مان لیتے ہیں کہ یہ سب فوج نے اپنے تئیں بہترین intentions، حُب الوطنی اور اپنے تئیں مُلک کے مفاد میں کیا، سیاست میں مداخلت بھی اس لیے کی کہ جہاد فی سبیل لِلّہ پاکستانی فوج کا ایمان اور تقویٰ کے بعد تیسرا موٹو ہے۔ اور پی پی پی جمع پی ایم ایل این کی مُبینہ کرپشن کے خلاف ایک تیسرے نا اہل لیکن اُن کی نظر میں ایمان دار بندے کو لانا بھی شاید جہاد تھا۔ مان لیتے ہیں کہ ڈان لیکس پر اُنہوں نے مُلک کے مفاد میں ایکشن لیا، مان لیتے ہیں کہ دو بڑی پارٹیوں کو سیاسی طور پر eliminate کرنے کے لیے 2018 میں آر ٹی ایس بٹھا کے عمران کو لانا اور پھر سیاسی طور پر آلودہ جرنیل کے ذریعے مثبت رپورٹنگ پر زور دینا بھی آپ کے سٹیزن سولجر پیراڈاکس کا ایک ڈائلیما تھا لیکن ہم یہ نہیں مان سکتے کہ سقوطِ ڈھاکہ ایک سیاسی غلطی تھی۔ نہیں باجوہ صاحب۔۔۔ آپ تاریخ کو مسخ نہیں کرسکتے۔ جب 1958 سے 1971 تک مُلک میں آپ نے فوجی حکمرانوں، ون یونٹ اور ڈکٹیٹرز کے صدارتی نظام تلے کسی سیاسی جماعت کو پنپنے ہی نہیں دیا۔ ہم نہیں بھول سکتے کہ حُسین شہید سہروردی کو کس طرح اپنے مُحب وطن ہونے کی دُہائیاں دینی پڑی تھیں اور قائد اعظم کی بہن فاطمہ جناح کو غدار گردانا جاتا تھا۔ ہم یہ بھی نہیں بُھول سکتے کہ عوامی لیگ کس طرح الیکشن جیت کے بھی حکومت نہیں لے سکی تھی۔
اگر بنگالی ہوسٹائل اور مُلک دُشمن تھے تو اُن سے کم مغربی پاکستان نے بھی نہیں کیا تھا جس کی سزا ہمارے اُن لاکھوں جوانوں کو بھرنی پڑی جو کہ سٹیفن کول مین کے ایتھیکل ڈائلیما کے تحت یہ جانتے ہی نہیں تھے کہ وہ ریاست سے وفاداری کر رہے ہیں یا اپنے پرنس سے۔ کیونکہ اگر انہیں پتہ ہوتا تو وہ کبھی بھی مشرقی پاکستان میں کُچھ ایسا نہ کرتے جو سولہویں صدی میں فرانسسکو وِٹوریا جسٹ وار تھیوری کی معراج بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جب تمہارا پرنس تمہیں غیر قانونی احکامات دے تو اپنے ضمیر کی بات مانو۔ آپ کا آج کا بیان ان 90 ہزار قیدیوں کو ہندوستان سے آزاد کروا کے لانے والے بھٹو کی اہانت ہے جس نے ایک فوجی غلطی کو اپنی مدبرانہ سیاست سے ٹھیک کیا اور نتیجے میں اپنے ہی لائے ہوئے جرنیل کے انتقام کا نشانہ بن کے انصاف کے ترازو تلے قتل کر دیا گیا۔ اس بھٹو کے قتل کی معافی ابھی باقی ہے باجوہ صاحب۔
اور یہی وہ بات ہے کہ میں فالج کے باوجود یہ کالم لکھ رہی ہوں کہ جب ہم آگے بڑھنے کی بات کرتے ہیں تو ہمیں ان تمام زخموں پر مرہم رکھ کے آگے بڑھنا ہوگا جو پچھلے 75 سالوں میں دانستہ یا نادانستہ طور پر ہم سب نے ایک دوسرے کو پہنچائے ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہی کہ صرف فوج ہی پاکستان کو اس نہج پر پہنچانے کی ذمہ دار ہے۔ میں ان سیاست دانوں کو بھی اتنا ہی ذمہ دار سمجھتی ہوں جو جنرل سکندر مرزا کے ساتھ کی گئی سازشوں سے لے کے آپ کو نیوٹرل، میر جعفر اور جانور کہہ کے سیاست میں زبردستی گھسیٹ لاتے ہیں۔ میں ان سول سوسائٹی اور نام نہاد سیاسی شعور رکھنے والے عوام کو بھی ذمہ دار سمجھتی ہوں جو جنرل سرفراز جیسے شہیدوں سے لے کے وزیرستان اور مشرقی و مغربی بارڈرز کی تاریک راہوں میں شہید ہونے والوں کے ٹھٹھے اڑاتے ہیں۔
آپ جا رہے ہیں تو ایک نئی ابتدا کرتے جائیں۔ آئیں ہم سب مل کر اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں اور پاکستان کو پہنچائے گئے زخموں پر مرہم رکھیں۔ آئیں اور ایسا کوئی فورم بنائیں جہاں سروس مین اور بلڈی سویلینز ایک دوسرے کی بات سنیں اور بغض کا شکار نہ ہوں۔
پاکستان زندہ باد!