سنسنی خیز عمران سیریز کے تازہ ایڈیشن (ہو سکتا ہے کہ اس مضمون کے چھپنے تک مارکیٹ میں کئی اور بھی آ چکے ہوں) کے مطابق مبینہ قتل سازش میں مرتضیٰ بھٹو کے المناک قتل کا 'انتخاب' کیا گیا ہے جس کے مطابق سابق وزیر اعظم کو اسی طرح پولیس انکاؤنٹر میں مارے جانے کا پروگرام ترتیب دیا جا چکا ہے۔
پورا نقشہ اور جزئیات بھی بتا دی گئی ہیں کہ کارکنوں کو کیسے اشتعال دلایا جائے گا، پولیس کے جوان بھی مرتضیٰ بھٹو کے واقعے کی طرح مروائے جائیں گے اور پھر اس دوطرفہ جنگ میں اصلی پتا صاف کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ یہ بتاتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو کے صاحبزادے کے قتل کی پیچ در پیچ گتھی بھی اپنے تئیں سلجھا لی گئی ہے۔
یہ اچانک سے ہلا دینے والا انکشاف اس لئے نہیں ہے کہ زرداری کے میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل میں ملوث ہونے کا میوزک کچھ دنوں سے جاری تھا۔ خاص طور پر جب سے پولیس نے 'خالی گھونسلہ' دیکھ کر زمان پارک میں دھاوا بولا تھا۔ یقیناً خاص و عام میں مقبول لیڈر کے سورسز مستند ہوں گے، البتہ جس طرح نکتہ آفرینی کی گئی اور آج کل کے دن بھی بتلائے گئے وہ بہت خطرناک ہے اور اس ’خوابی‘ کیفیت کی زمینی تو کیا، 'ہوائی' تحقیقات بھی ہونی چاہئیں۔
27 برس قبل مقبول ترین عوامی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کے بیٹے کی جواں مرگ موت کرب ناک اور الم ناک تھی۔ مرتضیٰ بھٹو کی انتقامی سیاست اور نظریات کو ایک طرف رکھ کر دشمن بھی مرتضیٰ کی حوصلہ مندی اور بہادری کے معترف تھے۔ جلاوطنی کے بعد انہوں نے اس وقت کی اپنی بہن بے نظیر بھٹو کی حکومت اور ان کے شوہر آصف زرداری کو اس بھرپور انداز میں چیلنج کیا تھا کہ اتنے قلیل عرصے میں حکومت کے قلعے میں واضح دراڑیں نظر آنے لگیں۔ حالات اس نہج پر پہنچ گئے تھے کہ حکومتی مشینری سے باقاعدہ جھڑپیں ہونے لگیں۔ مرتضیٰ اپنے ساتھی علی سنیارا کی رہائی کے لئے پولیس کی 'کھلی غار' میں پہنچ گئے جہاں سے بچ نہ سکے اور نہ ہی کوئی کیمرے کی آنکھ اس اندوہناک واقعے کو محفوظ کر سکی۔
عمران خان کی شان ہے کہ وہ تاریخ کی مثالوں سے مستقبل کی پیش بندیوں کا مصالحہ پُر کرتے ہیں اور پولیس گردی کو انہوں نے 70 کلفٹن والے حادثے سے جوڑ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ پولیس کے چھاپے اور دھاوے قید میں ڈالنے کے لئے نہیں بلکہ راستے سے مستقل طور پر ہٹانے کی ایک منظم سازش کا حصہ ہیں۔ لیکن عمران خان کی 'مجھے قتل کر دیا جائے گا' کی گردان کے برعکس میر مرتضیٰ کی بدن بولی 'آؤ۔۔۔ ہمت ہے تو مجھے قتل کرو' والی تھی۔ عمران خان خطرے کی بُو پا کر کارکنوں کے حصار سے نہیں نکل رہے جبکہ چھوٹے بھٹو خطرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کارکنوں کے لئے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ اول الذکر نے کارکنوں کو 'جیل بھرو تحریک' کا کہہ کر اپنے لئے 'جیل سے بچو' کا انتخاب کیا، جبکہ مرتضٰی نے کارکنوں کو پابند سلاسل ہونے اور تشدد سے بچانے کے لئے اپنی جان داؤ پر لگا دی۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ بظاہر مرتضیٰ کے ساتھ جوڑ کر انہوں نے مبینہ حکومتی یا اسٹیبلشمنٹی سازش کا توڑ کرنے کی ایک اور کوشش کی ہے۔
ان دونوں میں بہادری کا جوڑ نہ بھی ہو تو یہ بات ضرور یاد رکھنے کی ہے کہ ملک خاص طور پر اس وقت کسی بے وقوفی سے لبریز دلیری کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ عمران خان کو کسی قسم کا نقصان پاکستان کے لئے نقصان کا باعث ہو گا جو کہ پہلے ہی تاریخ کے مشکل ترین حالات میں گھِرا ہوا ہے۔ جس طرح بھی ممکن ہے تحریک انصاف کو چاہئیے کہ اپنے لیڈر کی حفاظت کرے اور حکومت کا بھی یہ فرض ہونا چاہئیے کہ سابق وزیر اعظم اور مقبول ترین لیڈر کی سکیورٹی کا پورا انتظام کیا جائے۔
البتہ خان صاحب کو عدالت جاتے ہوئے یا گھر میں اپنی ذاتی سکیورٹی کے علاوہ کارکنوں کے غول جمع نہیں کرنے چاہئیں۔ ایسا صرف خانہ جنگی کے حالات میں کیا جاتا ہے۔ اس طرح غیر ضروری لوگوں کو اپنے ساتھ رکھ کر تو وہ خود کو خطرے میں ڈال رہے ہیں اور سکیورٹی اداروں کی مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔
رہی بات خود کو مرتضیٰ بھٹو کے ساتھ ملانے کی تو معذرت کے ساتھ عمران خان کی 'دھمک' اور ان کا رویہ بالکل الٹ ہے۔ مرتضیٰ کے بچے ذوالفقار بھٹو جونیئر اور فاطمہ بھٹو آرٹ، کلچر اور نئی روایت کی 'ٹھہری' سیاست کو پروموٹ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ اپنے باپ کے بارے میں اس 'الٹ پھیر' سے وہ بھی ہل کر رہ جائیں۔ انتقامی لرزش نا بھی ہو تو کم سے کم فاطمہ بھٹو تو جواب دے ہی سکتی ہیں۔