نواز شریف کی سفید فاختہ اور مولانا کی امامت نئے مستقبل کے اشارے ہیں

پاکستان میں گذشتہ چند سالوں سے چلنے والی بے جا سیاسی دشمنیاں ختم ہو رہی ہیں اور امید ہے پاکستان کی خاطر تمام ادارے، سیاسی جماعتیں اور ریاستی ستون مل کر کام کریں گے۔ ہونا بھی یہی چاہئیے کیونکہ تمام تر سیاسی اور نظریاتی اختلافات کے باوجود یہ ہم سب کا پاکستان ہے۔

نواز شریف کی سفید فاختہ اور مولانا کی امامت نئے مستقبل کے اشارے ہیں

تین مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف جب 21 اکتوبر کو خود ساختہ جلاوطنی ختم کر کے آئے تو انہوں نے مینار پاکستان پر ایک جلسہ کیا۔ تقریباً چار عشروں سے سیاست کرنے والے اور تین مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف نے اپنے جلسے کے دوران سفید فاختہ کو فضا میں چھوڑا۔ سفید فاختہ کو امن کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ جس نواز شریف کے جلسے میں ہمیں شیر نظر آتا تھا اس مرتبہ حالات مختلف تھے اور ان کے جلسے میں سفید فاختائیں نظر آئیں۔ سفید فاختہ کو فضا میں چھوڑنے سے یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ نواز شریف کسی انتقامی سیاست کی نہیں بلکہ مفاہمت کی سیاست کرنے آئے ہیں۔ انہوں نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ میرے دل میں انتقام کی تمنا نہیں، قوم کی خدمت کرنا چاہتا ہوں، ہمیں ڈبل سپیڈ سے دوڑنا ہو گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ آئین پر عمل درآمد کرنے والے ریاستی اداروں، جماعتوں اور ریاست کے ستونوں کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ 40 سال کا نچوڑ بتا رہا ہوں کہ مل کر کام کیے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا، سب کو اکٹھا ہونا پڑے گا۔

اس وقت ملک کی جو صورت حال ہے، سیاسی نفرت کی جو فضا پیدا ہو چکی ہے، ریاست کے ستونوں، تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں کو مل کر کام کرنا چاہئیے۔ یہ رسہ کشی 76 سال کر چکے ہیں، زوال کے علاوہ کیا ملا؟ اس کے علاوہ پاکستان کی ترقی کا کوئی حل نہیں۔ سیاسی اختلافات اپنی جگہ، ایک دوسرے کی پالیسیوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اس کو نفرت اور دشمنی میں نہیں بدلنا چاہئیے۔ اس کے علاوہ کوئی حل نہیں۔ ہمارے 76 سال سول ملٹری نشیب و فراز اور سیاسی انتقام کی نذر ہو گئے۔ اناؤں اور انتقام کے رویوں نے ہمیں بحیثت قوم اور پاکستان کو بحیثیت ملک پستی کی دلدل میں دھکیلا۔ پوری دنیا ترقی کر رہی ہے، آگے کو جا رہی ہے جبکہ ہم ہیں کہ رو بہ زوال ہیں۔

نواز شریف کا شیر کے بجائے سفید فاختہ کو اپنے جلسے میں لانا تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں کو پیغام تھا کہ وہ تصادم اور انتقام کی سیاست نہیں چاہتے اور اس وقت پاکستان کو اتحاد کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

دوسری اہم پیش رفت جو گذشتہ روز ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے ایک وفد نے مولانا فضل الرحمان سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی اور ان کی اقتدا میں نماز بھی ادا کی۔ ان دونوں اہم واقعات سے یہ امید پنپ رہی ہے کہ پاکستان میں گذشتہ چند سالوں سے چلنے والی بے جا سیاسی دشمنیاں ختم ہو رہی ہیں اور امید ہے پاکستان کی خاطر تمام ادارے، سیاسی جماعتیں اور ریاستی ستون مل کر کام کریں گے۔ ہونا بھی یہی چاہئیے کیونکہ تمام تر سیاسی اور نظریاتی اختلافات کے باوجود یہ ہم سب کا پاکستان ہے۔