ہم بہت بڑے بحران کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ میں پیشگوئی کر رہا ہوں کہ اگر اس بحران کو اسٹیبلشمنٹ یا عدلیہ کی طرف سے نہ روکا گیا تو جلد یا بدیر اسٹیبلشمنٹ ایمرجنسی کی طرف جائے گی۔ اگر عمران خان، کے پی حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ پیچھے نہ ہٹے، آپس میں کوئی سیٹلمنٹ نہ ہوئی اور معاملات ایسے ہی چلتے رہے تو ملک میں ایمرجنسی لگانی پڑے گی۔ ایمرجنسی کے ساتھ بھی حل نہیں ہو گا۔ اگر ہمارے سٹیک ہولڈرز اسٹیبلشمنٹ، پی ٹی آئی اور عدلیہ کی لیڈرشپ نہیں سدھرے گی تو صورت حال مارشل لاء کی طرف جائے گی۔ یہ کہنا تھا سینئر تجزیہ کار نجم سیٹھی کا۔
سماء نیوز کے پروگرام میں ملکی سیاسی عدم استحکام کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے نجم سیٹھی نے کہا کہ سیاسی عدم استحکام کو حل کرنا سب سے اہم ایجنڈا بن گیا ہے۔ بیرون ممالک، آئی ایم ایف اور ہمارے عوام سب اسی طرف دیکھ رہے ہیں کہ اس کا حل کیسے ہو گا۔ میرے مطابق یہ حل نہیں ہو گا۔ اگر سیاسی استحکام نہیں آئے گا تو اکنامک پروگرام نہیں چلے گا۔ کیونکہ ان لوگوں نے جو دوسرے ممالک اور آئی ایم ایف کے ساتھ وعدے کیے تھے کہ کوئی مسئلہ ہی نہیں، سب کچھ کنٹرول میں ہے۔ الیکشن ہو گئے ہیں۔ اب سب ٹھیک ہے۔ مسائل پیدا کرنے والے جیل میں ہیں۔ ہمارا مکمل کنٹرول ہے اور ہم بالکل نہیں رکیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے۔ کیونکہ میرے خیال میں پہلی بار عدلیہ ایک بغاوت کی سٹیج پر ہے۔ آج میں یہ لفظ استعمال کر رہا ہوں۔ میں متعدد بار ابتدائی پروگرامز میں کہہ چکا ہوں کہ عدم استحکام کو تقویت دینے والا سب سے بڑا محرک عدالتوں کی طرف سے آئے گا اور اس کی وجوہات بھی میں نے بتائی تھیں مگر کسی نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ ہائی کورٹ میں آئی ایس آئی کو براہ راست نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ ٹارگٹ کرنا ہی ہوا نا کہ سیکٹر کمانڈر کو بلائیں، ان سے یہ پوچھیں گے، وہ پوچھیں گے اور آج ہم یہ واضح کریں گے کہ ان کا اور ایجنسیوں کا کیا رول ہے؟ یہ کرتے کیا ہیں؟ ان کے پاس پیسے کتنے ہوتے ہیں؟ یہ ساری باتیں ملا کر ایک جج صاحب نے یہ سوال پوچھ لیا۔ جبکہ یہ غیر معمولی بات ہے۔ دنیا میں ہر جگہ ایجنسیاں ہمیشہ خفیہ ہوتی ہیں لیکن یہاں ہماری عدالتیں یہ کہہ رہی ہیں کہ آپ باہر آئیں، ہمیں دکھائیں کہ آپ ہو کون؟ کرتے کیا ہو؟ کیسے کرتے ہو؟ اتنے پیسے کہاں سے آتے ہیں؟ کیا بجٹ ہے؟ آپ کی رٹ کیا ہے؟ یہ سوال سیکرٹ ایجنسی سے نہیں پوچھے جاتے۔ مگر ہمارے ہاں پوچھے جا رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ ان باتوں سے خوش نہیں ہو سکتی کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کا رول ہمیشہ پس پردہ ہوتا ہے، کبھی سامنے نہیں ہوتا۔
ہماری عدالتیں اب ایک ایک کر کے فوج کو چیلنج کر رہی ہیں۔ کبھی بابر ستار صاحب، کبھی اطہر من اللہ صاحب تو کبھی محسن اختر کیانی صاحب فوج کو چیلنج کر دیتے ہیں۔ فوج کے خلاف ایک ایک کر کے عدلیہ کے لوگ کھڑے ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ چونکہ یہ سب سینئر ججز ہیں تو ان کی طرف سے چیلنج کیے جانے کا مقصد اسٹیبلشمنٹ کے معیشت، سیاست اور آئین پر اثرات کو کم کرنا ہے۔ یہ سب تباہی کے زون کی طرف جا رہا ہے۔ کیونکہ کوئی بھی اسٹیبلشمنٹ اس قسم کا چیلنج نہیں قبول کرتی۔ 70 سال ہو گئے انہوں نے ایک طریقے سے ڈیل کیا ہے۔ کوئی تھوڑی بہت لچک بھی دکھائی ہے کبھی اور کبھی نہیں دکھائی۔ جب ان کی لچک ختم ہو جاتی ہے تو وہ پھر براہ راست مداخلت کرتے ہیں۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
اسٹیبلشمنٹ میں اس وقت بہت زیادہ فرسٹریشن اور غصہ ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ ہم معیشت کو قومی مفاد میں چلانا چاہ رہے ہیں، ملک میں سیاسی استحکام لانا چاہ رہے ہیں اور ہمیں یہ نہیں کرنے دیا جا رہا بلکہ روکا جا رہا ہے اور روکنے والے دو ادارے ہیں؛ ایک عدلیہ اور دوسرا پی ٹی آئی۔ باقی تمام سیاسی جماعتیں ہمارے ساتھ ہیں لیکن یہ دو بنیادی طور پر ریاست کی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں۔ سٹیٹ کو کبھی ایسے چیلنج نہیں کیا گیا۔ بھٹو صاحب اور نواز شریف صاحب نے بھی نہیں ایسے چیلنج کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب بھی بھٹو صاحب یا نواز شریف صاحب اسٹیبلشمنٹ کو تھوڑا بہت چیلنج کرتے ہیں تو عدالتیں ان کے ساتھ نہیں کھڑی ہوتیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہوتی تھیں تو وہ فارغ ہو جاتے تھے۔ اس دفعہ صورت حال بدل چکی ہے اور یہ دن بدن اور بگڑے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم ایک بہت ہی خطرناک مقام کی طرف چل پڑے ہیں جہاں نہ گروتھ ہو گی، نہ آئی ایم ایف رہے گا، نہ سعودی عرب آئے گا اور نہ دبئی۔
انہوں نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ کیا یہ کشمکش رک سکتی ہے؟ کیا اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ یا عمران خان تھوڑا پیچھے ہٹیں گے؟ خان صاحب پیچھے ہٹتے نظر نہیں آ رہے۔ جس موڈ میں عدلیہ ہے وہ ہر روز ایک قدم آگے بڑھ رہی ہے۔ ادھر سے اسٹیبلشمنٹ میڈیا اور انفارمیشن کے خلاف ایک قانون لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ وہ لوگوں کو روکنے کے لیے کریک ڈاؤن کر رہی ہے۔
نجم سیٹھی نے کہا کہ مجھے خوف ہے کہ ہم ٹکراؤ کی طرف جا رہے ہیں۔ ججز کے خط کے بعد رانا ثناء اللہ کا فارمولا تھا کہ عدالت کے باہر حل کیا جائے، وہ بھی کامیاب نہیں ہوا کیونکہ ججز نہیں مانے۔ ایک طرف یہ بھی پروپوزل آ رہے ہیں کہ عمر کی حد بڑھا کر 68 سال کر دی جائے۔ اس سے کچھ لوگوں کو توسیع مل جائے گی لیکن اس سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ اس وقت عدالتوں میں پی ٹی آئی کے حامی بینچ نہیں بن رہے۔ اب جو بینچز بن رہے ہیں وہ انڈیپینڈنٹ ہیں اور وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھڑے ہو گئے جس سے پی ٹی آئی کی ہی سپورٹ ہو رہی ہے۔ کیونکہ فیصلے تو پی ٹی آئی کے حق میں ہی جا رہے ہیں جس پر ن لیگ بہت تلملا رہی ہے۔
ججز کو روکنے کے لیے اور عوام میں اس وقت آزادی کی جو خواہش ہے اور پی ٹی آئی جس کو پکار رہی ہے اس کو روکنے کے لیے ایمرجنسی لگانی پڑے گی خواہ وہ معاشی ایمرجنسی ہو یا کوئی مخصوص ایمرجنسی۔ جب ایمرجنسی لگے گی تو بہت سی پابندیاں لگ جائیں گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر مسئلہ ابھی حل نہیں ہو رہا تو ایمرجنسی کے ساتھ بھی حل نہیں ہو گا۔ کیونکہ ایمرجنسی کے باوجود عدلیہ کی آزادی کے اوپر پابندی کے باوجود ان کے کچھ اختیارات رہ جاتے ہیں۔ ان کے پاس ایمرجنسی سٹرائک ڈاؤن کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ مسئلہ پھر کیسے حل ہو گا؟ ایک ہی صورت ہوتی ہے جہاں جوڈیشری کو فارغ کردیا جاتا ہے۔ قانون اپنے ہاتھ میں لے لیا جاتا ہے اور وہ قانون کوئی اور قانون ہوتا ہے اور آئینی بھی نہیں ہوتا۔ وہ پروویژنل کانسٹیٹیوشن آرڈر ہوتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہمارے سٹیک ہولڈرز اسٹیبلشمنٹ، پی ٹی آئی اور عدلیہ کی لیڈرشپ اگر نہیں سدھریں گے تو پھر صورت حال مارشل لاء کی طرف جائے گی۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ نہیں جی یہ تو ہو ہی نہیں سکتا، انٹرنیشنل کمیونٹی نہیں مانے گی۔ اس پر میں صرف ایک بات کہوں گا کہ اس وقت انٹرنیشنل کمیونٹی کا فیورٹ چائلڈ ایس آئی ایف سی ہے۔ انٹرنیشنل کمیونٹی اس وقت چاہتی ہے کہ پاکستان جیسے نیوکلئیر ملک میں استحکام ہو اور ڈیفالٹ نہ کرے اور اس کے لیے وہ ہر طرح کے اقدام کو سپورٹ کرے گی۔