تمام زبانیں محترم مگر پنجابی زبان کیساتھ سوتیلوں جیسا سلوک کیوں؟

تمام زبانیں محترم مگر پنجابی زبان کیساتھ سوتیلوں جیسا سلوک کیوں؟
زبانیں انسانی زندگی میں مرکزی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ ہمارے معاشروں کو ایک دوسرے سے کسی گوند کی طرح جوڑے رکھتی ہیں۔

انسان ہونا کیا ہے یہ ہمیں زبان اور ثقافت ہی تو بتاتی ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں انسانوں کے مابین تعلقات خراب رہتے یہ زبان ہی ہے جو ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع دیتی ہے اور معاشرے کو بہتر بنانے میں مدد دیتی ہے۔ یہ بہت واضح ہے کہ ہمارے پاس دوسروں اور خود کو بہتر طریقے سے سمجھنے کا طریقہ زبانوں اور ثقافتوں کی ترویج کے علاوہ شاید کوئی نہیں ہے۔

اگر پاکستان میں پنجاب کی بات کی جائے تو گزشتہ مردم شماریوں میں پنجابی بولنے والوں کی تعداد میں کمی دیکھی گئی ہے، کچھ لوگوں کے خیال میں وجہ پنجابی بولنے والوں کی تعداد میں حقیقی کمی سے زیادہ مردم شماری میں کوائف کے اندراج میں بے احتیاطی ہے۔

وجہ کوئی بھی ہو، لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان کی آخری مردم شُماری کے مطابق پاکستان میں 1998 سے 2017 تک کے 19 سال کے عرصہ میں بلوچی، پشتو، سندھی اور اردو بولنے والوں کے برعکس سب سے زیادہ کمی پنجابی زبان بولنے والوں میں ہوئی جو 44.15 سے کم ہوکر 38.78 فیصد رہ گئے۔

پنجابی دنیا کے چند ایک سب سے قدیم اور اہمیت کے حامل ثقافتوں اور زبانوں میں سے ایک ہے جس سے دوری ہماری نئی نسل کو اپنے معاشرتی اقدار اور محبت و احترام سے دور لے جائے گی جو اس ثقافت کا خاصہ ہے۔

پاکستان سے تعلق رکھنے والی آج کے دور کی بہترین انگریزی بولنے والی سب سے زیادہ سینئر پیشہ ورانہ طور پر منجھی ہوئی عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ، افواج، وکلا، بیوروکریسی سے لے کر، پالیسی سازی، تحقیق اور یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم دینے والے سینئر ترین اساتذہ تک ہر اندرون اور بیرون ملک کا نام روشن کرنے والی بہترین شخصیات میں سے زیادہ تر نے ٹاٹوں پر بیٹھ کر تختی اور سلیٹ پر پنجابی، پلوچی، سنھی، پشتو، یا اپنی مادری زبان بول کر ہی تعلیم حاصل کی ہوگی۔ جس سے آج کی نسل کے لئے یہ سبق ملتا ہے کہ بہترین انگریزی بعد میں بھی سیکھی جا سکتی ہے مگر مادری زبان میں نکھرنے والی صلاحیتیں شاید نکھر نا سکیں اور پھر پنجابی زبان کی بقا بھی شاید ممکن نا رہے۔

تحقیقات نے یہ ثابت کیا ہے کہ مادری زبان کو برقرار رکھنا بچوں اور نئی نسل کی ذاتی، معاشی اور معاشرتی کامیابی کے لئے کتنا ضروری ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ بچے کی پہلی زبان اس کی شناخت کے لیے سب سے زیادہ اہم ہے۔ اس زبان کو برقرار رکھنے سے بچے کو اس کی ثقافت اور ورثے کی قدر کرنے میں مدد ملتی ہے، جو کہ ایک مثبت ذاتی شناخت اور خود پر فخر کرنے کے احساس میں حصہ ڈالتی ہے۔ جب مادری زبان کو برقرار نہیں رکھا جاتا ہے، تو خاندان اور معاشرے کے دیگر افراد سے اہم روابط ختم ہونے لگتے ہیں۔

ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ بچوں کو سکولوں میں بلا تعطل فکری نشوونما کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ بچے جو ابھی تک اردو یا انگریزی میں روانی نہیں رکھتے اور سکولوں میں صرف انگریزی یا اردو استعمال کرنے پر پابند کیے جاتے ہیں وہ اپنی عمر سے کم ذہنی سطح پر کام کر رہے ہوتے ہیں اور اس انداز میں فکری نشوونما میں رکاوٹ تعلیمی ناکامی کا باعث بنتی ہے لیکن جب والدین، اساتذہ اور بچے وہ زبان (مادری زبان) بولتے ہیں جو وہ ایک دوسرے کے ساتھ سب سے بہتر جانتے ہیں، تو وہ اپنی فکری پختگی کی اصل سطح پر کام کر رہے ہوتے ہیں۔

یہ سمجھنا انتہائی اہم ہے کہ جو بچے اردو یا انگریزی سیکھتے ہیں مگر ساتھ ساتھ اپنی مادری زبان کو بھی سیکھتے رہتے ہیں ان کی تعلیمی کامیابی بعد کے سالوں میں ان طلباء کی نسبت زیادہ ہوتی ہے جو اپنی مادری زبان کی قیمت پر صرف اردو یا انگریزی سیکھتے ہیں۔

ہمیں مادری اور علاقائی زبانوں پر فخر کرنے کے اصول طے کرنے ہوں گے اور نئی نسل کو ان سے روشناس کروانا ہوگا۔

مقامی حکومتوں سے لے کر صوبائی حکومتوں تک اور مرکزی سطح پر نمائشی سے زیادہ عملی سرگرمیاں بڑھانی ہوں گی تا کہ ہماری انفرادی، اجتماعی اور قومی کارکردگی مثالی ہو سکے۔ آنے والی مردم شماری کو سرکاری اور قومی سطح پر مادری زبان کے حوالے سے ذمہ دارانہ طور پر مکمل کرنا ہوگا۔

پنجابی بولنے والوں کی زبان مادری زبان کے خانہ میں پنجابی ہی لکھی جانی چاہئے، اردو بولنے والوں کی اردو، پشتو والوں کی پشتو، بلوچی، سندھی اور دوسری علاقائی زبانوں کو ان کے بولنے والوں سے پوچھ کر اندراج کرنا چاہئے اور اس کی نگرانی عوامی سے لے کر سرکاری سطح تک ہونی چاہیے تاکہ صحیح اعدادوشمار کے مطابق نئی نسل کا مستقبل معیاری بنایا جا سکے۔

عامر حیات بھنڈارا ایک کسان اور سیاستدان ہیں۔ مصنف ایگریکلچر ریپبلک اور ڈیجیٹل ڈیرہ کے شریک بانی ہیں۔ ان سے بذریعہ ای میل aamerht@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ ان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ AamerBhandara@ کے نام سے ہے۔