کیا یہ غصہ ڈوبتے ہوئے ملاح کی صدا ہے؟

کیا یہ غصہ ڈوبتے ہوئے ملاح کی صدا ہے؟
ہمارے ایک جاننے والے تھے۔ رشتہ تو پتہ نہیں کیا تھا، دادی کے رشتے دار ان کے ساتھ ہی چلے گئے، مگر یہ صاحب غصے کے بڑے تیز مشہور تھے۔ کبھی ان کو نارمل گفتگو کرتے نہیں دیکھا۔ جب گھر جاؤ، بیوی بچے بیچارے ابا ہی کے قصے لے کر بیٹھے رہتے تھے کہ جی وہ تو بڑے غصے والے ہیں، ان کے آگے کوئی نہیں بول سکتا وغیرہ وغیرہ۔ ایک دن ہم ان کے گھر پر ہی تھے تو انہوں نے اپنی بیگم کو کسی بات پر خوب لتاڑ دیا۔ پہلے تو ہکا بکا سب دیکھتے رہے مگر جب معاملہ تھوڑا ٹھنڈا ہوا تو ہماری دادی نے کہا کہ اپنی بیوی سے سب کے سامنے ایسے بات نہیں کرنی چاہیے۔ بولے، خالہ جی کیا کروں، میرے سے غصہ نہیں قابو ہوتا۔ اب دادی بھی ہماری دلّی کی تھیں۔ جان چلی جائے، جملہ نہ جائے والا معاملہ تھا۔ فوراً بولیں، دفتر میں مالک کا کتنی دفعہ سر پھاڑ کر آیا ہے؟ سارا غصہ اس بے زبان کے لئے ہی ہے؟

اب آپ دیکھیں کہ صابر شاکر نے کل کالم میں کیا کیا لکھ دیا ہے۔ ’سینیئر پائلٹ‘ نے ’معاون پائلٹ‘ کو سنجیدہ نہ لینے کی ہدایات جاری کر دی ہیں، ان کے پرانے کھاتے پھولنے کا حکم دے دیا ہے، اور ’معاون پائلٹ‘ کی طرف سے ہدایات کو ان سے کاؤنٹر چیک کرنے تک کی تنبیہہ کر دی ہے۔ مگر مجال ہے جو ذرا سا بھی غصہ دکھایا ہو بڑے صاحب کو۔ ایک دن آ کر عدالتوں کو ڈانٹنے کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے کھری کھری سنا دیں تو آگے سے چوں تک نہ نکلی۔ واپس پھر اسی بے زبان اپوزیشن پر دہاڑنے کھڑے ہو گئے کہ یہ شہباز تو ایسا ہے، بلاول ایسے بولتا ہے، اور فضل الرحمان تو انتہائی برا آدمی ہے۔

لیکن یہ بڑبڑ آخر ہو کیوں رہی ہے؟ سینیئر تجزیہ نگار ایسے معاملات کی وضاحت ’صاف سی بات ہے‘ کہہ کر شروع کرتے ہیں مگر اس ملک میں صاف کچھ نہیں ہوتا۔ اندازے ہی ہوتے ہیں۔ تو لگاتے ہیں۔



اندازہ یہ ہے کہ موصوف گھبرائے ہوئے ہیں۔ پچھلے ڈیڑھ سال میں مجال ہے جو کوئی ڈھنگ کا کام کیا ہو جو کسی کو دکھا سکیں۔ لے دے کر پچھلی حکومتوں کے پراجیکٹس کا افتتاح کر کے انہی کو برا بھلا کہہ لیتے ہیں۔ ایک ہی چیز تھی جو اپنے چاہنے والوں کو دکھا کر خوش کر لیتے تھے کہ دیکھ لو، کہا تھا رلاؤں گا، سب کو اندر کر دیا ہے۔ اب وہ بھی نہیں کہہ سکتے۔ سب سے بڑا دشمن بغیر بتائے چلا گیا، اور بیچارے ہاتھ ملتے رہ گئے۔ اب لوگوں کو کیا بتائیں، کیا کرتے ہیں وزیر اعظم ہاؤس بیٹھ کر؟ تو کچھ غصہ تو ہے اس بات کا۔

مگر سنجیدہ معاملہ یہ ہے کہ نواز شریف آگے سے ہٹ گیا ہے۔ بات سمجھے؟ فرض کریں کہ آپ کو سہیل وڑائچ کا ’جن‘ پکڑنے آ رہا ہے۔ اور آپ نے اپنے گرد قدیم جادوئی پتھروں کا ایک حصار بنا رکھا ہے۔ کسی جیوتشی نے بتایا ہے کہ جب تک یہ پتھر موجود ہیں، جن آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ آپ اپنے ارد گرد سب کچھ ختم ہوتا دیکھ رہے ہیں، اور جانتے ہیں کہ جن آپ کو لینے آ رہا ہے مگر آپ خود کو تسلی دے رہے ہیں، کہ پتھر موجود ہیں۔

لیکن ایک دن آپ صبح سو کر اٹھے تو دیکھا کہ پتھر آپ کے گرد موجود نہیں۔ وہ جو ایک سیلاب آنے کی بھوشہ وانی کسی داڑھی والے سیانے بندر نے سنا رکھی تھی، وہ کل رات آیا اور آپ کے پتھر بہا لے گیا۔ اب آپ کے گرد کوئی جادوئی پتھر نہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ جن آ رہا ہے۔ خوف سے آپ کی تو گھگھی ہی بند جائے گی۔ لیکن ابھی جن آپ کو دکھائی نہیں دے رہا، لہٰذا خوف کا وہ عالم تاحال نہیں۔ لیکن آپ کو پتہ ہے وہ آ رہا ہے، جھنجھلا کر غصے میں کچھ اول فول کہہ دیں تو کوئی اتنی حیرانی کی بات بھی نہیں۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.