ایک بات تو ہمیں برسوں کی طرح اس بار بھی پلے باندھ لینی چاہئیے کہ بین الاقوامی طور پر دو ممالک کی دوستی محض ایک دوسرے کی ضروریات کا لحاظ رکھنے کے لئے ہوتی ہے۔ اس کے سوا جو بھی ہے محض نمائشی ہے۔ دنیا کی ہر سلطنت، ہر ریاست اور ملک دوسرے فریق کے ساتھ اُس وقت تک برادرانہ، دوستانہ تعلقات استوار رکھنے کی کوششں کرتے ہیں جب تک ان کے مفادات کسی دوسرے ملک کے ساتھ جڑے ہیں۔
یہ بات بھی ذہن نشین ہونی چاہئیے کہ دنیا میں کوئی بھی ملک دوسرے ملک کا اذلی دشمن یا اذلی دوست نہیں ہو سکتا۔ چاہے اس کی مثال چین اور امریکہ کی دیکھ لو، کبھی کبھار ہندوستان اور پاکستان کی یا پھر روس، پاکستان اور امریکہ کی۔
ضیاء دور میں جہاد سرفہرست رہا ہے جہاں ایک کافر ملک (امریکہ) دوسرے کافر ملک (سوویت یونین) کو مٹانے کے لیے ایک مسلمان ملک (پاکستان) کی مدد کر کے ایک اور مسلمان ملک (افغانستان) کی سرزمین پر لشکر کشی کر رہا تھا۔ اسے پاکستان جہاد سمجھتا تھا اور امریکہ روس کی شکست۔
خیر روس کی شکست ہوئی۔ امریکہ عالمی قوت بن گیا۔ پھر امریکہ نے پاکستان سے 'Do More' کا مطالبہ شروع کر دیا۔ وقت گزرتا رہا اور ہمیں معلوم ہوتا چلا گیا کہ امریکہ اور پاکستان کے مابین تعلقات خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمیں یہ خیال نہیں تھا کہ امریکی مفادات کو اب پاکستان کی مزید ضرورت نہیں رہی۔
یہ معاملے اس وقت تک چلتے گئے جب تک امریکہ مزے میں تھا۔ افغانستان طالبان کی گرفت میں آ چکا تھا اور سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا۔
جب افغانستان میں ایمن الزواہری اور اسامہ بن لادن کی القاعدہ محفوظ ٹھکانوں کی مالک بن گئی۔ وسطی افریقی ممالک میں اسلامی راج قائم کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگی۔ پھر معاملہ ایک دم الٹ ہوا۔ القاعدہ نے امریکہ کو نائن الیون دیا۔ پھر امریکہ کو افغانستان میں طالبان کی حکومت سے اپنے مفادات کا دفاع ناممکن نظر آنے لگا تو افغانستان میں فوج بھیج ڈالی۔
نتیجہ کابل میں امریکہ نواز حکومت کے قیام کی شکل میں سامنے آیا۔ پاکستان پھر امریکہ کا دوست بننے لگا۔ حکمران آمر جنرل پرویز مشرف امریکہ کا دوست بن گیا۔ پاکستانی سرزمین افغانستان کے خلاف استمعال ہونے لگی۔ بدلے میں پاکستان کو امریکہ اور نیٹو سے فوجی، دفاعی و ترقیاتی امداد ملنے لگی۔
اور پھر یہ معاملہ اُس وقت ختم ہوا جب امریکہ کو افغانستان میں اپنے مفادات محفوظ نظر آنے لگے تو پھر فوجی انخلا شروع ہوا اور امریکہ کے دشمن طالبان پھر اقتدار میں واپس آ گئے۔ اب جو ہو رہا ہے دنیا دیکھ رہی ہے اور اب کی بار امریکہ مخالف طالبان کابل کے حکمران ہیں۔ امریکہ اس بارے میں خاموش ہے۔
ہاں البتہ امریکی انخلا کے وقت کابل ایئرپورٹ پر داعش کے خودکش حملے سے کئی امریکی فوجی جب ہلاک ہوئے تو امریکہ کے ذہن میں خدشہ پیدا ہو گیا لیکن وہ خدشہ محض معمولی تھا۔
ہم بات کرنے چلے تھے ایران و سعودی عرب کے تعلقات کی۔ تو جناب عرض یہ ہے کہ 1990 کی دہائی میں ان ممالک کے مابین تعلقات خراب ہوئے تھے لیکن ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کے دور میں پھر ٹھیک ہونے لگے۔
2016 میں سعودی سلطنت کی جانب سے شیعہ مسلک کے عالم شیخ نمر کو پھانسی دینے کے بعد تعلقات انتہائی خراب ہو گئے۔ شیعہ عالم کے حق میں تہران میں حکومتی و عوامی ردعمل آیا۔ تہران میں سعودی سفارت خانہ بند کر دیا گیا اور سعودی عرب نے بھی ایرانی سفارت خانے کے عملے کو 48 گھنٹوں کے اندر ایران واپس جانے کی ہدایت جاری کر دی۔
یوں دونوں ملکوں کے معاملات اور بگڑتے چلے گئے۔ یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی جنگجوؤں نے سعودی حمایت یافتہ حکومت سے جنگ شروع کر دی جس سے فریقین کو شدید جانی و مالی نقصان پہنچا۔ لبنان، شام اور عراق میں سعودی عرب اور ایران کی پروکسی جنگ چِھڑ گئی جس کے معاشی و عسکری نتائج آج بھی آلِ سعود بھگت رہے ہیں۔
خیر چین کی ثالثی میں ان دو ممالک کے مابین مذاکرات دنیا کے لیے حیران کن تھے۔ ان مذاکرات میں سلطنت عمان اور جمہوریہ عراق نے بھی حصہ لیا تھا لیکن گارنٹی کے لیے عالمی طاقت کی ضرورت تھی اور یہ کردار چین نے ادا کیا۔
اس میں کوئی ابہام نہیں کہ ان دو ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات مسلم ممالک کے لیے ناگزیر ہیں۔ یہ دو ممالک طویل آبی سرحد رکھتے ہیں اور دونوں تیل کے عالمی پیداواری ممالک میں بھی شمار ہوتے ہیں۔
یہ سوال بھی اہم ہو گا کہ چین کیوں اور کیسے عالمی سیاست میں حصہ دار بن گیا۔ یہ تاریخی موقع ہے کہ چین کسی دوسرے ملک کے لیے ثالث بن رہا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے چین کہیں بھی نظر نہیں آیا۔ جنگ بندی ہو یا مذاکرات ہوں، اکثر جگہوں پر ثالث امریکہ ہی رہا ہے۔
اس کی بنیادی و اصل وجہ محض یہ ہے کہ ایران و امریکہ کے مابین تعلقات دہائیوں سے ختم ہیں۔ اس صورت حال میں امریکہ کیسے ان دو ممالک کے مابین ثالث بن سکتا ہے۔ ظاہر ہے کسی ایک طاقتور کو تو آگے آنا تھا اور وہ چین ہے۔
امریکہ و سعودی عرب کے مابین تعلقات دہائیوں سے قائم ہیں۔ پورا مشرق وسطیٰ امریکہ ہی کا اتحادی ہے۔ امریکہ کی وجہ سے مشرقِ وسطیٰ کے کئی ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال بھی کر چکے ہیں۔
سعودی عرب کے لئے سکیورٹی، ٹیکنالوجی و تجارت کے میدان میں محمد بن سلمان کے وژن 2030 کے مطابق امریکہ ناگزیر ہے۔
اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ ایران و سعودی عرب اسرائیل کے وجود کے خلاف ہیں۔ لیکن اُس وقت تک یہ دونوں ممالک کچھ نہیں کر سکتے جب تک امریکہ مشرق وسطیٰ میں موجود ہے اور امریکہ کو مشرق وسطیٰ سے اسی صورت نکالنا ممکن ہے جب سعودی عرب کو امریکی مفادات کی ضرورت نہ ہو۔
ابھی تو محض دو ممالک کے مابین سفارتی تعلقات کی بات ہوئی ہے، ظاہر ہے جب سفارت کاری ہو گی تب بہت کچھ ہو سکتا ہے۔
سعودی عرب کمیونسٹ بلاک سے دوری پر ہے البتہ ایران نزدیک ہے۔ چین ایران کے ساتھ تجارت بھی کر رہا ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ چین کی نظریں اب مشرق وسطیٰ پر پڑ رہی ہیں۔ چین کوششیں تیز کرے گا اور مستقبل قریب میں چین کی لانگ ٹرم پالیسیز بھی تو ہیں۔ ممکن ہے چین سعودی عرب اور ایران کو شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت بھی دے دے جس کے ذریعے چین مشرق وسطیٰ میں اپنی علاقائی طاقت کو مزید بڑھاتا چلا جائے۔
یہ بھی محض اتفاق نہیں کہ کمیونسٹ بلاک دنیا میں پہلے کی طرح ایک مرتبہ پھر طاقتور ہو گیا ہے۔ تجارت اور ٹیکنالوجی کے میدان میں روس اور چین کے بغیر دنیا ایک قدم بھی نہیں چل سکتی۔
یوکرین میں جنگ کے بعد یورپ اور امریکی پابندیوں کے باوجود روس پوری طرح متاثر نہیں ہوا جتنی توقع کی جا رہی تھی۔
یوکرین کو سعودی امداد بھی ملی ہے جو ظاہر ہے سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات کی مرہونِ منت ہے۔ یہاں تو صاف عیاں ہے کہ سعودی عرب فی الحال کمیونسٹ بلاک کی طرف راغب نہیں ہونے والا لیکن یہ وقتی بھی ہو سکتا ہے۔
یوسف بلوچ کالم نگار ہیں۔ ان کے کالمز نیا دور اردو، سماچار پاکستان اور دی بلوچستان پوسٹ میں شائع ہوتے ہیں۔