معروف صحافی عامر میر نے کہا ہے کہ فوج میں ابھی بھی دو دھڑے موجود ہیں۔ آج کی پریس کانفرنس کا ایک مقصد یہ تھا کہ دوسرے دھڑے کو واضح پیغام دیا جائے کہ باز آ جاؤ۔ دوسرا دھڑا ابھی بھی چاہ رہا ہے کہ عمران خان کے لانگ مارچ کے نتیجے میں کوئی نہ کوئی خون خرابہ ہو۔ موجودہ حکومت نئے آرمی چیف کا نام اس لیے بھی نہیں لے رہی کہ ہو سکتا ہے فوج نے خود ہی اسے منع کیا ہو۔ ایک دفعہ عمران خان کا لانگ مارچ گزر جائے اور انہوں نے جو سانپ نکالنا ہے نکال لیں، اس کے بعد نئے آرمی چیف کا نام سامنے لایا جائے ورنہ عمران خان نئے آرمی چیف کو متنازع بنا دیں گے۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے عامر میر کا کہنا تھا کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ڈی جی آئی ایس آئی نے پریس کانفرنس کی ہے۔ یہ اس لیے ہوا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا اور آج کی پریس کانفرنس ایک جوابی حملہ ہے۔ عمران خان بار بار ڈرٹی ہیری کا نام لیتے رہتے ہیں تو آج ڈرٹی ہیری کی جانب سے یہ فیصلہ ہوا کہ اب مزید خاموش نہیں رہا جا سکتا۔
ارشد شریف کیس سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ عمران خان جس کیس کو فوج پہ ڈال رہے تھے اب اس کیس میں خود مشکوک ثابت ہو رہے ہیں۔ ان پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔ اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ کینیا میں یہ کمپلیکس سلمان اقبال کی ملکیت ہے۔ یہ بہت مشکوک معاملہ ہے۔ اس میں صرف سلمان اقبال ہی کا نہیں بلکہ عمران خان کا بھی نام آ رہا ہے۔ نیروبی میں تین بڑے کاروبار ہوتے ہیں؛ سونے کا، اسلحے کا اور منشیات کا۔ کینیا میں کراچی کی میمن برادری کافی ہے۔ سلمان اقبال کا وہاں کنکشن رہا ہے۔ اس معاملے میں ہمارے ایک آئی ایس آئی چیف کا بھی نام آ رہا ہے۔ یہ عمران خان کے دوست ہیں اور انہوں نے چار سال عمران خان کی حکومت چلائی۔ وہ آرمی چیف کی دوڑ میں تھے اور اب جبکہ کھیل ختم ہونے والا تھا تو یہ ان کی ایک آخری کوشش ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایجنسی اسٹائل کا قتل ضرور ہے مگر اس میں ایجنسی کا وہ دھڑا شامل نہیں ہے جو اس وقت برسراقتدار ہے۔ اس میں وہ دھڑا شامل ہے جو اس وقت مایوس ہے۔ جس طرح دھڑلے سے آج فوج نے کہا ہے کہ چاہے اقوام متحدہ سے انویسٹی گیشن کروائیں اس کا مطلب ہے کہ وہ انوالو نہیں ہیں۔
عامر میر کا کہنا تھا کہ آج کی پریس کانفرنس میں تمام اداروں کو اشارہ دیا گیا ہے کہ ہمارے ہاتھ کھل گئے ہیں اور ڈنڈا چلے گا۔ اب لانگ مارچ میں سوچ سمجھ کے عمران خان کا ساتھ دیا جائے۔ اب یہ لگ رہا ہے کہ حکومت لانگ مارچ کو اسلام آباد میں داخل ہی نہیں ہونے دے گی۔ بیانیہ ریورس کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا، اس میں بہت وقت لگتا ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ جنوری میں آپ نے فیصلہ کیا کہ پراجیکٹ عمران خان کو ریپ اپ کیا جائے تو فوراً یہ ختم ہو جائے گا۔ 8 سال میں آپ نے عمران خان کا بیانیہ بنایا اور ختم کرنے کے لیے کوئی پلاننگ ہی نہیں کی۔ یہ بیانیہ اگلے الیکشن میں بھی چلے گا۔
مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ پہلے عمران خان نے کہا تھا کہ جمعرات یا جمعہ کو لانگ مارچ کا اعلان کروں گا مگر پھر جب ارشد شریف کی ہلاکت کی خبر آئی تو انہوں نے سوچا کہ راجہ گدھ بن جائیں اور ارشد شریف کی لاش سے فائدہ اٹھائیں۔ اسی لیے انہوں نے لانگ مارچ کا اعلان جلدی کر دیا۔
پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔