Get Alerts

پنجاب توہین مذہب سے جڑی متشدد سوچ کا مرکز کیسے بنا؟

برصغیر کی تقسیم نے پنجاب میں بے پناہ تشدد کو جنم دیا۔ پاکستان کا حصہ بننے والے پنجاب میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت ہو گئی۔ ہندوؤں اور سکھوں کے جانے کے بعد فرقہ وارانہ تشدد کی باقیات اور 1946 کے بلند و بانگ اسلامی نعروں سے بھڑکنے والی آگ کا رخ احمدیوں کی جانب مڑ گیا۔

پنجاب توہین مذہب سے جڑی متشدد سوچ کا مرکز کیسے بنا؟

پُرتشدد ماضی کی بازگشت

سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کی 2022 کی ایک تحقیق کے مطابق 1947 سے 2021 کے درمیان پاکستان میں توہین مذہب کے الزام میں 89 افراد کو قتل کیا گیا۔ اس عرصے کے دوران تقریباً 1500 الزامات لگے اور مقدمات درج ہوئے۔ ان میں سے 70 فیصد سے زیادہ کا تعلق پنجاب سے تھا۔

پاکستان کے دیگر صوبوں میں توہین مذہب کے الزامات اور قتل کے واقعات بہت کم ہیں۔ سندھ 173 الزامات اور قتل کے 9 واقعات کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے، اس کے بعد اسلام آباد 55 الزامات اور قتل کے 2 واقعات کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ خیبر پختونخوا میں 33 الزامات اور 6 قتل ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں سب سے کم تعداد میں ایسے واقعات رونما ہوئے۔ مؤخر الذکر دونوں علاقوں میں کوئی قتل نہیں ہوا جبکہ بلوچستان میں صرف ایک شہری کو قتل کیا گیا۔

1948 سے 1985 تک ملک میں توہین مذہب کے صرف 11 کیسز رپورٹ ہوئے اور محض 3 قتل ہوئے۔ یہ تب تھا جب ملک کے توہین مذہب کے قوانین میں موت کی سزا نہیں تھی۔ 1986 میں سزائے موت کے نفاذ کے بعد سے ان مقدمات کی تعداد میں 1،300 فیصد کا اضافہ ہوا۔

لیکن پنجاب توہین مذہب کے واقعات، تشدد اور ہلاکتوں کا گڑھ کیوں بنا ہوا ہے؟ اس دور میں بھی جب توہین مذہب کے قوانین بہت نرم تھے، یہاں 2 قتل ہوئے۔ دونوں مقتولین کا تعلق احمدیہ برادری سے تھا۔ پنجاب توہین مذہب سے متعلق تشدد کا مرکز بن چکا ہے۔ ماہر سیاسیات ڈاکٹر محمد وسیم اور کرسٹوف جیفرولٹ نے غور کیا ہے کہ کیا ان واقعات کا تعلق کسی بھی طرح سے 1947 میں تقسیم ہند کے دوران پنجاب میں پھوٹنے والے شیطانی 'فرقہ وارانہ تشدد' سے تو نہیں ہے۔

یہ خطہ ایک طرف مسلمانوں اور دوسری جانب ہندوؤں اور سکھوں کے درمیان وسیع پیمانے پر فسادات اور جھڑپوں کا مرکز تھا۔ ہزاروں لوگ مارے گئے۔ کئی سرکردہ سخت گیر ہندو قوم پرست اور اسلام پسند تنظیموں کے ہیڈ کوارٹر پنجاب میں تھے۔ ایک دوسرے کے خلاف تشدد میں ملوث ہونے کے علاوہ یہ تنظیمیں مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں جیسے جواہر لال نہرو کی انڈین نیشنل کانگریس اور محمد علی جناح کی آل انڈیا مسلم لیگ کے خلاف بھی برسر پیکار تھیں۔

ہندو قوم پرست ایک 'ہندو راشٹر' یعنی ہندو ریاست بنانا چاہتے تھے جسے وہ سمجھتے تھے کہ 'سیکولر' کانگریس ایسی ریاست بنانے کو تیار نہیں۔ دوسری جانب بنیاد پرست اسلام پسندوں نے آل انڈیا مسلم لیگ پر ایک 'سیکولر' پارٹی ہونے کی وجہ سے حملہ کیا جو اسلامی ریاست بنانے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ پنجاب میں اسلامی تنظیموں، جیسا کہ مجلس احرار، نے بھی مسلم لیگ پر الزام لگایا کہ 'منحرف مسلمان' (یعنی شیعہ اور احمدیہ) بھی اس کی صفوں میں شامل ہیں۔

ندیم فاروق پراچہ کا یہ مضمون بھی پڑھیں؛ پاکستانی کرکٹ میں طبقاتی، نسلی اور مذہبی تعصب کی تاریخ کتنی پرانی ہے؟

پنجاب میں اسلام پسندوں کی طرف سے لیگ پر لگائے گئے الزامات کو دور کرنے کے لیے آل انڈیا مسلم لیگ کو اپنے پیغام میں تبدیلی لانے پر مجبور ہونا پڑا۔ ہندوستان کے دیگر مسلم اکثریتی خطوں، جیسے مشرقی بنگال اور سندھ، اور ان خطوں میں جہاں مسلمان اقلیت میں تھے، مسلم لیگ نے مسلم قوم پرستی کا نعرہ لگایا اور یہ تصور علاقائی تھا۔ پارٹی نے قوم پرستی کے اس تصور کے معاشی اور سیاسی فوائد کو اجاگر کیا۔ لیکن پنجاب میں، اس حقیقت کے باوجود کہ 51 فیصد آبادی مسلمان تھی، مسلم لیگ کا پیغام بڑے پیمانے پر عوامی مقبولیت حاصل کرنے میں ناکام رہا۔

چنانچہ، برطانوی ہندوستان میں 1946 کے صوبائی انتخابات کے دوران، مسلم لیگ کو پنجاب میں کچھ طاقتور زمیندار پیروں (روحانی رہنماؤں) اور علمائے کرام کو اپنے ساتھ ملانا پڑا۔ صوبے کے مسلمانوں کو بیدار کرنے کے لیے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں، پیروں اور علمائے کرام کو پارٹی نے مسلم لیگ کے قوم پرست منشور سے قدرے دوری اختیار کرنے اور اس کے پیغام میں بنیاد پرست سوچ شامل کرنے کی اجازت دے دی۔

انہوں نے آئین پسند 'مغربی' خیالات کے حامی محمد علی جناح کو ایک ایسے نظریہ ساز کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا جو ایک 'نئی ریاست مدینہ' یا اسلامی ریاست بنانے کے لیے کوشاں ہیں اور یہ ریاست پرہیز گار رہنماؤں اور شرعی قوانین کے ذریعے چلائی جائے گی۔ محمد علی جناح اگرچہ پاکستان بنانے میں کامیاب ہو گئے مگر ایسا کچھ بھی وقوع پذیر نہ ہوا۔ لیکن پنجاب کی مسلم آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ مکمل طور پر بنیاد پرست بن گیا۔

برصغیر کی تقسیم نے پنجاب میں بے پناہ تشدد کو جنم دیا۔ جب اس صوبے کا مغربی حصہ پاکستان میں شامل ہوا تو یہاں مسلمانوں کی بھاری اکثریت ہو گئی۔ ہندوؤں اور سکھوں کی تعداد کم ہوتی گئی۔ ان کے جانے کے بعد فرقہ وارانہ تشدد کی باقیات اور 1946 کے بلند و بانگ اسلامی نعروں سے بھڑکنے والی آگ کا رخ احمدیوں کی جانب مڑ گیا۔ اس طرح، اس حقیقت میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ 1953 اور 1974 کی دونوں احمدیہ مخالف پرتشدد تحریکوں کا مرکز و محور پنجاب تھا۔

1974 کی احمدیہ مخالف تحریک جس کا مرکز پنجاب تھا، نے پارلیمنٹ کو مجبور کیا کہ وہ احمدیوں کو آئینی طور پر دائرہ اسلام سے بے دخل کرے۔ بنیاد پرست ذہنیت جو 1947 کے تشدد کے دوران پنجاب میں ابھری تھی، اس نے اپنی دیرپا توانائیوں کو مبینہ طور پر توہین مذہب کرنے والوں کی طرف موڑ دیا، خاص طور پر 1986 کے بعد۔

صوبہ پنجاب میں بریلوی سنی مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد آباد ہے۔ اس سنی ذیلی فرقے کو اس وقت الگ تھلگ ہو جانے اور عدم تحفظ کا شدید احساس ہوا جب جنرل ضیاء الحق کی آمرانہ دور کی 'اسلامائزیشن' پالیسیوں سے حریف سنی مکتبہ فکر کے ذیلی دیوبندی فرقے کو فائدہ پہنچنا شروع ہوا۔

اس کے ردعمل کے طور پر بنیاد پرست بریلوی رہنماؤں نے توہین مذہب کے قوانین کے 'دفاع' کو اپنا بنیادی مطالبہ قرار دیا۔ 2011 کے بعد پنجاب میں توہین مذہب سے متعلق تشدد اور ہلاکتوں کے واقعات میں خاص طور پر 10 گنا اضافہ ہوا۔ یہ وہ سال تھا جب بریلوی مکتبہ فکر کے ایک رکن ممتاز قادری نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو قتل کر دیا تھا۔ قاتل نے ان پر توہین مذہب کے قوانین پر تنقید کرنے کا الزام لگایا تھا۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

متشدد سوچ میں اضافے کے پیچھے ایک وجہ یہ بھی تھی کہ گورنر پنجاب کے قاتل کو بہت سے لوگوں نے 'ہیرو' قرار دیا۔ اس کے بعد پنجاب کے چند نامور سیاست دانوں نے بھی کھل کر اس کی تحسین کی۔ سلمان تاثیر کو جنوری 2011 میں قتل کیا گیا تھا۔ پنجاب میں اسی سال کے دوران توہین مذہب کے مزید 110 مقدمات اور الزامات رپورٹ ہوئے۔ 2014 میں یہ تعداد بڑھ کر 263 ہو گئی۔ 2020 میں ایک مرتبہ پھر ان واقعات میں اضافہ دیکھا گیا جب 231 ایسے واقعات رپورٹ ہوئے۔

اس صورت حال سے نکلنے کا کیا طریقہ ہے؟ بعض تشویش زدہ مبصرین مشورہ دیتے ہیں کہ چونکہ کوئی بھی ریاستی ادارہ یا حکومت توہین مذہب کے قوانین میں 1986 کے متنازعہ اضافے کو کالعدم قرار دینے پر تیار نہیں ہے، اس لیے کم از کم توہین مذہب کے جھوٹے الزامات لگانے والوں کے لیے یکساں طور پر عبرتناک سزاؤں کا اضافہ کر کے اس قانون کو قدرے 'متوازن' بنایا جا سکتا ہے۔

لیکن اسلام پسند جماعتیں اس معاملے پر بات بھی کرنے سے انکاری ہیں۔ یہ قوانین توہین مذہب سے متعلق تشدد کو معمول کی بات قرار دیتے آئے ہیں۔ ہجوم کی صورت میں حملہ کرنے والے دراصل یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کچھ ایسا کر رہے ہیں جو نا صرف خدا کی طرف سے مقرر کیا گیا ہے بلکہ مکمل طور پر جائز بھی ہے۔

اس نوعیت کا تشدد دیگر صوبوں میں نسبتاً کم ہے۔ لہٰذا یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان نے 1947 میں پنجاب کی طرح کا وحشیانہ تشدد نہیں دیکھا، جس کا اثر اور ذکر پنجاب کی سیاست پر اثر انداز ہوتا رہا ہے۔ پنجاب 19 ویں صدی کے اواخر اور 20 ویں صدی کے اوائل میں بھی فرقہ وارانہ اور مذہبی جھگڑوں کا مرکز رہا ہے۔

پاکستان میں توہین مذہب کے قوانین

1930 کی دہائی تک مسلم دنیا میں توہین مذہب کے خلاف قانون کا کوئی حقیقی تصور نہیں تھا۔ ہندوستان جس پر 6 صدیوں تک مسلمانوں کی حکومت رہی، اس میں بھی ایسا کوئی قانون نہیں تھا۔ برطانوی نوآبادیاتی دور میں انگریزوں نے 1860 میں پہلی بار جنوبی ایشیا میں توہین مذہب کے قوانین متعارف کروائے تھے۔ یورپی خطوں میں اس طرح کے قوانین نافذ کرنے کی البتہ ایک طویل تاریخ رہی ہے۔ 14 ویں صدی کے فرانس میں سب سے پہلے توہین مذہب کے قانون کا تصور تشکیل دیا گیا تھا اور اسے نافذ کیا گیا تھا۔ برطانیہ نے 19 ویں صدی میں جب بھارت پر مکمل قبضہ کیا، اس وقت برطانیہ میں بھی توہین مذہب کا قانون موجود تھا۔

1880 میں انگریزوں نے بھارت میں بظاہر ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین بنیاد پرستی پر مبنی تنازعات کو قابو میں رکھنے کے لیے توہین مذہب کے چار قوانین متعارف کرائے۔ تاہم ان قوانین میں سزائے موت شامل نہیں تھی۔ 1927 میں اسلام کے خلاف توہین آمیز کتاب لکھنے پر ایک مسلمان کے قتل کے بعد ایک سخت قانون نافذ کیا گیا۔ بعدازاں، انگریزوں کے ہندوستان سے چلے جانے کے بعد بھارت اور پاکستان دونوں نے اس قانون کو اپنا لیا۔

اس قانون کے مطابق توہین مذہب کی سزا میں ایک سال قید یا جرمانہ یا دونوں شامل تھے۔ 1980 کے بعد سے ان قوانین کا دائرہ پھیلایا گیا اور سزا کی شدت میں اضافہ ہوا۔ اس شدت کا منطقی نتیجہ  1986 میں اس جرم میں سزائے موت کے اضافے کی صورت میں برآمد ہوا۔

مسلم دنیا میں توہین مذہب کے قوانین

7 ویں صدی سے 20 ویں صدی کے اوائل تک کوئی ایک بھی ایسا واقعہ نہیں ملتا جس سے پتہ چلے کہ کسی مسلم اکثریتی علاقے میں توہین مذہب کا کوئی قانون نافذ کیا گیا ہو۔ درحقیقت، علم الکلام کے بہت سے ماہرین صدیوں سے اسلام میں توہین مذہب کے تصور پر بحث کرتے آئے ہیں۔ مسلمانوں کی مقدس کتاب، قرآن، توہین مذہب کو معمولی بات سمجھتی ہے اور قرآن میں اس جرم کی کوئی سزا تجویز نہیں کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ 20 ویں صدی کے اوائل تک کسی بھی مسلم اکثریتی خطے میں توہین مذہب کے قوانین کبھی نافذ نہیں ہوئے۔

کسی مسلم اکثریتی ملک میں توہین رسالت کا قانون سب سے پہلے سعودی عرب میں نافذ ہوا۔ سعودی عرب 1932 میں انگریزوں کی حمایت سے وجود میں آیا تھا۔ اس نے اسلام کا ایک انتہائی قدامت پسند نکتہ نظر اختیار کیا۔ سعودی قوانین میں توہین مذہب کے جرم میں سر قلم کر کے موت کا حکم رکھا گیا ہے۔

لیبیا نے 1953 میں توہین مذہب کا قانون نافذ کیا۔ اس قانون میں جرمانے اور کچھ سال قید کی سزا مقرر کی گئی۔

انڈونیشیا توہین رسالت کے قوانین نافذ کرنے والا تیسرا بڑا مسلم اکثریتی ملک تھا۔ اس نے 1965 میں یہ قانون بنایا۔ 2008 میں ایک طاقتور اسلامی لابی نے انڈونیشیا میں احمدیوں کی سرگرمیوں کو کامیابی کے ساتھ محدود کرنے کی کوشش کی۔ تاہم، اس اقدام کو قانون کا حصہ نہیں بنایا گیا تھا اور انڈونیشیا کے محض چند ہی صوبوں نے اسے اپنایا تھا۔

افغانستان نے 1976 میں 'مذاہب کے خلاف جرائم' کے نام سے ایک قانون نافذ کیا۔ لیکن یہ 1978 اور 1988 کے درمیان افغانستان میں سوویت حمایت یافتہ حکومت کے دوران ختم ہو گیا۔ 1996 میں، طالبان کی پہلی حکومت کے دوران توہین مذہب کے سخت ترین قوانین کو نافذ کیا گیا جن میں موت کی سزا شامل تھی۔ یہ سزائیں 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے تک برقرار رہیں۔

تاہم، امریکی حمایت یافتہ 'جمہوری' حکومت کے دور میں، 'مذاہب کے خلاف جرائم' کا قانون 2004 میں پھر سے بحال ہو گیا اور اس مرتبہ اس میں توہین مذہب کے لیے موت کی سزا تجویز کی گئی۔ لیکن اگر کوئی سزا یافتہ شخص اپنے 'توہین آمیز خیالات' واپس لے لے اور دو دن کے اندر توبہ کر لے تو اسے معاف کیا جا سکتا تھا۔ طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد آج کل افغانستان میں اس قانون کی کیا حیثیت ہے، اس بارے میں وثوق سے کچھ بھی کہنا ممکن نہیں۔

پاکستان اور بھارت نے توہین مذہب کے انہی قوانین کو اپنا لیا جو انگریزوں نے متعارف کرائے تھے۔ یہ قوانین نرم نوعیت کے تھے اور دونوں ملکوں میں شاذ و نادر ہی کبھی استعمال ہوتے تھے۔ اس قانون میں جو سزا مقرر کی گئی تھی وہ ایک سال قید یا جرمانہ تھی۔ بھارت نے اس قانون کو آج تک برقرار رکھا ہے۔

پاکستان میں 1977 کی رجعت پسند فوجی بغاوت کے بعد 1980 میں توہین مذہب کے ارتکاب کی سزا میں مزید دو سال کا اضافہ کیا گیا۔ 1984 میں احمدیوں کے لیے اسلام کی تبلیغ یا خود کو مسلمان کہنے کے جرم میں 3 سال قید کی سزا کا اضافہ کیا گیا۔ انہیں 1974 میں پاکستان نے آئینی ترمیم کے ذریعے دائرہ اسلام سے خارج کر دیا تھا۔

1986 میں ایک آرڈیننس کے ذریعے توہین مذہب کے قانون میں سزائے موت کا اضافہ کیا گیا۔ یہ آرڈیننس 1991 میں ختم ہو گیا، لیکن ایک منتخب پارلیمنٹ نے اسے دوبارہ نافذ کر دیا۔ 1991 سے لے کر اب تک پاکستان کی جیلوں میں توہین مذہب کے الزامات کے تحت سب سے زیادہ لوگ قید ہیں۔ ایسے بھی بڑی تعداد میں واقعات ہوئے ہیں جن میں مشتعل ہجوم کی جانب سے یا انفرادی سطح پر لوگوں نے توہین مذہب کے الزام میں کئی لوگوں کو قتل کر دیا۔ جھوٹے الزامات لگانے والوں کو پاکستان کا قانون کوئی سزا نہیں دیتا۔

ایران میں توہین مذہب کے قوانین سب سے پہلے 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد متعارف کرائے گئے۔ ایران میں توہین مذہب کے مرتکب لوگوں کے لیے پھانسی یا فائرنگ سکواڈ کے ذریعے موت کی سزا رکھی گئی۔ ایران میں اب بھی یہ قوانین موجود ہیں جو اکثر سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال ہوتے ہیں۔

مصر نے 1981 میں توہین مذہب کا قانون نافذ کیا۔ اگرچہ اس میں موت کی سزا نہیں ہے، لیکن اس نے کھلے عام تشدد کے واقعات کو بڑھاوا دیا۔

متحدہ عرب امارات، قطر، الجزائر، عمان، اردن، ملائیشیا، صومالیہ، سوڈان، مراکش اور یمن کچھ دیگر ایسے مسلم ممالک ہیں جن میں توہین مذہب کے قوانین موجود ہیں۔ ان میں سے صرف یمن اور صومالیہ میں توہین مذہب کے قوانین میں سزائے موت رکھی گئی ہے۔ وسطی ایشیا اور یورپ میں مسلم اکثریت والے سابق کمیونسٹ ممالک میں سے صرف ایک قازقستان میں توہین مذہب کا قانون رائج ہے۔

جن مسلم اکثریتی خطوں میں توہین مذہب کے قوانین موجود ہیں ان میں سے ایران، پاکستان، لیبیا، افغانستان، صومالیہ اور یمن میں اس جرم کی سزا سزائے موت ہے۔ مغربی دنیا میں ایسے قوانین ختم ہو چکے ہیں یا منسوخ کیے جا چکے ہیں۔

**

ندیم فاروق پراچہ (این ایف پراچہ) کا یہ مضمون انگریزی روزنامے The Friday Times میں شائع ہوا جسے نیا دور قارئین کے لیے ترجمہ کیا گیا ہے۔