زندگی اور اقتدار میں ایک چیز مشترک ہے کہ اس کی مدت کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔ اچھا بھلا صحت مند انسان ایک لمحے میں اِس جہان سے اُس جہان کا سفر طے کر لیتا ہے۔ یہی کچھ اقتدار کے ساتھ (ہمارے ملک میں) بھی ہے۔ گو کہ آئین میں اقتدار کی مدت کا تعین ضرور موجود ہے لیکن اپنی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معاملہ اس کے بالکل برعکس نظر آتا ہے۔ آج تک کسی بھی وزیر اعظم نے اپنی آئینی مدت پوری نہیں کی۔ اس کی وجوہات اس وقت ہمارا موضوع نہیں اس لئے اس کو ہم یہیں چھوڑتے ہیں۔
آج کی فریکنگ نیوز یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنی حکومت کی ترجمان ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو برطرف کر دیا۔ اب یہ برطرفی معمول کے مطابق ہوئی یا کچھ حلقوں کے مطابق کرپشن پر ہوئی یہ بات کچھ وقت گزرنے پر ہی سامنے آئے گی۔ ڈاکٹر صاحبہ سیاست کے میدان کی کافی تجربہ کار کھلاڑی رہی ہیں۔ وہ اس سے پیشتر سابق آمر پرویز مشرف اور پھر پیپلز پارٹی کے دور میں بھی اپنی ’صلاحیتوں‘ کا مظاہرہ کر چکی ہیں۔ 2013 میں تمام تجزیہ کار اس بات پر متفق تھے کہ انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ن) حکومت بنائے گی تو محترمہ نے اس جماعت میں شمولیت کی بہت کوشش کی لیکن بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ محترمہ کیونکہ پیپلز پارٹی چھوڑ چکی تھیں لہٰذا اب ان کا ایک ہی ٹھکانہ رہ گیا تھا سو انہوں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی۔
وزیر اعظم عمران خان نے انہیں معاون خصوصی برائے اطلاعات مقرر کیا اور یہ بات ماننا پڑے گی کہ محترمہ نے پارٹی کے سربراہ کو اس معاملے میں مایوس نہیں کیا۔ انہوں نے وہی زبان اور لہجہ اختیار کیا جو اس جماعت کا خاصہ سمجھا جاتا ہے۔ کرونا کی وجہ سے گھروں میں مقید خواتین و حضرات کے لئے محترمہ کی پریس کانفرنسز تفریح کا واحد ذریعہ تھیں اور انہیں ڈاکٹر صاحبہ کی ایک کے بعد دوسری پریس کانفرنس کا انتظار رہتا تھا لیکن اب عوام اس تفریح بھی محروم کر دیے گئے ہیں۔
کوئی کیوں کسی کا لبھائے دل کوئی کیا کسی سے لگائے دل
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے
ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی برطرفی کے بعد ان کی جگہ آئی ایس پی آر کے سابق ڈی جی جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کی تعیناتی عمل میں آئی ہے جب کہ وزیر اطلاعات کا قلم دان جو ایک سال سے اپنے کل وقتی وزیر کی تلاش میں تھا اس پر سینیٹ میں قائد ایوان شبلی فراز کی تعیناتی کا اعلان ہوا ہے۔ یہ دونوں حضرات دھیمے مزاج کی شہرت رکھتے ہیں اور ان میں وہ شعلہ بیانی نہیں جو ڈاکٹر صاحبہ میں تھی اور یہی شائد کچھ عرصہ بعد ان کی برطرفی کی وجہ بھی بن جائے۔
وزیر اعظم بار بار تبدیلیاں کر کے جہاں اپنی نا اہلی اور ناکامی کا اعتراف کر رہے ہیں وہیں اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وزیر اعظم کو کسی پر اعتبار نہیں رہا اور انہیں احساس ہو گیا ہے کہ اب ان کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔