نظام محصولات کو کسی بھی ملک کی سماجی اور معاشی پالیسیوں کو ڈھالنے اور اُن پر اثرانداز ہونے والا ایک طاقتور عامل خیال کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں یہ واجب توجہ سے محروم ہے۔ ایک حقیقی ٹیکس پالیسی کا مقصد ریاست کے نظم و نسق اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے فنڈز اکٹھے کرنا اور نجی شعبے سے وسائل لے کر عوامی شعبہ جات پر خرچ کرنا ہوتا ہے۔ اس طرح سماجی جمہوریت میں ٹیکسیشن ہی وہ فیکٹر ہے جو معاشی انصاف کو یقینی بناتے ہوئے سماجی ہمواری ممکن بناتا ہے کیونکہ اس کی مدد سے ہی دولت کی تقسیم، معاشرے کے کمزور طبقات، جیسا کہ بے سہارا خواتین، یتیم بچے، غریب اور مستحق، خصوصی افراد اور جبر کا شکار اقلیتی برادری کے افراد کی امداد ممکن ہو پاتی ہے اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے وسائل فراہم ہوتے ہیں۔ تاہم ہماری مروجہ ٹیکس پالیسی میں یہ تمام عوامل ناپید ہیں۔ اس کے علاوہ مالیاتی وسائل پر مرکزیت کا خاتمہ بھی ممکن نہیں ہوا ہے چنانچہ صوبوں کے پاس اتنی رقم نہیں ہوتی کہ وہ عام شہری کو سہولیات فراہم کر سکیں۔ اس صورت میں ہماری جمہوریت صوبائی خود مختاری کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔
اس وقت پاکستان بھاری قرضوں تلے جکڑا ہوا ہے۔ بڑھتا ہوا مالیاتی خسارہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ترقیاتی منصوبے بنانے اور عوام کو صحت، تعلیم اور ہاؤسنگ کی سہولیات فراہم کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ مؤثر مالیاتی انتظام اور شفاف احتساب کے بغیر پاکستان اپنے مسائل پر قابو نہیں پا سکتا۔
وفاقی حکومت کو دستیاب وسائل میں سے زیادہ حصہ درکارہوتا ہے، چنانچہ اس ٹیکس کے نرخ کم کرتے ہوئے اس کے دائرے کو پھیلانے کی ضرورت ہے۔ ایک مرتبہ گڈ گورننس سے دستیاب مالیاتی حجم میں اضافہ کر لیا جائے تو پھر حکومت عوام کو پینے کا صاف پانی، صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ اور ہاؤسنگ کی سہولیات فراہم کر سکتی ہے۔ اس صورت میں عوام کے اندر بھی تحریک پیدا ہو گی کہ وہ ٹیکس دیں کیونکہ وہ جانتے ہوں گے کہ اس کا حتمی فائدہ اُنہی کو ہو گا۔
چنانچہ ضروری ہے کہ حکومت وسائل کو طاقتور حلقوں سے لے کر عام شہریوں پر خرچ کرے۔ وسائل کی اس تحریک کے لیے ٹیکسیشن ہی واحد فعال فیکٹر ہے۔ دوسری طرف یہ بھی ضروری ہے کہ ریاستی اداروں کے ہاتھوں وسائل کو ضائع ہونے سے بچایا جائے۔
ہمیں انفراسٹرکچر، چھوٹی اور میڈیم سائز فرموں اور صنعتی یونٹس کے علاوہ زرعی شعبے پر بھی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ غریب افراد کی مدد کے لیے نجی اور سرکاری شعبے کے تعاون کے ذریعے وسائل کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ اس سے معاشی پیداوار بڑھانے اور عوام کو وسائل پیداوار میں سٹیک ہولڈر بنانے کا موقع پیدا ہو گا۔ اس وقت تک وسائل پر صرف اشرافیہ کی اجارہ داری ہے، جس کو توڑے بغیر ریاست کے قیام کے مقاصد پورے نہیں ہو سکتے۔
ڈبلیو ٹی او میں پاکستان کے نمائندے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں؛ 'ہمارے ٹیکسز نہ تو تمام افراد، جن کی آمدنی قابل ٹیکس ہے، پر ہوتے ہیں اور نا ہی ان کے نرخ کم ہیں۔ چاہے یہ سیلز ٹیکس ہو، کارپوریٹ، انکم ٹیکس یا کسٹم ڈیوٹی، ہمارے نرخ دنیا میں سب سے اونچے ہیں'۔ مثال کے طور پر ہمارا معیاری سیلز ٹیکس 18 فیصد ہے جبکہ بھارت اور سری لنکا میں اس کی شرح 12 فیصد ہے۔ ہمارا کارپوریٹ ٹیکس، سپر ٹیکس اور لیبر سے وابستہ محصولات کے بعد 40 فیصد سے بھی تجاوز کر جاتا ہے، جبکہ انڈیا میں اس کی شرح 20 فیصد ہے۔ ہمارے ہاں اوسط کسٹم ڈیوٹی کے نرخ 15 فیصد جبکہ انڈیا میں 9 فیصد ہیں۔ مختصر یہ کہ پاکستان کی ٹیکس پالیسی دنیا کی فعال ٹیکس پالیسی کے برعکس ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وفاقی سطح پر ٹیکس پالیسی بنانے والے معیشت کی مجموعی صورت حال سے لاعلم ہیں۔ ٹیکس نافذ کرتے وقت وہ کوئی تجزیہ کرنے یا جائزہ لینے کی زحمت نہیں کرتے کہ اس پالیسی کا ملکی امپورٹ اور ایکسپورٹ پر کیا اثر ہو گا اور نا ہی وہ اس کے مجموعی پیداوار پر نتائج کو دیکھنے کی زحمت کرتے ہیں۔
ایف بی آر کا ٹریک ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ یہ اگلے تین سالوں میں 15 ٹریلین روپے ٹیکس حاصل کرنے کے بھی قابل نہیں ہے (اگرچہ پاکستان میں ٹیکس کا حقیقی پوٹینشل 20 ٹریلین روپے تک ہے)۔ ان حالات میں وفاقی اور صوبائی ٹیکس کا نظام اسی راہ پر گامزن رہے گا جو اس نے اب اپنائی ہوئی ہے۔ گویا یہ اپنی نااہلی سے بھاری وسائل ضائع کرتا رہے گا اور ملکی معیشت قرضوں کی دلدل میں دھنستی چلی جائے گی۔ وفاقی حکومت صوبوں سے تقاضا کرے کہ وہ اپنے وسائل کا حجم بڑھائیں کیونکہ اٹھارھویں ترمیم کے بعد اُنہیں زیادہ ٹیکس لگانے کا حق حاصل ہو چکا ہے، لیکن ٹیکس کی موجودہ بوسیدہ مشینری سے کسی بہتری کی توقع عبث ہے۔
اس صورت حال سے بچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ وفاق اور صوبوں کے درمیان سماجی رابطے کا ازسرِنو جائزہ لے۔ صوبائی خودمختاری اور نچلی سطح پر انتقال اقتدار اُس وقت تک بے معنی ہیں جب تک ان حکومتوں کے پاس وسائل نہ ہوں۔ یہ بات سیاسی اور سماجی علوم کے ماہرین بارہا کہہ چکے ہیں کہ صوبوں کو زیادہ اختیارات دیے بغیر پاکستان کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ آسان لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ صوبے اپنے وسائل خود اکٹھے کریں اور اپنے شہریوں پر خرچ کریں۔
ہمارے لیے بہت ضروری ہے کہ مالیات کی عدم مرکزیت اور میونسپل نظام کو سماجی پالیسی سے ہم آہنگ کیا جائے تاکہ تمام شہری سماجی سہولیات سے استفادہ کر سکیں۔ درحقیقت وسائل پر مخصوص طبقوں کی اجارہ داری توڑنے کی جتنی ضرورت آج ہے، پہلے کبھی نہ تھی۔ نمائندگی دیے بغیر ٹیکسز عائد کرنا بذات خود آئین پاکستان کی نفی ہے، تو دوسری طرف ٹیکس ادا کیے بغیر عوام پر اپنی نمائندگی مسلط کرنا بھی غیر جمہوری رویہ ہے۔ عالمی سماجی نظام میں معاشی عدم مساوات کو کم سے کم کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ سب کا بینک بیلنس برابر ہو، بلکہ یہ کہ وسائل سے استفادہ سب کر سکیں۔ اس کے لیے ریاست کے ہاتھ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ بات گھوم پھر کر پھر ایک جامع اور مربوط ٹیکس پالیسی پر آ جائے گی جس کی ہمیں شدید ضرورت ہے۔
عوام دوست پاکستان کی صوبائی حکومتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 140A کے تحت مقامی حکومتوں کا نظام وضع کریں۔ اس نظام کی بنیاد سماجی پالیسی پر ہو تا کہ شہریوں کے دکھوں کا مداوا ہو سکے۔ فی الحال ایسی کسی پالیسی کا نفاذ دکھائی نہیں دیتا۔
حکمران طبقہ عوام کو اختیارات دینے کے لیے تیار نہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اُنہیں وسائل سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ تاہم اگر مقامی حکومتوں کو وسائل مہیا نہیں کیے جائیں گے تو اُنہیں قائم کرنے کا کوئی جواز نہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ آرٹیکل 140A کے تحت مالی وسائل کی مرکزیت کو ختم کر کے مقامی حکومتوں کو وسائل فراہم کیے جائیں تا کہ اُنہیں ذمہ داری کا احساس ہو سکے۔ بدقسمتی سے فی الحال پاکستان میں اس پیش رفت کیلئے سیاسی عزم ناپید ہے۔
حکمران طبقہ نہ تو ٹیکسیشن کا نظام درست کرنا چاہتا ہے اور نا ہی وسائل کی نچلی سطح تک منتقلی کو یقینی بنانا چاہتا ہے۔ فی الحال حکومت کا کام بھاری قرضے لے کر مہنگے منصوبے بنانا اور اُن کی تشہیر بازی کرنا ہے۔ اس سے پاکستان کے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ عوام کا جمہوریت پر یقین بھی کمزور ہوتا چلا جائے گا۔