انگلینڈ کے پاکستانی نژاد سپنر شعیب بشیر تاحال ویزا نہ دیے جانے کے باعث بھارت کے خلاف پہلے ٹیسٹ میچ سے باہر ہوگئے ہیں۔
شعیب بشیر ٹیم کے ساتھ ابوظہبی گئے تھے جہاں انگلینڈ نے جمعرات12 جنوری سے حیدرآباد میں شروع ہونے والی پانچ ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے لیے بھارت پہنچنے سے قبل ٹریننگ کی تھی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق سمر سیٹ کے آف سپنر ابوظبی میں کیمپ کے بعد انگلینڈ واپس چلے گئے ہیں جہاں وہ از سرنو بھارتی ویزا کے لیے اپلائی کریں گے۔
انگلینڈ کے کپتان بین سٹوکس نے برطانوی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یہ خاص طور پر مایوس کن لگ رہا ہے۔ہم نے دسمبر کے وسط میں سکواڈ کا اعلان کیا تھا اور اب ’بیش‘ کو ویزہ نہیں دیا گیا ہے۔
انگلش کپتان بین سٹوکس نے شعیب بشیر کو ویزہ نہ دیے جانے سے متعلق بھارتی رویے پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نوجوان کھلاڑی کے ساتھ ایسا رویہ کافی مایوس کن ہے۔
دوسری جانب شعیب بشیر کو بھارت کی جانب سے ویزا جاری نہ کرنے پر بی بی سی سپورٹس کے کمنٹیٹر نے ایکس پر برہمی کا اظہار کیا۔
انہوں نے ٹوئٹ کرتے ہوئے بھارتی حکومت پر سخت تنقید کی اور کہا کہ ’اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں ان ’ویزا ایشوز‘ کو اصل میں کیا کہنا چاہیے۔ ایک انگریز کو جان بوجھ کر اس کا نشانہ بنایا جارہا کیونکہ اس کے والدین پاکستانی ہیں۔ یہ کاغذی کارروائی نہیں ہے۔ یہ بی سی سی آئی کے سکریٹری اور بی جے پی کے وزیر داخلہ ہیں جو شعیب بشیر کو اس کے پاکستانی نژاد ہونے کی سزا دے رہے ہیں۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
We need to start calling these “visa issues” what they really are: deliberate victimisation of an Englishman because he has Pakistani parentage. This isn’t paperwork. This is the BCCI secretary and the BJP home minister working in harness to punish Bashir for being who he is. https://t.co/aDVY8ne27U
— Kit Harris (@cricketkit) January 23, 2024
واضح رہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان سیاسی تعلقات کشیدہ ہیں اور وہ ملٹی ٹیم ایونٹس سے باہر ایک دوسرے کے خلاف نہیں کھیلتے۔ لندن میں بھارتی ہائی کمیشن کی ویب سائٹ کے مطابق پاکستانی نژاد افراد کو بھارتی ویزا حاصل کرنے کے لیے اضافی تفصیلات جمع کرانا ہوں گی۔
بھارت کی جانب سے ویزہ ملنے میں تاخیر کا سامنا کرنے والے یہ پہلے پاکستانی نژاد برطانوی کرکٹر نہیں ہیں۔
ماضی میں معین علی اور ثاقب محمود کو بھی بھارت کا دورہ کرنے پر انہی مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ پاکستان میں پیدا ہونے والے آسٹریلوی اوپنرعثمان خواجہ کو بھی گزشتہ سال دورہ بھارت سے قبل اسی مسئلے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
حتیٰ کہ اکتوبر2023 میں بھارت میں ہونے والے آئی سی سی مینز ورلڈ کپ مٰن شرکت کے لیے پاکستانی کرکٹرز کو بھی انتہائی تاخیر سے ویزا جاری کیا گیا تھا۔
بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث برطانیہ میں مقیم 2 پاکستانی نژاد صحافی بھی ورلڈ کپ کی کوریج نہیں کر پائے تھے۔