22 سالہ لڑکی کا جنس کی تبدیلی کیلئے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع
ہر انسان کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق ہے، جنس تبدیلی کی اجازت دی جائے، درخواست
جنس کی تبدیلی کیلئے 22 سالہ لڑکی نے پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کر لیا۔ پشاور سے تعلق رکھنے والی جواں سال لڑکی نے پشاور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی ہے کہ والدین کی اکلوتی اولاد ہوں جنس کی تبدیلی کی اجازت دی جائے۔ پشاور ہائیکورٹ میں سیف اللہ محب کاکاخیل کے توسط سے رٹ دائر کرتے ہوئے مؤقف اپنایا ہے کہ انکا تعلق ہری پور سے ہے اور آج کل پشاور میں رہائش پذیر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر انسان کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے، میں والدین کی اکلوتی اولاد ہوں، بچپن سے لڑکوں کے کپڑے پہنتی ہوں اور لڑکوں کے ساتھ کھیلتی ہوں، بچپن سے ہی طرز زندگی مردانہ طور پر گزار رہی ہوں، لڑکی بن کر معاشرے میں مزید وقت نہیں گزار سکتی۔ خاتون نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ڈاکٹروں نے مشورہ دیا ہے کہ سرجری ہو سکتی ہے لیکن عدالت سے اجازت لازمی ہے۔ درخواست میں ڈائریکٹر ایل آر ایچ، کے ٹی ایچ اور ایچ ایم سی کو فریق بنایا گیا ہے اور عدالت سے اپیل کی ہے کہ عدالت انکے مفت علاج کیلئے ہسپتالوں کو احکامات جاری کرے اور نادرا حکام کو جنس کے تبدیلی کے بعد ان کا نام محمد کیف رکھنے کا حکم دے۔
پشاور میں تحریک لبیک کیخلاف کریک ڈاؤن، 35 عہدیدار و کارکن گرفتار
گرفتار افراد کو تین ایم پی او کے تحت ایک ماہ کیلئے جیل منتقل کر دیا گیا، ممکنہ احتجاج کے پیش نظر پولیس اور فورسز اہلکار تعینات
ملک بھر کی طرح صوبائی دارالحکومت پشاور میں بھی تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے کارکنوں کی گرفتاری کیلئے کریک ڈاؤن کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ ابتدائی طور پر مختلف مقامات پر چھاپے مار کر 35 عہدیداروں اور کارکنوں کو3 ایم پی او کے تحت گرفتار کر کے ایک ماہ کیلئے جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔ دوسری جانب تحریک کی جانب سے ممکنہ احتجاج کے پیش نظر اہم شاہراہوں اور مقامات پر سکیورٹی فورسز اور پولیس کی مشترکہ ٹیمیں تعینات کر دی گئی ہیں۔ واضح رہے کہ 25 اکتوبر کو آسیہ مسیح کی رہائی کے بعد تحریک لبیک کے زیر اہتمام ملک گیر احتجاج کیا گیا تھا جس کے دوران سرکاری و نجی املاک کو نقصان اور اہم ترین شاہراہوں کو بند کر کے ٹریفک کو بند کیا گیا تھا بلکہ احتجاج کے دوران تحریک کے عہدیداروں نےاشتعال انگیز تقاریر کر کے ملک میں انتشار پھیلانے کی بھی کوشش کی تھی جس کے بعد ملک بھر میں تحریک لبیک کے عہدیداروں اور کارکنوں کی گرفتاری کا فیصلہ کیا گیا اور جمعہ کی شب سے ملک کے دیگر حصوں کی طرح پشاور میں بھی آپریشن جاری رہا جس کے دوران پشاور کے مختلف علاقوں سے تحریک کے عہدیداروں، رہنماؤں اور کارکنوں سمیت 35 افراد کو گرفتار کر کے جیل منتقل کر دیا گیا۔
کیلاش قبیلے کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کا فیصلہ
وادی گولین، کریم آباد، گوبور اور بروغل کے سیاحوں کیلئے قابل رسائی بنانے کیلئے بھی منصوبے پر کام جاری ہے
صوبائی حکومت چترال کو سیاحوں کیلئے دلکش بنانے اور سیاحت کے فروغ کیلئے 50 کروڑ روپے خرچ کریگی جس میں سے35 کروڑ روپے چترال کی خوبصورتی کی بحالی جبکہ 15 کروڑ روپے کیلاش وادی میں سہولیات میں اضافے کی مد میں خرچ کیے جائینگے۔ ان خیالات کا اظہار صوبائی وزیر سیاحت و کھیل عاطف خان نے کیا۔ صوبائی وزیر نے کہا کہ وادی گولین، کریم آباد، گوبور اور بروغل کو سیاحوں کیلئے قابل رسائی بنانے کیلئے بھی منصوبے پر کام جاری ہے اور ان علاقوں کو سیاحتی سہولیات سے آراستہ کیا جائے گا۔ چترال میں کھیلوں کی ترقی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ مختلف جگہوں پر کھیل کے میدان بنانے اور چترال کے طول و عرض میں پھیلے پولو گراؤنڈز سے تجاوزات کا خاتمہ کر کے وہاں سہولیات فراہم کی جائینگی تاکہ چترال کے روایتی کھیل پولو کو مزید ترقی دیکر سیاحت کے فروغ کا ذریعہ بنایا جا سکے۔
پشاور: پولیو مہم میں 23 ہزار بچے ویکسینیشن سے محروم رہ جانے کا انکشاف
9 ہزار والدین بچوں کو وکسین پلانے سے انکاری، فوکل پرسن برائے پولیو کا بعض آفیسرز و ڈاکٹرز کیخلاف کارروائی کا عندیہ
پشاور میں انسداد پولیو مہم کے دوران 23 ہزار بچوں کے پولیو سے بچاؤ کے قطرے پینے سے محروم رہنے کا انکشاف ہوا ہے جبکہ9 ہزار والدین اپنے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے سے انکاری ہیں۔ وزیراعظم کے فوکل پرسن برائے پولیو بابر بن عطا نے ناقص کارکردگی پر بعض افسروں و ڈاکٹروں کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیا ہے۔ فوکل پرسن بابر بن عطا نے کہا ہے کہ چند آفیسرز کی نااہلی سے انسداد پولیو مہم متاثر ہوئی ہے، ان نااہل آفیسرز کی وجہ سے23 ہزار بچے پولیو سے بچاؤ کے قطرے پی نہ سکے، بچوں کی یہ تعداد کسی بھی شہر میں پولیو وائرس کو زندہ رکھنے کیلئے کافی ہےْ نااہل ثابت ہونے والے افسر و عملے کیخلاف سخت کارفوائی کریں گے۔
پختونخوا حکومت کے پہلے 100 دن، کوئی پلان بنا نہ کابینہ مکمل ہوئی
قبائلی اضلاع پر مکمل کنٹرول حاصل کیا جا سکا نہ متبادل عدالتی نظام لایا گیا
خیبر پختونخوا حکومت نے اپنے ابتدائی 100 دن پورے کر لیے جس کے دوران صوبائی کابینہ کو مکمل کیا جا سکا نہ ہی صوبے میں ضم شدہ قبائلی علاقوں پر حکومتی کنٹرول قائم ہو سکا۔ عدالتی احکامات کے باوجود ضم شدہ علاقوں کیلئے عدالتی نظام بھی نہ دیا جا سکا نہ ہی بنک آف خیبر کیلئے ایم ڈی کی تقرری کی جا سکی تاہم اس دوران حکومت نے جاری مالی سال کیلئے فاضل بجٹ دینے کیساتھ بی آر ٹی منصوبے کیلئے نظرثانی شدہ پی سی ون بھی منظور کرایا جبکہ صوبائی احتساب کمیشن کو ختم کرنے اور گھریلو تشدد کے خاتمے کیلئے بلوں کی منظوری دی گئی۔ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان نے 17 اگست کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا جس کے تحت حکومت کے 100 دن پورے ہو گئے ہیں۔ مذکورہ سو دنوں میں 15 رکنی کابینہ کی تشکیل مکمل نہ ہو سکی، مذکورہ عرصے میں کئی نشستوں پر ضمنی انتخابات کا انعقاد ہوا جن میں پشاور اور سوات کی نشستوں پر تحریک انصاف کو شکست ہوئی۔ حکومت نے اس دوران صوبے کی پہلی ڈیجیٹل پالیسی کی منظوری بھی دی۔ تاہم وزیراعلیٰ کو اس دوران پارٹی کی جانب سے اندورنی اختلافات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔