بدقسمتی سے پاکستان ایک مسئلے سے جان چھڑوانے کی کوشش کرتا ہے تو دوسرے مسئلے سے دوچار ہو جاتا ہے۔ آج کل ایک طرف جہاں معاشی صورت حال دگرگوں ہے اور پاکستان اس پر قابو پانے کی کوشش میں ہے، وہاں دوسری طرف اسے انتہا پسندی اور دوبارہ سے سر اٹھاتی دہشت گردی کا بھی سامنا ہے۔
پچھلے کچھ مہینوں سے ملک میں دہشت گرد عناصر پھر سے منظم ہو کر گاہے بگاہے کارروائیاں کر رہے ہیں۔ ان کارروائیوں میں ملکی سکیورٹی اداروں پر حملے سرفہرست ہیں۔ رواں برس جنوری میں پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں دہشت گردی کا قابل مذمت واقعہ پیش آیا جس کی ذمے داری پاکستانی طالبان نے قبول کی۔
اس کے دو ہفتے بعد فروری میں کراچی ڈی آئی جی آفس پر دہشت گردوں نے حملہ کیا جن کو کئی گھنٹے کے آپریشن کے بعد پولیس اور رینجرز نے مل کر ہلاک کیا۔ اس قابل مذمت واقعہ کی ذمہ داری بھی پاکستانی طالبان نے قبول کی۔
کہا جاتا ہے کہ تمام طالبان دھڑے چاہے وہ پاکستانی ہوں یا افغانی، ایک دوسرے کا دید لحاظ کرتے ہیں اور جب ضرورت پڑے ایک دوسرے کے کام بھی آتے ہیں۔
اگر یہ بات سچ ہے تو مجھے پاکستانی حساس ادارے کے سربراہ کی چائے کا کپ ہاتھ میں تھامے افغان طالبان کے ساتھ ان کی جیت کا جشن مناتے ہوئے کی تصویر دیکھ کر حیرت ہوئی تھی اور مجھے ان پاکستانیوں کی سوچ پر بھی تعجب ہے جو پاکستانی طالبان کو تو دہشت گرد سمجھتے ہیں جبکہ افغان طالبان کو امن کا دیوتا تصور کرتے ہیں۔ ہمیں اچھے طالبان اور برے طالبان کا فرق ختم کرنا ہو گا اور اس بات پر یقین رکھنا ہو گا کہ جو عناصر بھی دہشت پھیلا کر کسی انسانی جان کے خاتمے یا انسانی حقوق کی پامالی میں ملوث ہوں وہ دہشت گرد ہیں۔
پاکستانی طالبان کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ اور دہشت گردی یقیناً بیرونی امداد سے ہی ممکن ہے۔ اب چاہے یہ مدد افغان طالبان کی شکل میں ہو یا پھر کسی پاکستان مخالف ملک کے وسائل کی شکل میں۔
دہشت گردی کا تحفہ پاکستان کو باقاعدہ طور پر آمر ضیاء الحق کے دور میں ملا تھا جب پاکستان میں افغانستان کے رستے اسلحے کی بھرمار شروع ہوئی تھی۔
پاکستان میں موجودہ دہشت گردی کا تعلق بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر افغانستان اور کسی اور دشمن ملک سے جڑا ہوا ہے۔ یہ دہشت گرد خود کو مسلمان کہتے ہیں مگر درحقیقت ان کا اسلامی تعلیمات سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں کیونکہ اسلام تو امن کا دین ہے جو کسی بھی بے گناہ کی جان لینے سے منع کرتا ہے۔ اسلام تو خود کسی پر حملہ کرنے سے منع کرتا ہے۔
ہمارے اداروں کو سب سے پہلے تو ان درندوں کے سہولت کاروں کا خاتمہ کرنا ہو گا، کیونکہ سہولت کاری اور اندرونی مدد کے بغیر ایسی کارروائیاں ممکن نہیں۔
دہشت گردوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں روک کر ان کا قلع قمع کرنا ملکی سالمیت کے لیے بہت ضروری ہے اور اس سلسلے میں حکومت اور ملکی حساس اداروں کو مشترکہ لائحہ عمل بنا کر اس پر فوری عمل کرنا ہو گا۔
احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔