پاکستانی فوج، یعنی پیادہ فوج کی سیاست میں مداخلت، اور یہ میں نہیں صالح ظافر صاحب کی خبر کہہ رہی ہے، اس بار بھی پاکستان کے حق میں نہ رہی۔
آرمی چیف نے مولانا کو بلایا۔ مولانا نے جا کر سیاسی میچورٹی کا ثبوت دیا مگر بات نہ بن سکی۔ ظافر صاحب کی خبر کے مطابق تو معاملہ یہ رہا کہ مولانا نے فوجی سربراہ کے یہ کہہ دینے پر کہ عمران نیازی صاحب آئینی حکمران ہیں، کا اشارہ بھی نہ سمجھا اور اپنی پوزیشن مینٹین رکھی۔
دوسرا ایک بہت اہم واقعہ جنرل باجوہ کا پاکستان کے کاروباری حلقوں سے ملاقات کا ہے اور اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ ان کی کراچی میں گفتگو، راولپنڈی میں ملاقات اور فوجی ترجمان کے مسلسل مثبت رپورٹنگ پر اصرار کے باوجود، کاروباری حلقے ان کی یقین دہانیوں پر اعتبار کرنے سے قاصر ہیں۔
کہتے ہیں کہ جب آپ کے ہاتھ میں ہتھوڑا ہو تو تمام مسائل کیل نظر آتے ہیں۔ فوج کی سیاست و سماج میں مداخلت جنرل سکندر مرزا کے وقت سے ہی ظاہر ہے مگر بید و بندوق نے نتائج پاکستان کے حق میں کبھی بہتر پیدا نہیں کیے، عمران نیازی صاحب کی پہلے چھپی اور اب کھلم کھلا حمایت بھی یہی کر رہی ہے۔
میرے خیال میں، اور یہ خیال غلط بھی ہو سکتا ہے، فوج شاید پہلی مرتبہ اس سیاسی بےبسی کا شکار ہے جس سے اس نے پاکستانی سیاست کو کئی دہائیوں سے کر رکھا ہے۔
اب صورتحال چیک کر لیجیے:۔ عمران نیازی صاحب سے پاکستان نہیں چلا، اور چلنا بھی نہیں۔ اس حکومت میں قابلیت و کریڈیبیلیٹی ہی نہیں، ایسی معیشت کے ساتھ ایک سیدھا مطلب یہ ہے کہ پاکستان اپنے تمام فوجی سیاسی اور بقا کے راز، معیشت کے عوض گروی رکھنے پر مجبور ہوتا چلا جائے گا۔ سی پیک کی دستاویزات، آئی ایم ایف کے پاس ہونا اک ثبوت ہے۔ کمزور معیشت اک سیاسی و سماجی افراتفری کو جنم دے گی۔ دنیا اک ایٹمی قوت کو ایسا دیکھنا نہیں چاہے گی۔ پاکستان کے خلاف، اگر اک شدید اندرونی خلفشار کی بنیاد پر اک عالمی کیس بنا تو اک اکیلا ملک کچھ نہیں کر پائے گا۔ کشمیر پر پاکستان کا حال اک اشارہ ہی کافی ہے، اور چین میں صرف 20 منٹ کی ملاقات کی طرف مولانا اشارہ کر چکے ہیں۔
کیچ 22 یہ ہے کہ فوج اگر عمران نیازی کے سر پر سے ہاتھ اٹھاتی ہے تو باقی بچ جانے والی جماعتوں کے ساتھ، لکھے ہوئے قانون کے زیرتحت وہ, وہ زیادتیاں ہو چکی ہیں جو اسے بطور اک ادارہ مستقبل میں بہت ساری اندرونی ٹرف چھوڑنے پر مجبور کر سکتی ہیں۔ اداری جاتی ارریلیونس بہرحال تکلیف دہ ہو گی
عمران نیازی کےساتھ ملک چل نہیں سکتا، ملمع کاری جو مرضی ہے کرلیجیے۔ دو سیاستدانوں کو آپ موت کے جبڑوں میں دے چکے۔ موت کا بس جبڑا چلانا ہی باقی ہے۔ کاروباری آپ کی بات سن لیتےہیں، مانتےنہیں۔ معیشت پگھلاؤ کا شکار ہے۔ اندرونی خلفشار کی انتہا اسی بات سےظاہر ہے کہ میڈیا پر پابندیاں ہیں
لوگ فوج سے خوف کا شکار ہیں، میرے سمیت، مگر مریم کا رونا اور نواز شریف کے حکومت کے برعکس، موجودہ حکومت کی’’پرفارمنس ‘عوام کو یاد رہیں گے۔ سیٹھ میڈیا اور گوئبلز کے تخلیق کردہ انصافی بونوں نے اک سماجی انتشار تشکیل دیا ہے، جو آپ کو واہ واہ تو کرتے ہیں، مگر واہ واہ مسائل حل نہیں کرتی.
بات تھوڑی پھیل گئی، اس کی معذرت۔ نکات اور بھی ہیں، مگر سمیٹتا ہوں یہ کہہ کر کہ پاکستان اس وقت کلاسیکی گرِڈ لاک میں ہے۔ سیاسی تشدد کا خوف موجود ہے۔ کسی بھی بڑے سیاستدان کی موت ہونے کی صورت میں پاکستان کو اک شدید دھچکا لگ سکتا ہے، اور اس کی ذمہ داری، بہرحال مجھ پر نہیں ہو گی.
بازاروں، گلیوں اور عام محفلوں میں لوگ اب فوج کا مذاق اڑاتے ہیں اور احترام نہیں، تشدد کے خوف سے خاموش رہتے ہیں۔ تقابل یہ ہو رہا ہے کہ فوج کی سیاست میں مداخلت، بسم اللہ، مگر تاریخی حوالہ اور موجودہ حکومت کے حساب سے اگر کوئی بہتری کبھی ہوئی ہو تو وہ اک دلیل ہو سکتی ہے
آندھی طاقت، کالے ویگو ڈالے، اٹھا لیے جانے کا خوف، زندگی تباہ کر دینے کا ڈر وغیرہ بھی ابھی موجود ہے، مگر یہ سیاست و ریاست کے ساتھ ساتھ فوج، بحثیت اک ادارہ پر سے بھی عوامی اعتماد کو ختم کرتا چلا جائے گا یہ وطن، ریاست، قوم کے لیے اچھا شگن نہیں ہو گا۔
میں بحثیت اک پاکستانی شہری، اپنے وطن کا وفادار ہوں، اداروں سے محبت کرتا چلا آیا ہوں، مگر میرے دل میں بھی ان کے احترام میں اب شدید کمی آئی ہے۔
حوالے کے لیے جناب ثاقب نثار، پی کے ایل آئی، چیئرمین نیب کی سر سے پاؤں تک چومنے کی ویڈیو، وینا ملک، حریم شاہ، چوتھے فلور کے علاوہ جنرل آصف غفور کا چھ ماہ مثبت رپورٹنگ کے بیان کے علاوہ، مخالفین کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی نوعیت بھی شامل ہے۔
باقی کابینہ وزرا کی بدتمیزی و بدتہذیبی کے علاوہ، اس پورے نظام کا ایک ہی فوکس کہ مخالفین کو ڈی- ہیومنائز کیا جائے، بھی اک شدید مضبوط وجہ ہے اور کہنے دیجیے کہ اس سارے نظام کی بنیاد میں جناب جنرل باجوہ صاحب کی حمایت و سپورٹ نظر آتی ہے جس کا اظہار نواز شریف صاحب کے دور حکومت سے ہی نظر آنا شروع ہو چکا تھا۔
پانامہ سے اقامہ تو محض اک مثال رہی۔ میری ٹکے برابر اوقات نہیں، مگر سچ کہتا ہوں کہ اتنی مایوسی، بددلی زندگی میں شاید پہلے محسوس کی ہو اور اس میں شدت اس لیے ہے کہ حکومت نہیں، ریاست کے ادارے اس سارے گھڑمس میں شامل ہیں اور مجھے ان کے سماجی و عوامی مقام کی جینوئین فکر ہے۔
لکھے ہوئے قانون یا اختیار کے اندھے استعمال کی طاقت کے خوف سے بھی معاشرے اور ملک چلائے جا سکتے ہیں، مگر پاکستان کا کانسٹرکٹ ویسا ہے ہی نہیں اس سارے قضیئے میں یہ بھی سوچیں کہ نیول یا ائیرچیف کے نام کہیں بھی سننے کو کیوں نہیں ملتے۔ ان کے نام ویسے ہیں کیا؟
آپ کو کوئی علم بھی ہے کیا گوگل کیے بغیر؟ یہ ملک، میرا ملک ہے۔ میرے دادا کی قبر ملکوال میں ہے۔ میرے والد حیات ہیں، مگر آنی پر وہ بھی ملکوال کی ہی خاک بنیں گے۔ اپنا ٹھکانہ بھی مرنے کے بعد وہیں ہو گا۔ اس دھرتی کے ساتھ اپنی جُڑت ہے اور بہت محبت خیال اور وفاداری سے ہے۔
اپنی ریاست اور اپنے ریاستی اداروں کی ہوتی امپلائد بے توقیری اور اس کے بطن سے پھوٹتا انتشار میرے وطن، میرے لوگوں اور میرے اداروں کو دے کیا رہا ہے؟ ایسا سلسلہ کب تک چل سکتا ہے؟
جیسے انسان ناکام ہوں تو ذاتی زندگیاں برباد ہو جاتی ہیں، ویسے ہی معاشرے و ادارے ناکام ہوں تو ملک برباد ہو جاتے ہیں۔ صومالیہ، شام، عراق، لیبیا، افغانستان بس چند مثالیں ہیں۔ لوگ رُل جاتے ہیں۔ عزتوں والے اور عزتوں والیاں بازاروں میں بِکتی ہیں۔ اس ناکامی کی ڈھلان کے سفر کو خدارا روکیے
فوج کا نام اس ڈھلان کے ساتھ نتھی ہو چکا ہے۔ اسی لیے تو ہاتھ جوڑ کر درخواست ہے کہ فوج کو سوچنا ہو گا، زخم بہت گہرا ہوتا جا رہا ہے زیادہ تو کیا، بالکل بھی مذہبی نہیں ہوں، مگر اداسی و بےبسی کی کیفیت ہے تو مولا کے آگے دعا و سجدہ ہے: مولا، اس ملک کی خیر رکھ۔ اس کے لوگ بڑے بےبس ہیں