سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کو عام انتخابات 2024 میں حصہ لینے کی اجازت دے دی۔
سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس جمال مندو خیل اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے پی ٹی آئی صدر چوہدری پرویز الہٰی کے کاغذات نامزدگی مسترد کیے جانے کے خلاف اپیل پر سماعت کی جس کے دوران ان کے وکیل فیصل صدیقی عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے۔
عدالت نے الیکشن ٹریبونل کا سابق وزیر اعلیٰ کے کاغذات نامزدگی مسترد کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 32 گجرات سے انتخابات کی اجازت دی۔ عدالت نے پرویز الٰہی کا نام اور انتخابی نشان بیلٹ پیپرز چھاپنے کا حکم جاری کردیا۔ عدالتی فیصلے کے بعد پرویز الٰہی نے دیگر تمام انتخابی حلقوں سے دستبرداری اختیار کرلی۔
دوران سماعت پرویز الہیٰ کے وکیل فیصل صدیقی نے مؤقف اختیار کیا کہ ہمیں ابھی تک ریٹرننگ افسر کا مکمل آرڈر بھی نہیں ملا۔ کاغذات نامزدگی پر یہ اعتراض عائد کیا گیا کہ ہر انتخابی حلقے میں انتخابی خرچ کے لیے الگ الگ اکاؤنٹ نہیں کھولے گئے۔ پرویز الہیٰ 5 حلقوں سے انتخابات لڑ رہے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ قانون میں کہاں لکھا ہے کہ 5 انتخابی حلقوں کے لیے 5 الگ الگ اکاؤنٹس کھولے جائیں۔ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ اگر انتخابی مہم میں حد سے زائد خرچہ ہو تو الیکشن کے انعقاد کے بعد اکاؤنٹس کو دیکھا جاتا ہے۔ کاغذات نامزدگی وصول کرنے والے دن پولیس نے گھیراؤ کر رکھا تھا۔ جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ان باتوں کو چھوڑیں قانون کی بات کریں۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
وکیل نے بتایا کہ ایک اعتراض یہ عائد کیا گیا کہ پنجاب میں 10 مرلہ پلاٹ کی ملکیت چھپائی۔ اعتراض کیا گیا 20 نومبر 2023کو 10 مرلہ پلاٹ خریدا۔ میرے موکل نے ایسا پلاٹ کبھی خریدا ہی نہیں۔ اس وقت وہ جیل میں تھے۔ ہماری دوسری دلیل یہ ہے کہ اثاثے ظاہر کرنے کی آئندہ کٹ آف ڈیٹ 30 جون 2024ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ہم نے الیکشن ایکٹ کی اس انداز میں تشریح کرنی ہے تاکہ لوگ اپنے حق سے محروم نہ ہوں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جائیدادیں پوچھنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ معلوم ہو امیدوار کے جیتنے سے قبل کتنے اثاثے تھے اور بعد میں کتنے ہوئے۔ آپ پلاٹ کی ملکیت سے انکار کر رہے ہیں تو ٹھیک ہے۔
وکیل نے کہا کہ حیرت انگیز طور پر ایک ہی وقت میں پرویز الٰہی، مونس الٰہی اور قیصرہ الٰہی کی اَن ڈکلئیرڈ جائیداد نکل آئی۔ آر او نے ہمیں فیصلہ بھی نہیں دیا کہ کہیں چیلنج نہ کر لیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ تو خوش قسمت ہیں کہ اچانک آپ کی اضافی جائیداد نکل آئی ہے۔ آپ یہ اضافی جائیداد کسی فلاحی ادارے کو دے دیں۔ وکیل نے کہا کہ میں تو کہتا ہوں حکومت کو اس جائیداد پر اعتراض ہے تو خود رکھ لے۔
وکیل نے کہا کہ ہم الیکشن میں تاخیر نہیں چاہتے۔ میرے موکل کو پی پی 32 گجرات کی حد تک الیکشن لڑنے کی اجازت دی جائے۔
دوران سماعت جسٹس جمال خان مندوخیل نے مخالف امیدوار ارسلان سرور کے وکیل حافظ احسان کھوکھر سے استفسار کیا کہ 10 مرلہ پلاٹ کے کاغذ تک آپ کو کیسے رسائی ملی۔ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ 10 مرلہ پلاٹ کی دستاویز پٹواری سے ملی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں نگران حکومت اس میں ملوث ہے؟ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہمیں اس پٹواری کا نام بتائیں۔
بعد ازاں سماعت مکمل ہونے پر عدالت نے دونوں جانب سے دلائل سننے کے بعد پرویز الٰہی کو صوبائی ا سمبلی کے حلقہ پی پی 32 گجرات سے الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی۔