بلوچستان میں 45 ہزار گھوسٹ ملازمین، افغان شامل
2016 میں چیف سیکرٹری سیف اللہ چھٹہ کی جانب سے تشکیل کمیٹی کی رپورٹ کے باوجود تصدیقی عمل التوا کا شکار
2 سال بعد بھی کارروائی نہ ہو سکی، رپورٹ نیب، اینٹی کرپشن اور دیگر اداروں کو بجھوائی جا چکی، سب خاموش ہیں
نشاندہی پر 15 ہزار بوگس پنشنرز غائب، ملوث افسران جرمانے جمع کرانے سے گریزاں، بدستور اعلیٰ عہدوں پر براجمان
بلوچستان میں گھوسٹ ملازمین کا سراغ لگانے کیلئے 2016 میں چیف سیکرٹری سیف اللہ چھٹہ کی جانب سے تشکیل کمیٹی کی رپورٹ کے باوجود بلوچستان کے 45 ہزار ملازمین کے شناختی کارڈ کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ ملازمین میں بڑی تعداد افغان مہاجرین کی بھی شامل ہے۔ 2 سال گزرنے کے باجود کوئی کارروائی عمل میں نہ آ سکی۔ کمیٹی نے رپورٹ نیب، اینٹی کرپشن اور دیگرمتعلقہ اداروں کو بجھوائی لیکن سب خاموش ہیں۔ گھوسٹ ملازمین کی سرپرستی کرنے والے طاقتور مافیا نے مفادات کے خلاف کام کرنے والے ایک چیف سیکرٹری کو راتوں رات تبدیل کرا دیا۔ کئی افسران انتقامی کارروائیوں کی زد میں آئے لیکن دو سال گزرنے کے باوجود ملازمین کے خلاف کارروائی نہ ہو سکی۔ کمیٹی نے بوگس پینشنرز کی بھی نشاندہی کی تھی جس کے باعث 15 ہزار کے قریب بوگس پنشنرز غائب ہو گئے ہیں جو بیس بیس سال سے پینش وصول کر رہے تھے۔ کیس میں ملوث سرکاری افسران اور اہلکاروں کو کروڑوں روپے کے جرمانے کیے گئے جو انہوں نے آج تک جمع نہیں کرائے۔ اب اعلیٰ عہدوں پر تعینات ہیں۔ انتہائی باوثوق ذرائع کے مطابق بلوچستان میں گھوسٹ ملازمین کی سرپرستی کرنے والے مافیا میں انتہائی طاقتور اور بااثر لوگ شامل ہیں۔ صحیح معنوں میں تحقیقات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے سے کم از کم 30 ہزار کے قریب بوگس ملازمین کی شناخت ہو سکتی ہے جن کے خلاف کارروائی کی جائے تو صوبے کے کروڑوں روپے بچ سکتے ہیں جو گھوسٹ ملازمین کی تنخواہوں کی مد میں ادا کیے جا رہے ہیں۔ بلوچستان کو درپیش مالی بحران میں کافی حد تک کمی ہو سکتی ہے، لیکن موجودہ حکومت بھی سنجیدہ نظر نہیں آتی۔ نگران دور حکومت میں ہونے والی بھرتیوں کی تحقیقات کے حوالے سے بنائی کمیٹی کا بھی صرف ایک اجلاس ہو سکا ہے اور وہ بھی صرف تعارف کی حد تک تھا۔ واضح رہے کہ نگران دور میں صرف دس دنوں میں پانچ ہزار کے قریب لوگ سرکاری محکموں میں بھرتی ہوئے تھے۔ ذرائع نے بتایا کہ بوگس ملازمین کے حوالے سے رپورٹ نیب اینٹی کرپشن سمیت دیگر متعلقہ اداروں اور محکموں کو بھی بجھوائی گئی لیکن ان اداروں کی جانب سے آج تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی جو اپنی جگہ سوالیہ نشان ہے۔
کوئٹہ، لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے ریلی، انتظامیہ نے روک لیا
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز اور بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے زیر اہتمام احتجاج، لاپتہ افراد کے عزیزوں کی شرکت، شرکا کا دھرنا
پیاروں کی جبری گمشدگی سے ذہنی اذیت کا شکار ہیں (بشیر، عامربلوچ) لاپتہ افراد کا مسئلہ انسانی ہے، نصراللہ بلوچ و دیگر مقررین
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز اور بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے زیر اہتمام لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے ریلوے سٹیشن سے احتجاجی ریلی نکالی گئی جس میں لاپتہ افراد کے لواحقین نے شرکت کی، بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتوں طلبہ تنظیموں، انسانی حقوق کے اداروں اور سول سوسائٹی کی کثیر تعداد موجود تھی۔ شرکا کو بلوچستان ہائیکورٹ کے سامنے پہنچے پر انتظامیہ نے روک لیا اور ایرانی قونصلیٹ کے سامنے رکاوٹیں بھی کھڑی کر دی گئیں جہاں شرکا نے دھرنا دیا۔ اس موقع پر بشیر بلوچ، عامر بلوچ و دیگر کا کہنا تھا کہ پیاروں کی بازیابی کیلئے بلوچستان کے دور دراز کے علاقوں سے آئے ہیں، اگر ہمارے پیاروں پر کوئی الزام ہے تو عدالت میں پیش کیا جائے۔ بی این پی کے رہنما حاجی لشکری رئیسانی، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ، بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کی بی بی گل بلوچ، ماما قدیر بلوچ و دیگر نے شرکا س خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ انسانی ہے، لواحقین پیاروں کی عدم بازیابی کی وجہ سے ذہنی اذیت میں مبتلا ہیں، کئی سالوں سے پیاروں کی بازیابی کیلئے پر امن احتجاج کر رہے ہیں مگر حکمران مسئلے میں انسانی مسئلے کو نظرانداز کر رہے ہیں۔ لاپتہ افراد کے لواحقین صبح 11 بجے سے لیکر شام تک بلوچستان ہائیکورٹ کے سامنے دھرنا دیکر احتجاج کر رہے ہیں مگر صوبائی حکومت کے کسی نمائندے نے احتجاجی ریلی تک آنا گوارا نہیں کیا جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ وفاقی حکومت کوچاہیے کہ وہ لاپتہ افرا کا مسئلہ حل کریں ورنہ آئندہ ہفتے کو سیاسی، طلبہ تنظیموں اور سول سوسائٹی کے ہمراہ وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے دھرنا دیں گے۔
بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی مشکل کام نہیں، رہنما جے یو آئی ف
عبدالقدوس بزنجو ہمارے پاس آ گئے تو کام آسان ہو جائے گا
اچھے کام میں حکومت کا ضرور ساتھ دینگے، ملک سکندر خان
بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن رکن اور جمعیت علمائے اسلام کے پارلیمانی لیڈر ملک سکندر خان نے کہا کہ ہمارا بلوچستان حکومت تبدیل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے تاہم اگر قدوس بزنجو ہمارے پاس آ گئے تو حکومت تبدیل کرنا کوئی مشکل مرحلہ نہیں ہوگا۔ تاہم پہلے دن سے ہی بلوچستان حکومت کے سامنے اپوزیشن نے اپنا واضح مؤقف رکھا ہے کہ اچھے کاموں میں انکا بھرپور ساتھ دیں گے۔ رکن صوبائی اسمبلی ملک سکندر نے کہا کہ حکومت منفیت کی بنیاد پر بنی ہے۔ صوبے کے عوام کی خدمت پر اپوزیشن نے بھرپور ساتھ دینے کا وعدہ کیا۔ سی پیک کے معاملے پر بھی یہی کہا کہ معاہدوں میں بلوچستان کی نمائندگی بہت ضروری ہے۔ جہاں تک سپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو کی ناراضگی کی بات ہے اگر وہ ہماری جانب آتے ہیں تو اس سے اپوزیشن کو بہت فائدہ ہوگا اور اس کے بعد بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی مشکل نہیں ہوگی کیونکہ وہ اپنے ساتھ 6 دوستوں کو بھی لے آئیں گے جو ہمارے لئے اچھی بات ہے۔
بلوچستان کے سرکاری ملازمین کی سکریننگ و سیکورٹی کلیئرنس کا فیصلہ
مارے جانے والے دہشتگردوں سے بلوچستان کے سرکاری ادارے کے کارڈز برآمد ہونے پر کھلبلی مچ گئی
سرکاری کارڈز کی مدد سے دہشتگرد بغیر کسی روک ٹوک بلوچستان سے کراچی تک کا سفر کرتے رہے
لمبی لڑائی کا ارادہ، کھانے کیلئے چنے، زخمی ہونے کی صورت میں طبی امداد کا سامنا بھی ساتھ لائے تھے
سرکاری اداروں میں موجود عسکریت پسند ذہن رکھنے والے ملازمین کی نشاندہی کیلئے اقدامات شروع
چینی قونصل خانے پر حملے کے بعد بلوچستان کے سرکاری اداروں میں ملازمین کی سکریننگ اور سکیورٹی کلیئرنس کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں تحقیقاتی ذرائع کا کہنا ہے کہ کلفٹن میں چینی قونصل خانے پر کیے جانے والے دہشت گرد حملے میں پولیس اور رینجرز کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں مارے جانے والے دہشتگردوں کے کوائف کی جانچ کے دوران انکشاف ہوا ہے کہ مارے جانے والے دہشتگردوں کے پاس اہم سرکاری ادارے کے شناختی کارڈ بھی موجود تھے۔ دہشتگرد سرکاری ادارے کے کارڈ کی مدد سے بغیر کسی روک ٹوک بلوچستان سے کراچی تک کا سفر کرتے رہے۔ دہشتگردوں کو کسی چیک پوائنٹ پر روکا جاتا تو وہ سرکاری ادارے کا کارڈ دکھا کر نکل جاتے۔ دہشتگردوں کے قبضے سے سرکاری کارڈ ملنے کے بعد بلوچستان کے سرکاری اداروں میں ملازمین کی سکریننگ اور سکیورٹی کلیئرنس کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ دیکھا جا سکے کہ سرکاری اداروں میں عسکریت پسند ذہن رکھنے والے ملازمین کس حد تک موجود ہیں۔ زرائع کا کہنا ہے کہ چینی قونصل خانے پر حملے کیلئے آنے والے دہشتگرد مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ کراچی آئے تھے اور لمبے وقت تک لڑائی کا ارادہ رکھتے تھے۔
صوبائی کابینہ کا اجلاس، بینک آف بلوچستان کے قیام، 2 اتھارٹیز کا کنٹرول محکمہ خزانہ کے سپرد کرنے کی منظوری
دیامر بھاشا ڈیم فنڈ کیلئے عطیات سیلز ٹیکس س مستثنیٰ، محکمہ خزانہ کا سپیشل سپورٹ پروگرام کے قیام کا ڈرافٹ پیش، اعلیٰ سطح کے تقرروں کا اختیار سیکرٹری صحت کو تضویض
سیاحتی سرگرمیوں کیلئے ٹریول ایجنسیز رولز منظور، فاطمہ جناح ہسپتال میں انسٹیٹیوٹ آف چیسٹ ڈیزیز کا بل منظور کرانے کا فیصلہ، گڈ گورننس اولین ترجیح ہے، جام کمال
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کی زیر صدارت وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ میں صوبائی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں ایجنڈے میں شامل مختلف امور کا تفصیلی جائزہ لے کر متفقہ فیصلے کیے گئے۔ صوبائی کابینہ نے محکمہ خزانہ کی جانب سے بینک آف بلوچستان کے قیام سے اتفاق کرتے ہوئے بینک کے قیام کی فیزیبلٹی رپورٹ تیار کرنے کی منظوری دے دی۔ بلوچستان ریونیو اتھارتی اور بلوچستان پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی کی خودمختار حیثیت برقرار رکھتے ہوئے انتظامی کنٹرول محکمہ خزانہ کو دینے کیلئے رولز آف بزنس میں تبدیلی کی منظوری دی گئی۔ صوبائی کابینہ نے سپریم کورٹ آف پاکستان دیامر بھاشا ڈیم فنڈ کیلئے عطیات کو بلوچستان سیلز ٹیکس برائے فراہمی خدمات سے مستثنٰی کرنے کی منظوری بھی دی۔ محکمہ خزانہ کی جانب سے کابینہ کو مجوزہ سپیشل سپورٹ پروگرام کے قیام کا ڈرافٹ پیش کیا جس میں کھیل اور سماجی شعبوں کو حکومت کی خصوصی معاونت، مستحق اور باصلاحیت طلبہ کو تعلیمی وظائف کی فراہمی میں مالی معاونت کی فراہمی شامل ہے۔ صوبائی کابینہ نے ڈرافٹ کی منظوری دیتے ہوئے اسے مزید مفصل اور جامع بنانے کی ہدایت کی۔ کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ وہ تمام امور جن میں فنڈز کا اجرا شامل ہوگا منظوری کیلئے کابینہ کی سب کمیٹی میں جائیں گے جن میں ایس اینڈ ای اور نئے الاؤنسز کا اجرا بھی شامل ہے۔ کابینہ نے محکمہ مواصلات میں مبینہ طور پر بوگس بھرتیوں کا معاملہ بھرتیوں کے حوالے سے قائم کابینہ کی سب کمیٹی کے سامنے پیش کرنے کا فیصلہ کیا جو ان بھرتیوں کے عمل اور افراد کی دستاویزات کا جائزہ لے گی۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا کہ بلوچستان کو ماضی میں استعدادکار میں کمی کے حوالے سے تنقید کا سامنا رہا ہے۔ عوام کو موجودہ حکومت سے بہت سی توقعات ہیں لیکن اگر ہم کارکردگی نہ دکھا سکے تو عوام کو مایوسی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے گذشتہ ادوار سے ہٹ کر کام کرنا اور ڈلیور کرنا ہے، بالخصوص گڈ گورننس ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے تبھی گذشتہ حکومتوں اور موجودہ حکومت میں فرق ثابت ہوگا۔