رائٹر ہوتا ہے راستہ دکھانے والا، ڈائریکٹر ہوتا ہے اس راستے کو سجانے والا، فلمساز ہوتا ہے سامان سجاوٹ فراہم کرنے والا اور اداکار ہوتے ہیں قلم کے ذریعے قرطاس پر لکھے کرداروں کو سکرین پر زندہ کرنے والے۔ اگر اداکاری معیاری ہو تو کردار امر ہو جاتا ہے اور اگر اداکاری بری ہو تو سکرین پر جیتا جاگتا کردار بھی مردہ ہو جاتا ہے۔
ڈرامہ سیریل جنٹلمین کی 14 اقساط گرین ٹیلی ویژن کی سکرین سے آن ایئر کی جا چکی ہیں اور ناظرین کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے چکی ہیں۔ جیسا کہ سطور بالا میں تمہید باندھی گئی سکرپٹ رائٹر، ڈائریکٹر، فلمساز، اور اداکاروں کے بارے میں تو اسی ترتیب سے ڈرامہ سیریل جنٹلمین پر بات کرتے ہیں۔
ڈرامہ نگار خلیل الرحمٰن قمر کے قلم کا جادو ایک بار پھر سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ 14 اقساط بھرپور طریقے سے پیش کی گئی ہیں۔ بڑا ڈرامہ نگار وہ ہے جس کا مکالمہ جاندار ہو۔ خلیل الرحمٰن قمر کے مکالمے نکلتے تو اداکاروں کے منہ سے ہیں مگر اترتے ناظرین کے دلوں میں ہیں۔ بلاشبہ بطور سکرپٹ رائٹر خلیل الرحمٰن قمر ناظرین کی نبض پر ہاتھ رکھ کر لکھتا ہے۔ سکرین پلے رائٹر کو ناظرین کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ اگر اسے ناظرین میسر نہ ہوں تو وہ فلاپ ہو جاتا ہے۔
خلیل الرحمٰن قمر ناظرین کی دولت سے مالا مال ہے۔ جس قدر ناظرین ان کے لکھے ڈراموں کو ملتے ہیں شاید ہی کسی اور ڈرامہ نگار کو ملتے ہوں۔ وہ مکالمے کے شہنشاہ ہیں، جیسے بھارت میں سلیم جاوید تھے، کمال امروہی تھے۔ سلیم جاوید کا لکھا مکالمہ جب امیتابھ بچن بولتا تھا تو سنیما گھروں میں سناٹا چھا جاتا تھا۔ اسی طرح کمال امروہی کے لکھے مکالمے جب راج کمار نے پاکیزہ فلم میں بولے تو وہ امر ہو گئے۔ یہی کچھ پاکستان کی ٹیلی ویژن سکرین پر خلیل الرحمٰن قمر کرتے ہیں۔ چاہے ' میرے پاس تم ہو' یا 'جنٹلمین' کا ہمایوں سعید ہو یا 'لنڈے بازار' یا 'لال عشق' کا بابر علی ہو، مکالمہ سپر ہٹ ہوتا ہے۔
تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
جنٹلمین کے ڈائریکٹر حسام حسین کی ہدایت کاری مجموعی طور پر قابل تعریف ہے۔ 14 ویں قسط میں جب یمنیٰ زیدی نماز پڑھنے کے بعد سلام پھرتی ہے تو اس کی نظر اس کے راشی منگیتر پر پڑتی ہے، یہ سین ہاشم ہارون نے بہت مہارت سے شوٹ کیا ہے۔ تاہم ایک سین میں وہ غلطی کر گئے جب اقبال منا منسٹر سے مل کر آتا ہے اور وہ اسے ویگو ڈالا آفر کرتا ہے مگر منا کہتا ہے کہ وہ اپنی جیب پر آیا ہے اور اسی پر جائے گا لیکن اگلے منظر میں منا ویگو ڈالے پر جا رہا ہوتا ہے۔
تاہم اگر 14 اقساط میں مجموعی طور پر ہدایت کاری کی بات کی جائے تو حسام حسین کا کام بہت اچھا ہے۔ زرناب کا گھر، اقبال منا کا گھر، رحمتی کا گھر، منسٹر کا گھر، کمشنر آفس، چینل کا دفتر اور کورنگی کی گلیاں چابکدستی سے شوٹ کی گئی ہیں۔ ہمایوں سعید کی بیٹی کے پروڈکشن ہاؤس نے سکرپٹ رائٹر اور ڈائریکٹر کو سامان سجاوٹ اچھے سے فراہم کیا ہے۔
اداکاری کی بات کی جائے تو بلاشبہ ہمایوں سعید نے شو لوٹ لیا ہے۔ سلور سکرین ہو یا ٹیلی ویژن کی سکرین، وہ کنگ خان شاہ رخ خان کی طرح ہر جگہ اپنی چھاپ چھوڑ دیتا ہے۔ پچھلے چند سالوں میں دو فلمیں؛ پنجاب نہیں جاؤں گی اور لندن نہیں جاؤں گا اور دو ڈرامہ سیریل؛ میرے پاس تم ہو اور اب جنٹلمین کی فقیدالمثال کامیابیوں کا سہرا ہمایوں سعید کے سر ہی جاتا ہے۔
جنٹلمین کا دوسرا اہم کردار عدنان صدیقی کا ہے۔ ان کا گٹ اپ بالکل 'واستو' کے سنجے دت جیسا ہے۔ اپنے کردار سے خوب انصاف کیا ہے۔ ہمایوں سعید اور عدنان صدیقی کی جوڑی بہت اچھی ہے۔ مکالمے بولتے وقت دونوں کی بدن بولی اور چہرے کے تاثرات قابل دید ہوتے ہیں۔
یمنیٰ زیدی اچھی اداکارہ ہے مگر اتنی خوبصورت نہیں کہ اس اس پر تین مرد فریفتہ ہو جائیں اور ایک دوسرے کی جانوں کے درپے ہو جائیں۔ اچھا ہوتا ان کی جگہ مہوش حیات یا عائزہ خان جیسی ملکوتی حسن کی مالک کوئی اپسرا ہوتی۔
زائد احمد اسسٹنٹ کمشنر کے رول میں خوب جچا ہے اور اداکاری بھی اچھی کر رہا ہے۔ دیکھنے میں بہت سمارٹ لگتا ہے۔ خالد انعم، ریاض ابڑو اپنے اپنے کردار اچھے طریقے سے کر رہے ہیں۔ احمد علی بٹ اوور ایکٹنگ کر رہا ہے۔ مفرا کے کردار والی اداکارہ خوبصورت ہے اور کام بھی ٹھیک کر رہی ہے۔
حرف آخر 14 اقساط کے بعد 'جنٹلمین' اپنے انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ توقع ہے کلاسیکی اختتام ہمارا منتظر ہو گا جیسا ' میرے پاس تم ہو' کا ہوا تھا۔