'وزیر اعظم کی چیف جسٹس سے ملاقات کا مقصد درمیانی رستہ نکالنا ہے'

جاوید چودھری نے کہاکہ وزیر اعظم شہباز شریف کو خود اندازہ ہوا کہ اگر سپریم کورٹ سرگرم ہو جاتی ہے اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے مطالبے کو منظور کرتے ہوئے کنونشن بلاتی ہے اور یہ کنونشن ہو جاتا ہے تو حکومت پاکستان کے لیے سپیس کم رہ جائے گی۔ چنانچہ حکومت نے سوچا کہ کنونشن سے پہلے پہلے ہمیں کوئی رستہ نکالنا ہو گا۔

'وزیر اعظم کی چیف جسٹس سے ملاقات کا مقصد درمیانی رستہ نکالنا ہے'

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج صاحبان کی جانب سے لگائے گئے الزام چونکہ 'ایگزیکٹو برانچ' یعنی حکومت پر ہیں، اس لیے وزیر اعظم شہباز شریف کی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ملاقات کا مقصد یہ ہے کہ کوئی درمیانی راستہ نکالا جا سکے کیونکہ حکومت کے پاس یہ آپشن نہیں ہے کہ چکر دے کر اس معاملے میں سے نکل سکے۔ وزیر اعظم ملاقات میں چیف جسٹس کو اس معاملے پر عدالتی کمیشن بنانے کی پیش کش کر سکتے ہیں۔ یہ کہنا ہے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار جاوید چوہدری کا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے خط کے معاملے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ اجلاس ہوا جس میں خط کا جائزہ لیا گیا۔ یہ اجلاس 2 گھنٹے 12 منٹ تک جاری رہا اور تمام ججز نے خط پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ سب ججز کا خیال تھا کہ اجلاس کے بعد سپریم کورٹ کی جانب سے اعلامیہ جاری کر دیا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ تاہم رات کو خبریں گردش کرنے لگیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے چیف جسٹس سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

جاوید چوہدری کا کہنا تھا کہ اس ملاقات کے حوالے سے 2 قسم کی معلومات سامنے آئی ہیں۔ پہلی یہ کہ کل جب فل کورٹ اجلاس ہوا اس میں جج صاحبان نے چیف جسٹس سے کہا کہ چونکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج صاحبان کی جانب سے لگائے گئے الزام 'ایگزیکٹو برانچ' پر ہیں، جو کہ حکومت ہوتی ہے، اس لئے چیف جسٹس 'ایگزیکٹو' کے ساتھ اس معاملے پر وزیر اعظم سے مل کر بات چیت کریں تا کہ اس بات کا نوٹس لے کر معاملے کو کسی صورت حل کیا جا سکے۔ کیونکہ اگر حکومت کو اس معاملے میں شامل نہیں کیا جائے گا تو کل کلاں حکومت کہے گی کہ آپ نے چونکہ ہمیں شامل نہیں کیا تھا تو اب آپ خود ہی فیصلہ کر کے اس پر عمل درآمد بھی کروا لیں۔ اس کے بعد اٹارنی جنرل کو بلا کر کہا گیا کہ وزیر اعظم سے ملاقات کا انتظام کریں۔

دوسری جانب یہ اطلاع بھی ہے کہ جب یہ صورت حال سامنے آئی تو وزیر اعظم شہباز شریف کو خود اندازہ ہوا کہ اگر سپریم کورٹ سرگرم ہو جاتی ہے اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے مطالبے کو منظور کرتے ہوئے کنونشن بلاتی ہے اور یہ کنونشن ہو جاتا ہے تو حکومت پاکستان کے لیے سپیس کم رہ جائے گی۔ کنونشن میں سپریم کورٹ، اسلام آباد ہائی کورٹ اور وفاقی شریعت کورٹ سمیت تینوں آئینی عدالتوں کے ججز کو بلایا جائے گا اور ان کے سامنے اس صورت حال کو رکھا جائے گا۔ پھر ایک لائحہ عمل تیار کیا جائے گا جس پر عمل درآمد ساری عدلیہ کے لیے لازم ہو گا۔ کنونشن ہونے کی صورت میں اگر فیصلہ ہو گیا کہ ملوث افراد کو بلا کر ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے تو عدلیہ کے لیے پیچھے ہٹنا مشکل ہو جائے گا۔ لیکن اگر خاموشی اختیار کرنے کا فیصلہ ہوا تو اسٹیبلشمنٹ کو آئندہ بھی ایسی مداخلت کرنے کا موقع ملتا رہے گا۔ لہٰذا کنونشن ہوا تو اس میں کوئی نہ کوئی فیصلہ کرنا پڑے گا۔ چنانچہ حکومت نے سوچا کہ کنونشن سے پہلے پہلے ہمیں کوئی رستہ نکالنا ہو گا۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

جاوید چودھری نے کہا وزیر اعظم یا حکومت کو چاہیے کہ اس معاملے کو ڈفیوز کریں۔ حکومت کے پاس 2 آپشن ہیں؛ ایک یہ کہ حکومت فوری طور پر جوڈیشل کمیشن بنانے کا اعلان کرے۔ کیونکہ کمیشن کی تشکیل کا اختیار وزیر اعظم کے پاس ہوتا ہے۔ گو سپریم کورٹ بھی کمیشن بنا سکتی ہے لیکن پھر یہ کمیشن صرف فیصلہ دے سکے گا لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کروا سکے گا کیونکہ اس کے لیے 'ایگزیکٹو' کی اتھارٹی چاہیے۔ جبکہ وزیراعظم کی جانب سے بنائے گئے جوڈیشل کمیشن کے فیصلے پر عمل درآمد بھی ہو گا۔ تو عین ممکن ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے سوچا ہو کہ چیف جسٹس کو کمیشن بنانے کی آفر دیتا ہوں۔ وہ کمیشن جو بھی فائنڈنگ دے گا اس کے مطابق اس پر عمل درآمد کروا لیں گے۔

اس کمیشن کو بنانے کے لیے بھی حکومت کے پاس 2 آپشنز ہیں؛ ریٹائر ججز پر مشتمل کمیشن بنا دیں یا پھر حاضر سروس ججز پر مشتمل کمیشن بنا دیں۔ اگر حکومت ریٹائر ججز پر مشتمل کمیشن بناتی ہے تو کارروائی لمبی ہو جائے گی اور فوری طور پر اس کا رزلٹ نہیں نکلے گا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ چونکہ جب ریٹائرڈ ججز کو اس کمیشن کے لیے تنخواہ سمیت دیگر مراعات ملیں گی تو وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ یہ معاملہ جلدی نمٹے۔ ان کا فائدہ اسی میں ہو گا کہ یہ معاملہ سال، ڈیڑھ سال تک چلتا رہے۔ طویل چلنے والے کمیشن سے حکومت کو یہ فائدہ ہو گا کہ تب تک لوگوں کے ذہن سے یہ والا مسئلہ محو ہو جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ اگر وزیر اعظم اس معاملے کو لمبا کھینچ کر اس سے جان چھڑانا چاہتے ہیں تو ان کے پاس بہت ہی سنہرا موقع ہے کہ ریٹائرڈ ججز پر مشتمل کمیشن بنا دیں جو آہستہ آہستہ رپورٹ بنائے اور جب رپورٹ آئے تو وہ بڑی ہومیوپیتھک ٹائپ کی رپورٹ ہو۔ تب تک بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہو گا۔ جن افسران پر الزام لگا ہے وہ ریٹائرڈ ہو چکے ہو گے یا ان کی ٹرانسفرز ہو چکی ہوں گی۔ ساری اسٹیبلشمنٹ تبدیل ہو چکی ہو گی۔ ممکن ہے کہ حکومت بھی تبدیل ہو چکی ہو۔ تب تک ججز بھی ریٹائرڈ ہو چکے ہوں گے تو مدعی بھی نہیں رہے گا اور یوں یہ کمیشن خودبخود غیر متعلقہ ہو جائے گا۔

دوسری جانب اگر حکومت فوری طور پر اس مسئلے کو حل کرنا چاہتی ہے تو حاضر سروس ججز پر مشتمل کمیشن بنا دے۔ حاضر سروس ججز کے پاس زیادہ وقت نہیں ہوتا کیونکہ ساتھ ساتھ کیسز بھی دیکھنے ہوتے ہیں تو وہ بہت تیزی سے رپورٹ تیار کر کے کوئی بھی فیصلہ دے دیں گے۔ حکومت کے پاس کمیشن بنانے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے کیونکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 8 میں سے 7 ججز کی جانب سے شکایت آئی ہے اور ساری بار کونسلز ان کے ساتھ کھڑی ہیں۔ دوسرا یہ کہ سپریم کورٹ نے فل کورٹ اجلاس شروع کر دیا ہے جس کی ایک سماعت گذشتہ روز ہوئی اور ایک آج ہونی ہے۔ اس لیے حکومت کے پاس آپشن نہیں ہے کہ چکر دے کر اس معاملے میں سے نکل سکے۔

جاوید چوہدری نے کہا میرا خیال ہے کہ وزیر اعظم کی چیف جسٹس سے ملاقات کا مقصد ہے کہ کوئی درمیانی راستہ نکالا جا سکے۔ عین ممکن ہے اس ملاقات سے متعلق آج ہی کسی وقت اعلامیہ بھی جاری کر دیا جائے۔