آج کل ہم پاکستانی اپنے ملک کے دگرگوں حالات سے بہت دل گرفتہ، ملول اور گریہ کناں ہیں۔
کتنے دکھ بھرے احساسات ایک لفظ 'کاش' کے گرد منڈلاتے ہیں۔ کاش ہمارے لیڈر بہت سے کم اہم منصوبوں پر وقت اور پیسے کو ضائع کرنے کی بجائے کہیں یہی رقم تعلیم پر خرچ کر دیتے تو یقیناً حالات بہتر ہوتے۔ کاش وہ اپنی اناؤں، خود غرضیوں اور تجوریوں کی بجائے ملک کا سوچتے۔ اف 'کاش' تو شیطان کی آنت کی طرح پھیلتا جا رہا تھا۔ سوچا اس کا بھلا کیا فائدہ؟ خود بھی جلنے لگی ہوں اور پڑھنے والوں کا بھی امتحان لے رہی ہوں۔ دفع کروں اسے۔ ہاں کسی کی ایک دانش سے بھری بات نے بڑا حوصلہ دیا ہے کہ قوموں کی زندگی میں بے شمار کٹھن مسائل اور حالات آتے ہیں۔ ذات سے بالا، عہدوں، کرسیوں کی طمع سے اونچے ہو کر ہی بحرانوں سے نکلا جا سکتا ہے۔ دعا اور اپنی اپنی ذات کا محاسبہ اور چھوٹے بڑے کا ہر قدم ملک کی بہتری اور سلامتی کی نیت سے اٹھے تو تقدیریں بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔
گذشتہ دنوں ایک کتاب ہاتھ لگی؛ 'دیوارِ گریہ کے آس پاس'۔ کیا ہی خوبصورت کتاب تھی! میرے تو چودہ طبق روشن ہو گئے۔ تب سوچا کہ یہ سب تو قارئین سے شیئر کرنے کی ضرورت ہے۔ تو چلیے آپ کو میں پاکستانی ڈاکٹر کاشف مصطفیٰ سے ملواؤں جو اس وقت دنیا کے بہترین ہارٹ سرجنز میں سے ایک ہیں اور جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں مقیم ہیں۔ وہ نیلسن منڈیلا کے بھی معالج رہے ہیں۔ ان کا یہ خوبصورت سفرنامہ جس کا ترجمہ نامور ناول نگار، افسانہ نگار، کالم نویس اور سابق بیوروکریٹ اقبال دیوان صاحب نے کیا۔ ایک تو کتاب موضوع کے اعتبار سے منفرد کہ اسرائیل کی سرزمین ایک سربستہ راز کی طرح پراسرار، پھر کسی آسمانی صحیفے کی مانند مقدس۔ اس پر طُرّہ یہ کہ مسلمانوں اور خصوصاً پاکستانیوں پر اس کے دروازے بھی بند۔ عام قاری تو کیا، اچھے بھلے پڑھے لکھے اور علم والے بھی ان اہم باتوں کو نہیں جانتے جنہوں نے مجھے حیرت زدہ کر دیا۔ جناب اقبال دیوان صاحب کے اُردو ترجمے کی بھی داد دینی پڑے گی کہ ڈاکٹر کاشف کے انگریزی نفس مضمون کو انہوں نے اردو کے ہیرے موتیوں سے سجا دیا۔
تو آئیے میرے ساتھ اور پڑھیے ڈاکٹر کاشف کو۔ پہلا سنسنی خیز انکشاف تل ابیب پہنچنے کے بعد اُن کے یہودی میزبانوں کے ہاں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر سارہ جو ڈاکٹر کاشف کی لندن میں کلاس فیلو، افریقہ میں پیشہ ور ساتھی اور اب تل ابیب میں ان کی میزبان ہے، کے شوہر سنگر جو مستند ربّی (یہودی پادری) تو نہیں مگر صاحب علم ضرور ہیں۔ ڈاکٹر کاشف اور سنگر کے درمیان جو گفتگو ہے، اُسے ذرا پڑھیے؛
'آخر مسجدِ اقصیٰ تم لوگوں کے ہوش و حواس پر کیوں اس بُری طرح طاری ہے؟' ڈاکٹر کاشف نے شرارتاً اسے چھیڑنے کے لیے پوچھا اور مزید کہا کہ 'ہم مسلمانوں نے تمہارے رونے اور گناہ معاف کرانے کے لیے ایک پوری دیوارِ گریہ چھوڑ دی ہے۔ تم اگر مسجدِ اقصیٰ کو چھوڑ دو تو مسلمانوں سے آدھی دشمنی تمہاری فوراً ختم ہو جائے گی'۔
'اس بارے میں ہمارا نقطہ نظر تم سے بہت مختلف ہے'۔ سنگر سکون سے ڈاکٹر کاشف کی طرف دیکھتے ہوئے بولے۔ 'دراصل ہماری مقدس کتاب تلمود (بمعنی ہدایات) میں لکھا ہے کہ موجودہ عہد کی کل معیاد ہمارے کیلنڈر کے حساب سے 6000 سال ہے۔ اس کے بعد ہمارے مسیحِ موعودؑ کو آنا ہے۔ اس وقت 5776 سال بیت چکے ہیں۔ اب کل 224 برس ہی اس وعدے کے پورے ہونے میں باقی ہیں۔ پھر ساری دنیا یہودی بن جائے گی۔ سلطنتِ داؤدؑ (Kingdom of David) دوبارہ اپنی آب و تاب سے قائم ہو جائے گی'۔
سوالات اور شبہات سے کلبلاتی سنگر کی گفتگو نے ڈاکٹر کاشف کو مضطرب کر دیا تھا۔ اس ضمن میں لکھتے ہیں کہ جب میری ملاقات سلسلہ شطّاریہ کے شیخ نائف سے ہوئی اور میں نے اُن سے اس بارے میں پوچھا تو ان کے ہاشمی چہرے پر ایک پُراسرار سی مسکراہٹ، جس میں حالات اور تجربے کا ٹھہراؤ اور گہرائی نمایاں تھی، پھیل گئی۔
'کبھی تم نے یہ سوچا'، وہ گویا ہوئے، 'کہ یہودی عین اسی مقام پر، جہاں ہماری مسجد اقصیٰ واقع ہے، اپنا ہیکلِ سلیمانی یعنی Temple of Zion تعمیر کرنے پر کیوں تلے ہوئے ہیں؟' میرے لیے اس سوال کی رفتار اور کاٹ کو سمجھنا چونکہ ممکن نہ تھا لہٰذا میں نے خاموشی کو بہتر جواب جانا۔ 'اللہ کی عبادت میرے مصطفیٰ بھائی، مسجد، چرچ، مندروں اور کلیساؤں یعنی Synagogues میں ہوتی ہے۔ یہودی اگر ہم سے یہ کہیں کہ ہم یہاں ایک چھوٹا سا اپنا کلیسا بنانا چاہتے ہیں تو ہم ان سے کوئی مناسب جگہ کی بات کرنے میں کوئی عار محسوس نہ کریں۔ یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ دنیا بھر میں مختلف مذاہب کی عبادت گاہیں ایک دوسرے کے پڑوس میں اور ساتھ ساتھ ہوتی ہیں۔ ہمارے گھر ساتھ ساتھ ہیں تو ہماری عبادت گاہوں کا ایک دوسرے کے پڑوس میں ہونا عین رواداری ہے'۔
مجھے یقین ہو گیا کہ شیخ نائف مجھے بہت آہستگی سے اسلامی تاریخ کے ایسے موڑ پر لے جا رہے ہیں جس کا بہت کم مسلمانوں کو، موجودہ سیاسی تناظر میں اور مغربی پروپیگنڈے کے غلبے کی وجہ سے درست ادراک ہے۔ 'دراصل ہیکلِ سلیمانی کی تعمیر کی پشت پر اقصیٰ القدیم اور جدید کی بربادی اور ایک خفیہ خزانے کی تلاش ہے'۔
'خزانہ اور مسجد کے نیچے'۔
'حضرت سلیمانؑ کے وقت میں یہاں اس علاقے میں، بابل اور نینوا تک کالے جادو اور فتنہ پرور خفیہ علوم کا بڑا فروغ ہو چکا تھا۔ یاد آیا کہ اس کا ذکر قرآن الکریم میں سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 102 میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے بڑی صراحت سے کیا ہے کہ سلطنتِ سلیمانؑ میں شیاطین کے پیروکار لوگوں کو جادو سکھاتے تھے۔ آپ چونکہ اللہ کے نبیؑ تھے لہٰذا آپ کو حکم دیا کہ وہ اس علاقے میں ایک آپریشن کلین اَپ کر کے ایسے تمام قدیم علوم کے خفیہ صحیفے اور ان کی معاونت میں استعمال ہونے والی اشیا کو قبضے میں لے لیں۔ اس کام میں مہارت رکھنے والے جادوگروں، عاملوں، ٹونے بازوں، جوتشیوں کو پہلے توبہ کا موقع دیا گیا۔ پھر جنہوں نے اللہ کا حکم نہ مانا اور نبیؑ سے بغاوت کی، ان کو کڑی سزائیں دی گئیں۔ آپ، یعنی حضرت سلیمانؑ نے یہ تمام اشیا، بشمول ان خفیہ صحیفوں کے، ایک جگہ اپنے محل میں دفنا دیں'۔
سنگر کے بیانیے میں مَیں نے ایتھوپین ربّی شائم آمنوں کا بھی تذکرہ کر دیا تھا جو جہاز میں میرا ساتھی تھا۔ لہٰذا جواب میں شیخ نائف کو اس کا حوالہ دینے میں کوئی دشواری نہ ہوئی، وہ کہنے لگے؛ 'تمہارا وہ مسافر ساتھی ٹھیک کہہ رہا تھا۔ یہ ساری شرارت یہودیوں میں شامل ان صیہونی طاقت ور گروہوں کی ہے جو ہر حال میں دنیا پر قابض رہنا چاہتے ہیں'۔
اب سوال کرنے کی باری میری تھی۔ 'لیکن یہ صیہونی بھی اپنے مذہبی جھکاؤ کے حساب سے تو بالآخر یہودی ہیں؟'
'ہر سیاسی تحریک کو ایک بہت بڑی جذباتی بیٹری اور روحانی چارجر کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ عوام کی اکثریت کو مذہب کے نام پر اس سے جوڑ کر رکھا جا سکے۔ بڑی سیاسی تحریکوں میں اگر مذہب سے جذباتی لگاؤ جوڑ کر نہ رکھا جائے تو وہ بہت جلد کمزور پڑ کر اپنی اہمیت کھو بیٹھتی ہیں۔ اس کا بڑا ثبوت آپ کو نازیوں کے ہاں ملتا ہے۔ انہوں نے مذہب کی ایک کمزور اور مسخ شدہ شناخت، یعنی آریائی نسلی برتری کو اپنے حامیوں کے گلے میں باندھ دیا تھا۔ خود تمہارے اپنے جنوبی افریقہ میں بائبل کے اُلٹے سیدھے حوالوں سے سفید فام نسلی امتیاز (Apartheid) کو مسلّط کرنے کی کوشش کی گئی۔ صیہونیت بھی اپنے اقتدار اور کنٹرول کے ایجنڈے کے نفاذ اور اپنے عزائم کو فروغ دینے کے لیے یہودی مذہب کا سہارا لیتی ہے'۔
'کیا ان کی جانب سے اس حوالے سے کبھی گفت و شنید کا بھی معاملہ آیا؟' میں نے پوچھا۔
'جی ہاں، کئی دفعہ، لیکن ہم انہیں بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ یہ ان کا محض دکھاوا ہے کہ دنیا کو وہ ایک پُرامن قوم کے طور پر اپنا چہر ہ دکھا سکیں۔ ایک صلح جُو قوم کا رُوپ جو اپنے تمام مسائل باہمی گفتگو کے ذریعے حل کرنا چاہتی ہے۔ دنیا کے مسلمانوں کی اکثریت پر چونکہ ان مقامات کی زیارت کے لیے اسرائیل آنے پر پابندی ہے لہٰذا وہ اپنے نشریاتی اداروں، بالخصوص الیکٹرانک میڈیا، اخبارات اور رسائل پر، جن کی اکثریت غیر مسلموں کی ملکیت ہے، بہت عیّاری سے Dome of the Rock (قبّتہ الصخرہ) کو بطور مسجد الاقصیٰ پیش کرتے ہیں'۔
اس میں کچھ قصور تو اقصیٰ کی اپنی سادگی کا بھی ہے جو دور سے کھینچی گئی تصاویر، بالخصوص ان تصاویر میں جو بلندی سے لی گئی ہوں، بے شمار مسلمان یہ جان ہی نہیں پاتے کہ سنہری گنبد سے دور ہٹ کر چپ چاپ کھڑی یہ سفید پلاسٹر والی اُداس سی ایک منزلہ عمارت ہی دراصل ان کا قبلہِ اوّل ہے'۔
'یہ علومِ مخفی اور جادو ٹونوں اور عملیات کے جن صحیفوں کا آپ نے ابھی تذکرہ فرمایا تھا ان میں سے کچھ اب تک کسی بے قرار کھوجی روح کو کسی کھدائی کے دوران یا اتفاقاً کہیں پڑے ہوئے ملے بھی ہیں؟'
'صلیبی جنگوں میں عیسائی افواج میں ایک ایسا فوجی دستہ بھی تھا جو خود کو Order of the Poor Knights of Christ کہتا تھا جنہیں ساری دنیا The Templar Knightsکے نام سے جانتی ہے۔ یہ ابتدا میں تعداد میں 8 تھے اور زائرین کی حفاظت کے لیے 1120 عیسوی میں فرانس سے آئے تھے۔ انہیں 9 سال بعد ایک فوجی دستہ بن کر رہنے کی اجازت مل گئی تھی۔ انہیں یروشلم کے حکمران بالڈوین ثانی نے ان کے سرپرست Warmund (جو فلسطین کا بڑا پادری تھا) کی سفارش پر اقصیٰ القدیم میں رہائش پذیر ہونے کی اجازت دے دی تھی'۔
'اہلِ اسلام اور اہلِ یہود جو یہاں آباد ہیں، ان میں سے بہت سے لوگوں کا اور کئی محقّقین کا خیال ہے کہ ان نائٹس کے ہاتھ کچھ ایسے صحیفے آ گئے تھے جن میں درج منتر دولت پر قابض جنّوں اور دیگر مخلوقات کو اپنا مطیع بنا لیتے تھے۔ یہی وہ نائٹس تھے جنہوں نے تاریخِ انسانی کا پہلا بینک قائم کیا'۔
'وہ کیسے؟'
'وہ ایسے کہ ان نائٹس نے یورپ بھر سے یہاں آنے والے زائرین میں یہ بات عام کر دی کہ دورانِ سفر رقم اور قیمتی اشیا لے کر آنا خطرے سے خالی نہیں۔ آپ ہمارے دفاتر اور نمائندوں کے پاس، جو تمام یورپ میں پھیلے ہیں، مطلوبہ رقم جمع کرائیں۔ وہ ایک متبادل پروانہ یعنی Bank Draft جاری کریں گے جو یروشلم میں پیش کیے جانے پر آپ کو، کمیشن نکال کر، مطلوبہ رقم کا حقدار ٹھہرائے گا۔ ان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی وجہ سے پوپ نے فرانس کے بادشاہ کی مدد سے انہیں برباد کر دیا'۔
جمعہ 13 اکتوبر 1307 عیسوی کو یہ سب ہوا تھا۔ یہ نائٹس ایک عرصے سے فرانس کی وزارتِ خزانہ سے منسلک تھے۔ ان کی بے جا مداخلت سے سارے یورپ کے حکمران پریشان رہتے تھے۔ یہ اپنے آپ کو اسٹیبلشمنٹ، کنگ میکرز، بین الاقوامی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف)، ورلڈ بینک، وزارتِ خزانہ اور جانے کیا کیا سمجھتے تھے۔ انہیں ہر طرح کے ٹیکس اور عدالتی معاملات سے استثنیٰ حاصل تھا۔ یہ اپنے معاملات کی انجام دہی میں صرف پوپ کے سامنے جواب دہ تھے۔ ایک زمانہ ایسا آیا کہ انہوں نے فرانس کے بادشاہ فلپ چہارم کی ہمشیرہ کی شادی اور جنگی اخراجات کے لیے ایک بڑی رقم بادشاہ کو اُدھار دی تو اسے ان کی دولت کا صحیح اندازہ ہوا۔ اس نے کچھ عرصے بعد ان کی دولت پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا جس میں اسے بڑی مہارت حاصل تھی۔ وہ سال بھر پہلے ہی یہودیوں کی فرانس میں دولت پر اسی طرح قابض ہو چکا تھا۔
'بادشاہ فلپ چہارم کو اپنے منصوبے پر عمل درآمد کا موقع اس وقت ملا جب اُسے وقت کے پوپ کلیمنٹ پنجم کا خط ان ٹمپلر نائٹس کی کرپشن اور بداعمالیوں کے بارے میں موصول ہوا۔ پوپ کی خواہش تھی کہ ایک آزاد تحقیقاتی کمیشن (جس میں اس کے اپنے نمائندے بھی شامل ہوں) جانچ پڑتال کر کے انہیں رپورٹ پیش کرے۔ اس کے برعکس پوپ کو اس وقت شدید دھچکا لگا جب فرانس کے طول و عرض میں اس کی فراہم کردہ لسٹوں کو سامنے رکھ کر بادشاہ کے حکم پر یہ سارے خفیہ نائٹس راتوں رات پکڑے گئے اور انہیں زندہ جلا دیا گیا'۔
'ان میں سے کچھ ٹمپلر نائٹس کو جب بادشاہ کے ظالمانہ عزائم کا علم ہوا تو وہ بہت خاموشی سے سکاٹ لینڈ فرار ہو گئے جو پوپ کے اثر و رسوخ اور پہنچ سے باہر تھا۔ وہاں پہلے سے ہی ایک سوسائٹی تھی جس میں راج معمار یعنی اینٹیں چُننے والے شامل تھے۔ انہیں Masons کہتے تھے۔ یہ بہت منفعت بخش کام تھا۔ انہیں اس میں مہارت بھی بہت تھی اور اس کا یہ معاوضہ بھی بہت لیتے تھے، اس لیے کہ وہاں بڑے کلیسا اور قلعے بنانے کا جنون تھا۔ اس سوسائٹی کے ممبران کے پاس بہت رقم تھی۔ یہ اپنے تعمیراتی رازوں میں بھی کسی کو شریک نہ کرتے تھے۔ جب یہ ٹمپلر نائٹس فرانس سے سکاٹ لینڈ پہنچے تو معماروں کا حال کچھ پتلا تھا۔ ان کی دولت بھی ختم ہو چکی تھی۔ اسی وجہ سے ان نائٹس کو اس سوسائٹی کا ممبر بننے کی اجازت دی گئی کیونکہ ان کی دولت اور میزبانوں کی ہنرمندی سے ایک نئی دنیا کو، جس میں پوپ اور مذہب کا عمل دخل نہ ہو، وجود میں لانا مقصود تھا۔ سوسائٹی کی ممبرشپ کھول دی گئی اور یہ نئے ممبرز 'فری میسن' کہلائے'۔
'قبّتہ الصخرہ اور مسجد الاقصیٰ کے بارے میں جس طرح یہ وثوق سے کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں قدیم ترین اسلامی عمارات ہیں اسی طرح دنیا کی قدیم ترین خفیہ تنظیموں میں فری میسن کا بھی شمار ہوتا ہے جو اب باقاعدہ مغربی مہذّب دنیا میں متبادل مذہب کا درجہ اختیار کر چکی ہے۔ اس کا بے ضرر مگر ڈھکا چھپا نعرہ یہ ہے؛ 'ہم اچھے انسانوں کو بہت بہتر انسان بناتے ہیں'۔ لیکن یہ ایک عرصے سے اقتدار کے بلند و بالا ایوانوں میں اپنے حلف یافتہ کارکن داخل کرتی رہتی ہے۔ میرے لیے حیرت کا صرف ایک نکتہ تھا کہ کیسے 8 ٹمپلر نائٹس کا گیارھویں صدی کا ایک چھوٹا سا حفاظتی دستہ ایک بڑے فوجی دستے کی صورت اختیار کر کے آج دنیا بھر کے تعلیمی، معاشی، سیاسی اور حربی اداروں میں اقتدار اور کنٹرول حاصل کر چکا ہے'۔
تو قارئین یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ میں نے اس کی صرف ایک چھوٹی سی جھلک پیش کی ہے۔ اسے 'سویرا' جیسے مایہ ناز ادبی جریدے کے مدیران اعلیٰ جناب سلیم الرحمٰن اور ریاض احمد چودھری صاحب نے بہت اہتمام اور خوبصورتی کے ساتھ شائع کیا ہے۔
سلمیٰ اعوان معروف افسانہ نگار اور ناول نویس ہیں۔ انہوں نے متعدد سفرنامے بھی تحریر کیے ہیں۔