’سکول سٹرائیک فار کلائمیٹ‘ کرہ ارض کو اپنی لپیٹ میں لے لینے والی تحریک بنتی جا رہی ہے

’سکول سٹرائیک فار کلائمیٹ‘ کرہ ارض کو اپنی لپیٹ میں لے لینے والی تحریک بنتی جا رہی ہے
15 مارچ 2019 کو دنیا بھر میں " سکول سٹرائیک فار کلائمیٹ" کے نام سے ایک عالمی احتجا ج ہوا۔ کلائمیٹ ایکشن کے متعلق اب تک دنیا کا یہ سب بڑا احتجاج تھا جو 123 ممالک کے مختلف شہروں میں ہوا۔ 15 مارچ جمعے کے دن دنیا بھر میں سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹی کے طلبہ نے اپنی کلاسز چھوڑ کر سڑکوں پر نکل آئے اور موسمیاتی تبدیلی پر فوری ایکشن لینے کا مؤقف پوری دنیا کے سامنے رکھ دیا۔



یاد رہے کہ " سکول سٹرائیک فار کلائمیٹ" کی بنیاد سویڈن کی 16 سالہ گریٹا تنبرگ نے اگست 2018 میں رکھی تھی۔ پچھلے سال اگست میں جمعے کے دن گریٹا نے اپنے سکول سے نکل کر فیصلہ کیا کہ وہ ہر جمعے کلاسز چھوڑ کر کلائمیٹ چینج پرایکشن لینے کے حوالے سے سویڈن پارلیمنٹ کے سامنے اپنا احتجاج جاری رکھے گی۔

سویڈن پارلیمنٹ کے سامنے گریٹا کا احتجاج چند ہی دنوں میں لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا اور جلد ہی دوسرے سکول کے بچوں اور سماجی کارکنوں نے اس احتجاج میں اُس کا ساتھ دینا شروع کر دیا۔ اس احتجاج کا مقصد سویڈن کے سیاستدانوں کو کلائمیٹ چینج پرفوری ایکشن لینے اور موسموں میں تیزی سے بڑھتی ہوئی تبدیلی سے ماحول کو تحفظ دینا تھا۔



گریٹا کا کہنا تھا کہ اگر سیاستدان اس مسئلے کو اہم نہیں سمجھتے اور اس کا حل نہیں نکال سکتے تو تمام سیاستدان دنیا کی تاریخ میں بد ترین ولن ثابت ہوں گے۔

ابتدا میں ہی سکول سٹرائیک فار کلائمیٹ احتجاج کو دنیا میں کلائمیٹ چینج کارکنان نے سپورٹ کیا اور 8 مہینے بعد یعنی 15 مارچ 2019 کوایک عالمی احتجاج میں تبدیل ہوا۔ امریکہ، آسٹریلیا، یو کے، جاپان، بیلجیم، جرمنی سمیت دنیا کے تقریباً 123 ممالک میں سکولوں کالجوں اور یونیورسٹی کے طلبہ نے اپنی کلاسز چھوڑ کر اس احتجاج میں حصہ لیا۔



دی گارڈین کے مطابق دنیا بھر میں 5۔1 ملین لوگوں نےاس احتجاج میں حصہ لیا۔

اس احتجاج کی ایک انوکھی بات یہ بھی تھی کہ نوجواںوں نے سیاستدانوں اور پالیسی سازوں کو واضح تنبیہہ کی کہ انہیں پڑھنے کی نصیحتیں نہ کریں اور کلائمیٹ پر ایکشن لیں، "اگر آپ کاربن کے اخراج کو نہیں روک سکتے تو پارلیمنٹ چھوڑ دیں"۔ نوجواںوں نے پالسی میکرز کو پیرس اگریمنٹ کے مطابق کاربن کے اخراج میں کمی لانے پر زور دیا۔

بہت سے نوجوانوں نے مختلف ملٹی نینشنل کمپنیوں کے خلاف بھی بات کی، اور تیزی سے بڑھتے ہوئے موسمی تغیرات کے ذمہ داروں کو سخت الفاظ سے پکارا، نوجوانوں کے کارڈز پر "تم ہمارے مستقبل کو تباہ کر رہے ہو"، "یہ دنیا ہماری ہے اسے واپس سرسبز کر دو" وغیرہ لکھا تھا۔



اس احتجاج کو "فرائڈے فار فیوچر"، " سکول سٹرائیک فار کلائمیٹ" "یوتھ سٹرائیک فار کلائمیٹ"، "یوتھ فار کلائمیٹ" کے ہیش ٹیگ کے ساتھ پوری دنیا میں ٹویٹر پر لوگوں نے سپورٹ کیا۔ اب تک یہ کلائمیٹ چینج کے حوالے سے پوری دنیا میں ایک بڑا احتجاج تصور کیا جاتا ہے۔ یاد رہے اس سے پہلے 2015 میں بھی کلائمٹ سٹرائیک کے نام سے احتجاج ہوا تھا جس میں دنیا کے بہت سے مما لک کے نوجوانوں نے حصہ لیا تھا۔

سکول سٹرائیک فار کلائمیٹ کو دنیا کے مختلف ٹی وی چینلز، ریڈیو، ویب سائٹس اور اخباروں نے جگہ دی لیکن اسی دن نیو زیلینڈ میں دہشت گردی کے واقعے نے اس خبر کو مین سٹریم میڈیا سے دور کر دیا۔



گریٹا کا نام نوبل امن ایوارڈ کے لئے بھی پیش کیا گیا ہے۔ گریٹا کا اس احتجاج کی طرف رجحان تب ہوا جب امریکہ کے شہر پارک لینڈ میں ایک بندوق بردار شخص نے سکول میں تقریباً 17 طلبہ کو ہلاک کیا۔ اس واقعے کے بعد اسی سکول کے طلبی سمیت دوسرے 20 طلبہ نے اسلحے کے خلاف ایک تحریک شروع کی جس کا مقصد اسلحے کے قوانین کو بدلنا تھا۔ یاد رہے کہ یہ تحریک بھی پوری دنیا میں "نیور اگین" اور "اینف از اینف" کے ہیش ٹیگ کے ساتھ ٹویٹر پر لوگوں میں مقبول ہوئی تھی۔



کلائمیٹ چینج ایک حقیقت ہے اور دنیا کیلئے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے۔ دنیا کے مختلف سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ موسموں میں تیزی کی ساتھ تبدیلی رونما ہو رہی ہے اور اگر اس کو بروقت نہ روکا گیا تو اس کے اثرات دنیا میں ہر ذی روح کو تباہ کر سکتے ہیں۔ حال ہی میں سائنٹیفک امریکن میگزین کی ایک رپورٹ کے مطابق ٹمپریچر کے بڑھنے سے لوگوں کی صحت پراثرات پڑ رہے ہیں اور وارمنگ ٹمپریچر اور گرم ہوا سے مختلف بیماریاں پھیل رہی ہیں۔

اقوام متحدہ نے بھی 2018 میں دنیا کیلئے سب سے بڑا خطرہ کلائمیٹ چینج قرار دیا ہے۔

کاربن کے زیادہ اخراج کے خلاف کئی دہائیوں سے مختلف فورمز پر بات ہو رہی ہے۔ دنیا میں کاربن کےاخراج کو کم کرنے کیلئے مختلف عالمی معاہدے بھی ہوئے ہیں، لیکن پیرس اگریمنٹ سمیت ابھی تک وہ تمام معاہدے صرف کاغذی کارروائیوں تک محدود ہیں۔

یاد رہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے کم کاربن پیدا کرنے والے ملکوں میں ہوتا ہے لیکن گلوبل کلائمیٹ رسک انڈکس کے مطابق پاکستان دنیا کے اُن 10 ممالک کی فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے جو کلائمیٹ چینج کی وجہ سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔



پاکستان کا شمار ان تین ملکوں میں بھی ہوتا ہے جن میں نوجواںوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں کلائمیٹ چینج کے متعلق نوجوان کتنے باخبر ہیں اور موسمی تغیرات سے نوجوانوں کو کن مشکلات کا سامنا ہے؟ اس کا اندازہ ہمیں حال ہی میں ماحولیا کی وزیر زرتاج گل بی بی کے ایک بیان سے واضح ہوا جس میں وہ کہہ رہی ہیں کہ اس سال پاکستان میں بارش اور برفباری اس لئے زیادہ ہوئی کیونکہ ملک میں ایماندار وزیراعظم ہے۔ ایسے بیانات سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ اس ملک میں ماحول کی تحفظ کے حوالے سے کس طرح کی پالیسیاں بن رہی ہیں اور کس طرح سے ان پر عمل کیا جا رہا ہے۔



پاکستان میں حالیہ موسمی تبدیلی جیسی حقیقت کے حوالے سے متعلقہ منسٹر کا یہ بیان اُن تمام بے خبر نوجوانوں اور بچوں کے مستقبل کیلئے ایک خوفناک آئینہ ہے۔

آصف مہمند کا تعلق پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا سے ہے۔ وہ ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہیں اور کلائمیٹ چینج اور دیگر ماحولیاتی موضوعات سے متعلق لکھتے ہیں۔