پاکستان کی عدالتی تاریخ کا ایک تاریک ترین باب وہ ہے جب 1997 میں ساتھی ججز نے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے خلاف فیصلہ دے کر ان کو ہی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے سے بے دخل کر دیا تھا۔
چیف جسٹس سجاد علی شاہ، جو کہ اس سے قبل صدر فاروق لغاری کی جانب سے دوسری بے نظیر بھٹو حکومت برطرف کیے جانے کو قانونی کور فراہم کر چکے تھے، ایک بار پھر نئے وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ الجھ چکے تھے۔ لیکن مسلم لیگ ن نہ تو سندھی جماعت تھی اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ کی اس سے کوئی ازلی دشمنی تھی جو بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی کے ساتھ تھی۔
پاکستان مسلم لیگ ن کی اس وقت کی حکومت سینیئر ترین عدلیہ کو دو متحارب گروہوں میں تقسیم کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ سجاد علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کے صدر کے اختیارات بحال کرنے کی غرض سے 13 ویں آئینی ترمیم کی کارروائی کو معطل کر دیا۔
عدالت عظمیٰ کے ایک اور 10 رکنی بنچ نے چیف جسٹس کے اس فیصلے کو چند ہی منٹوں بعد ایک جانب رکھ دیا۔ اگرچہ اس 10 رکنی بنچ کو کوئی باضابطہ درخواست موصول نہیں ہوئی تھی، جسٹس سعید الزماں صدیقی کی سربراہی میں اس بنچ نے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے فیصلے کے خلاف حکم امتناعی جاری کر دیا۔
جسٹس سعید الزماں صدیقی کی سربراہی میں باغی ججوں نے جسٹس سجاد علی شاہ کو چیف جسٹس تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ چیف جسٹس کی تقرری کے جواز پر سوال اٹھاتے ہوئے سپریم کورٹ کے دو رکنی کوئٹہ بنچ نے جسٹس سجاد علی شاہ کے خلاف فیصلہ سنایا۔
کوئٹہ بنچ کی جانب سے چیف جسٹس کی کی تقرری ملتوی ہو جانے کے بعد چیف جسٹس نے جواب دیا کہ اس فیصلے کا کوئی قانونی جواز موجود نہیں ہے۔ تاہم سپریم کورٹ کے پشاور بنچ نے بھی کوئٹہ بنچ کے فیصلے کو درست قرار دیا۔
اس تلخ بحران نے پاکستان کی سیاسی اور عدالتی تاریخ کو اب تک کے سب سے پست درجے پر پہنچا دیا۔
نومبر 1997 میں جب چیف جسٹس وزیر اعظم پاکستان کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے کی سماعت کر رہے تھے تو مسلم لیگ ن کی حکومت نے ہجوم کو منظم کر کے مذکورہ سماعت کے دوران ہی سپریم کورٹ پر دھاوا بول دیا۔ یہ سب کچھ اس کوشش میں کیا گیا تھا کہ سماعت کو ملتوی کروایا جا سکے۔
دسمبر 1997 میں سپریم کورٹ کے ساتھی ججوں نے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو ان کے عہدے سے فارغ کر دیا۔
آج ایک بار پھر پاکستانی عدلیہ بری طرح سے تقسیم نظر آتی ہے۔ سوموار کی شام سامنے آنے والا جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کا فیصلہ کہتا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا الیکشن پر لیے گئے سو موٹو کیس کا فیصلہ 2 کے مقابلے میں 3 سے الیکشن کے حق میں نہیں بلکہ 3 کے مقابلے میں 4 ووٹس سے درخواست مسترد کرنے کے حق میں آیا تھا۔
عنبر ڈار کہتی ہیں؛ 'پاکستانی عدلیہ کی جانبداری پر تبھی سے سوال اٹھنے شروع ہو گئے تھے جب مولوی تمیز الدین خان کیس میں عدلیہ نے نظریہ ضرورت کی بنیاد پر ملک پر پہلے فوجی قبضے کو جائز قرار دیا تھا۔
2007 کی وکلا تحریک ملٹری-انتظامی اسٹیبلشمنٹ سے عدلیہ کی برات کا پہلا اشارہ تھی۔ اس وقت جو کچھ ہم ملک میں دیکھ رہے ہیں، وہ اسی انحراف سے پیدا ہونے والے آفٹر شاکس ہیں۔'